Live Updates

وزیر خزانہ نی175 کھرب سے زائد کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا، ایف بی آر محصولات کا تخمینہ 14ہزار 131 ارب روپے لگایا گیا

دفاعی بجٹ کیلئے دو ہزار 550ارب روپے مختص ،8 ہزار 207 ارب روپے سود کی ادائیگی ،جاری اخراجات کا تخمینہ 16 ہزار 286 ارب روپے،حکومت کی خالص آمدنی 11 ہزار 72 ارب روپے،نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5 ہزار 147 ارب روپے،ترقیاتی پروگرام کیلیے ایک ہزار ارب روپے ،پنشن کیلئے ایک ہزار 55 ارب روپے ،بجلی و دیگر شعبوں کے لیے سبسڈی کے طور پر ایک ہزار 186 ارب روپے ،گرانٹس کی مد میں ایک ہزار 928 ارب روپے ،جاری اخراجات میں سے آزاد کشمیر کیلئے 140 ارب، گلگت بلتستان کیلئے 80 ارب، خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کیلئے 80 ارب اور بلوچستان کے لیے 18 ارب روپے رکھنے ، تنخواہوں میں 10، پنشن میں 7 فیصد اضافہ، انکم ٹیکس میں کمی کی تجویز تنخوادار طبقے اور پراپرٹی پر ریلیف ملے گا ،سولر پینل پر 18فیصد ٹیکس عائد ہوگا ،تمام گاڑیوں کے سیلز ٹیکس کو یکساں کیا جائیگا ، وزیر خزانہ پٹرول،ڈیزل استعمال کرنے والی یا ہائبرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں یکسانیت لائی جائیگی، اٹھارہ فیصد سے کم سیلز ٹیکس والی تمام گاڑیوں پر بھی 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ،ای کامرس پلیٹ فارمزترسیل کرنے والے کوریئر اور لاجسٹک خدمات فراہم کرنے والوں سے 18 فیصد سیلز ٹیکس وصول کرکے جمع کرائیں گے منی بجٹ کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا مگر کوئی منی بجٹ نہیں آیا نا کوئی نیا ٹیکس لگایا گیا،کے پی اور بلوچستان کے ضم اضلاع کی ٹیکس چھوٹ ختم کر دی گئی شریک حیات کے انتقال کے بعد پنشن 10 سال تک محدود،دس وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کی منظوری ، چھ ڈویژنز کو ضم کر کے تین ڈویژن بنادیئے گئے، پینتالیس کمپنیوں اور اداروں کو پرائیوٹائز، ضم یا ختم کیا جائیگا، چالیس ہزار پوسٹیں ختم ، اگلی دس وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کی سفارشات حتمی شکل دیدی گئی ہے ، نئی انرجی وہیکل پالیسی منظور کی گئی ہے جس کے تحت الیکٹرک گاڑیوں کو ترجیح دی جائے گی، سینیٹر محمد اور نگزیب الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری اور فروخت کو فروغ دینے کیلئے لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے، لیوی معدنی تیل استعمال کرنے والی گاڑیوں کی فروخت اوردرآمد پرانجن کی طاقت کے مطابق عائد ہوگی،سالانہ 20کروڑ سے 50 کروڑ روپے آمدنی پر سپر ٹیکس میں 0.5 فیصد کمی کا فیصلہ کیا ہے،جائیداد کی خریداری پر ٹیکس میں کمی ہوگی ، پیٹرولیم مصنوعات پر کاربن لیوی لگانے اور تعمیراتی شعبے میں ٹیکس کم کرنے کی تجویز ہے ،کم آمدن طبقے کو گھر خریدنے یا تعمیر کیلئے سستے قرضوں کا وعدہ ہے ،حکومت نے سستی بجلی کے حصول کے لیے جامع منصوبہ بندی کر لی ہے جس سے آنے والے دنوں میں سستی بجلی کا حصول ممکن ہو گا، قومی اسمبلی میں تقریر

منگل 10 جون 2025 20:30

ن* اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 جون2025ء)وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نی175 کھرب سے زائد کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا،ایف بی آر محصولات کا تخمینہ 14ہزار 131 ارب روپے لگایا گیا ہے، دفاعی بجٹ کیلئے دو ہزار 550ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ،8 ہزار 207 ارب روپے سود کی ادائیگی ،جاری اخراجات کا تخمینہ 16 ہزار 286 ارب روپے،حکومت کی خالص آمدنی 11 ہزار 72 ارب روپے،نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5 ہزار 147 ارب روپے،ترقیاتی پروگرام کے لیے ایک ہزار ارب روپے ،پنشن کیلئے ایک ہزار 55 ارب روپے ،بجلی و دیگر شعبوں کے لیے سبسڈی کے طور پر ایک ہزار 186 ارب روپے ،گرانٹس کی مد میں ایک ہزار 928 ارب روپے ،جاری اخراجات میں سے آزاد کشمیر کیلئے 140 ارب، گلگت بلتستان کیلئے 80 ارب، خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کیلئے 80 ارب اور بلوچستان کے لیے 18 ارب روپے رکھنے ، تنخواہوں میں 10، پنشن میں 7 فیصد اضافہ، انکم ٹیکس میں کمی کی تجویز پیش کی گئی ، تنخوادار طبقے اور پراپرٹی پر ریلیف ملے گا ،سولر پینل پر 18فیصد ٹیکس عائد ہوگا ،تمام گاڑیوں کے سیلز ٹیکس کو یکساں کیا جائیگا ،پٹرول،ڈیزل استعمال کرنے والی یا ہائبرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں یکسانیت لائی جائیگی، اٹھارہ فیصد سے کم سیلز ٹیکس والی تمام گاڑیوں پر بھی 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے،ای کامرس پلیٹ فارمزترسیل کرنے والے کوریئر اور لاجسٹک خدمات فراہم کرنے والوں سے 18 فیصد سیلز ٹیکس وصول کرکے جمع کرائیں گے جبکہ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اور نگزیب نے کہا ہے کہ منی بجٹ کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا مگر کوئی منی بجٹ نہیں آیا نا کوئی نیا ٹیکس لگایا گیا،کے پی اور بلوچستان کے ضم اضلاع کی ٹیکس چھوٹ ختم کر دی گئی ،شریک حیات کے انتقال کے بعد پنشن 10 سال تک محدود،دس وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کی منظوری ، چھ ڈویژنز کو ضم کر کے تین ڈویژن بنادیئے گئے، پینتالیس کمپنیوں اور اداروں کو پرائیوٹائز، ضم یا ختم کیا جائیگا، چالیس ہزار پوسٹیں ختم ، اگلی دس وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کی سفارشات حتمی شکل دیدی گئی ہے ، نئی انرجی وہیکل پالیسی منظور کی گئی ہے جس کے تحت الیکٹرک گاڑیوں کو ترجیح دی جائے گی، الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری اور فروخت کو فروغ دینے کیلئے لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے، لیوی معدنی تیل استعمال کرنے والی گاڑیوں کی فروخت اوردرآمد پرانجن کی طاقت کے مطابق عائد ہوگی،سالانہ 20کروڑ سے 50 کروڑ روپے آمدنی پر سپر ٹیکس میں 0.5 فیصد کمی کا فیصلہ کیا ہے،جائیداد کی خریداری پر ٹیکس میں کمی ہوگی ، پیٹرولیم مصنوعات پر کاربن لیوی لگانے اور تعمیراتی شعبے میں ٹیکس کم کرنے کی تجویز ہے ،کم آمدن طبقے کو گھر خریدنے یا تعمیر کیلئے سستے قرضوں کا وعدہ ہے ،حکومت نے سستی بجلی کے حصول کے لیے جامع منصوبہ بندی کر لی ہے جس سے آنے والے دنوں میں سستی بجلی کا حصول ممکن ہو گا۔

(جاری ہے)

منگل کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے شدید احتجاج اور شورشرابہ کے دور ان بجٹ تقریر کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس معزز ایوان کے سامنے مالی سال 26-2025 کا بجٹ پیش کرنا میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے، اس مخلوط حکومت کا یہ دوسرا بجٹ ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی قیادت خصوصا میاں محمد نواز شریف ، بلاول بھٹو، خالد مقبول صدیقی، چوہدری شجاعت حسین، عبدالعلیم خان اور خالد حسین مگسی کی رہنمائی کے لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

انہوںنے کہاکہ یہ بجٹ نہایت اہم اور تاریخی موقع پر پیش کیا جارہا ہے، قوم میں حالیہ دنوں میں غیر معمولی اتحاد، عزم اور ہمت کا عملی مظاہرہ پیش کیا ہے، بھارتی جارحیت کے مقابل ہماری سیاسی قیادت، افواج پاکستان اور پاکستان کے غیور عوام نے جس جواں مردی، دانشمندی اور یکجہتی کا ثبوت دیا، وہ تاریخ کے سنہری اوراق میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ کامیابی ایک شاندار عسکری کامیابی کے علاوہ پوری قوم کے اجتماعی شعور، قومی وقار اور غیرت کا مظہر تھی، میں یہاں پر پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔انہوںنے کہاکہ ہماری افواج نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت، شجاعت اور جذبہ قربانی سے دشمن کو مؤثر اور بھر پور جواب دیا جس سے نہ صرف ہماری سرحدوں کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنا بلکہ عالمی برادری میں پاکستان کا وقار بھی بلند ہوا، اس عظیم کامیابی نے یہ پیغام دیا کہ پاکستانی قوم ہر آزمائش میں متحد ہے اور مادر وطن کے دفاع کیلئے سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اسی قومی عزم اور یکجہتی کو بروئے کار لاتے ہوئے اب ہماری توجہ معاشی استحکام، ترقی اور خوشحالی کے حصول کی جانب مرکوز ہے، ہم نے جس جذبے سے قومی سلامتی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا ہے، اٴْسی خلوص اور حوصلے کے ساتھ ہمیں اپنی معیشت کو مستحکم اور عوام کی فلاح کو یقینی بنانا ہے۔وزیر خزانہ نے کہاکہ ہم نے پچھلے لگ بھگ سوا ایک سال کے دوران قومی اتحاد اور عزم کے جذبے کے ساتھ معاشی بحالی، اصلاحات اور ترقی کا سفر کامیابی سے طے کیا ہے اور معاشی اصلاحات، مالیاتی نظم و ضبط، اور ترقیاتی منصوبہ بندی کو یکجا کرتے ہوئے نہ صرف معیشت کو استحکام بخشا ہے بلکہ مستقبل کی بنیادیں بھی مضبوط کی ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ یہی ویژن ہمیں آگے بڑھاتا ہے، ایک ایسے پاکستان کی طرف جہاں ترقی ہر فرد کی دہلیز تک پہنچے اور قوم بحیثیت مجموعی خوشحال ہو، راہ پر قائم، خوشحالی دائم یہی ہمارا عزم، ہماری حکمت عملی اور ہمارا نعرہ ہے۔وزیر خزانہ نے کہاکہ ہم نے گزشتہ سال معیشت کی بہتری کے لیے کئی اہم اقدامات کیے، جن کے نتیجے میں مالی نظم و ضبط میں نمایاں بہتری آئی اور ہمیں کئی کامیابیاں حاصل ہوئیں، جن میں سے کچھ کا ذکر کرنا چاہوں گا جس کے مطابق جی ڈی پی کے 2.4 فیصد کے برابر پرائمری سرپلس کا حصول،افراط زر میں نمایاں کمی 4.7 فیصد،پچھلے سال کے 1.7 ارب ڈالر خسارے کے مقابلے میں اس سال سرپلس کرنٹ اکاؤنٹ 1.5 ارب ڈالر متوقع،روپے کی قدر میں استحکام شامل ہے ۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ ترسیلات زر موجودہ مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں 31 فیصد اضافے کے ساتھ 31.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، ہم پر امید ہیں کہ موجودہ مالی سال کے اختتام تک ترسیلات زر کا حجم 38 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔انہوںنے کہاکہ اسٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں دو ارب ڈالر کا اضافہ ہو چکا ہے، موجودہ سال کے اختتام تک یہ ذخائر 14 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔

سینیٹر محمد اور نگزیب نے کہاکہ اقتصادی بہتری کیلئے حکومت کو سخت فیصلے لینے پڑے، پاکستان کے غیور عوام نے بھی متعدد قربانیاں دیں جن کے مثبت نتائج سامنے آئے، ہمارے مائیکرو اکنامک اسٹیبلائزیشن پروگرام کی کامیابی کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیاگیا، اسی طرح گلوبل فنانشل ادارے، ریٹنگ ایجنسیز اور ملکی و غیر ملکی سروے معیشت میں بہتری کی گواہی دے رہے ہیں،اسی طرح پی ڈبلیو سی کے مطابق کاروباری اداروں کے سربراہان کا معیشت میں بہتری پر اعتماد 49 فیصد سے بڑھ کر 83 فیصد تک پہنچ چکا ہے، اسی اعتماد کی بازگشت اورسیز چیمبرز کے تحت پاکستان میں کاروبار کرنے والے بیرونی سرمایہ کاروں میں بھی سنی جاسکتی ہے جہاں بزنس کانفڈینس انڈیکس میں تاریخی بہتری آئی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ گیلپ کیمطابق بھی پاکستانی معیشت میں واضح بہتری آئی ہے اور ہاؤس ہولڈ فنانشل آؤٹ لک میں صرف پچھلی سہ ماہی میں 27.5 فیصد اضافہ ہوا ہے، آئی پی ایس او ایس سروے کے مطابق پاکستان کے بہتر مستقبل کے حوالے سے عوام اور مقامی صارفین کی توقعات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ 6 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔انہوں نے کہا کہ فچ نے پاکستان کی ریٹنگ کو ٹرپل سی پلس سے بڑھا کر منفی بی کرتے ہوئے معاشی مستقبل میں بہتری کی نوید دی ہے، موڈیز نے بھی معیشت میں بہتری کی نشاندہی کی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور آئی ایف سی نے نہ صرف پاکستانی معیشت کے مستقبل پر اعتماد کا اظہار کیا ہے بلکہ پاکستان کے لیے خطیر فنڈنگ کا اعلان بھی کیا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارا سب سے اہم معاشی مسئلہ محصولات کے نظام کی مسلسل کمزوری تھی، پاکستان کی ،ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو‘ 10 فیصد تھی جو کہ ترقیاتی اخراجات اور ریاست کے انتظامی معاملات چلانے کے لیے ناکافی تھی۔

مزید برآں ایف بی آر کے مطابق پاکستان میں ٹیکس گیپ کا تخمینہ 5.5 ٹریلین روپے لگایا گیا، یعنی ہم آدھے سے زیادہ ممکنہ ٹیکس سے محروم تھے، یہ صورت حال ناقابل قبول تھی، اس خلا کو پر کرنا نہ صرف ضروری تھا بلکہ ملک کو 14 فیصد،ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کی پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنا ناگزیر تھا۔انہوںنے کہاکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی تھی کہ ایف بی آر اس حل کا محض ایک حصہ نہیں بلکہ بنیاد ہے، ایف بی آر میں اصلاحات کیے بغیر معیشت کو مستحکم کرنا اور قومی اہداف حاصل کرنا ممکن نہ تھا، اسی لیے وزیر اعظم کی سربراہی میں ایف بی آر اصلاحاتی پلان کا آغاز کیا گیا، یہ کوئی روایتی مشق نہیں تھی بلکہ وزیراعظم کی براہ راست نگرانی میں ایک تفصیلی مشاورت کے ذریعے تیار کیا گیا منصوبہ تھا جس کی ستمبر 2024 میں منظوری دی گئی، اس منصوبے کی بنیاد 3 ستونوں پر ہے، (عوام، ترقی اور ٹیکنالوجی)۔

انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کا محور ڈیجیٹل اصلاحات ہے، پاکستان میں پہلی مرتبہ معیشت اور ٹیکس نظام کے درمیان جامع ڈیجیٹل ہم آہنگی کا آغاز کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت اٹھائے گئے اہم اقدامات میں (ڈیجیٹل پروڈکشن ٹریکنگ) کا آغاز چینی کے شعبے سے کیا گیا جسے اب سیمنٹ، مشروبات، کھاد اور ٹیکسٹائل تک توسیع دی جا رہی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہم انسانی وسائل کی ترقی پر بھی بھر پور سرمایہ کاری کر رہے ہیں، آڈیٹرز کی صلاحیت سازی کے لیے کے لیے نئی بھرتیاں کی گئی ہیں جبکہ شعبہ جاتی ماہرین اور آڈٹ مینٹورز کو کلیدی اکائیوں میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ تربیت اور پیشہ ورانہ رہنمائی کا تسلسل برقرار رکھا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ افسران کو آڈٹ، قانون اور ڈیجیٹل مہارتوں پر مبنی منظم تربیتی پروگرامز کے ذریعے مہارت دی جارہی ہے، پیچیدہ قانونی مقدمات کی پیروی کے لیے صف اول کی قانونی فرموں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب افسران کو انعامات محض سینارٹی سے نہیں بلکہ ان کی کارکردگی، پیشہ ورانہ رویے اور دیانت داری سے مشروط کیا گیا ہے۔

انہوںنے کہاکہ میں ایوان کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس منصوبے کے ابتدائی نتائج نہایت حوصلہ افزا رہے ہیںجس کے مطابق چینی کے شعبے سے محصولات میں 47 فیصد اضافہ ہوا،ڈیٹا انٹیگریشن کے ذریعے 3 لاکھ 90 ہزار ہائی ویلیو نان فائلرز کی نشاندہی ہوئی، جس سے 30 کروڑ روپے کی وصولی ممکن ہوئی،فراڈ اینالیٹکس کے ذریعے 9.8 ارب روپے کے جعلی رقم کی واپسی کے دعوؤں کو بلاک کیا گیا،مصنوعی ذہانت پر مبنی آڈٹ سسٹم کے تحت 200 سے زائد کیسز کی نشاندہی کی گئی جن کی مالیت 13.3 ارب روپے سے زیادہ ہے،فیس لیس کسٹم آڈٹ کے ذریعے قانون پر عمل پیرا امپورٹرز کو سہولت فراہم کی گئی،فائلنگ اور ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں 100 فیصد اضافہ ہوا اور محاصل 45 ارب سے بڑھ کر 105 ارب روپے تک پہنچ گئے۔

انہوںنے کہاکہ یکم جولائی سے 800 کالم والا ریٹرن سادہ فارمیٹ میں تبدیل کر دیا جائے گا جس میں صرف 7 بنیادی معلومات درکار ہوں گی، یہ آسان اور صارف دوست ریٹرن، خاص طور پر تنخواہ دار افراد اور چھوٹے کاروباروں کے لیے متعارف کروایا جا رہا ہے، جس کے بعد کسی وکیل یا ماہر کی مدد کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف نے قوانین کے نفاذ کے ذریعے 389 ارب روپے کے محصولات کو باضابطہ تسلیم کیا ہے، یہ غیر معمولی اعتراف ہمارے اصلاحاتی اقدامات کی طاقت، وسعت اور ساکھ کا واضح ثبوت ہے، دوسرے الفاظ میں یہ آئی ایم ایف کا پاکستان کی اصلاحات پر اعتماد کا مظہر ہے، جو لوگ منی بجٹ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے تھے، میں بڑے ادب سے ان دوستوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی منی بجٹ نہیں آیا اور نہ ہی کوئی اضافی ٹیکس لگایا گیا۔

انہوںنے کہاکہ کئی ٹیکس دہندگان مقدمات کے ذریعے ٹیکس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کیسز کی کمزور پیروی کی وجہ سے حکومتی محاصل طویل عرصے تک التوا کا شکار رہتے ہیں۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت کی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے اس سال ایف بی آر نے کامیاب قانونی چارہ جوئی کے ذریعے 78.4 ارب روپے کے محاصل وصول کر لیے ہیں، اس اہم کامیابی پر میں قانونی ٹیم اور معزز عدلیہ کا تہہ دل سے مشکور ہوں، اس کے علاوہ عدالتوں میں اے ڈی آر سے متعلق ایک مقدمے کو مذاکراتی تصفیہ کے ذریعے حل کیا گیا جس سے قومی خزانے کو 77 ارب حاصل ہوئے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ معاشی ترقی کے لیے پاور سیکٹر کے شعبے کی اہمیت مسلمہ ہے، ہم نے معاشی ترقی کے حصول اور ملکی صنعت کے لیے بجلی کی اہمیت کے پیش نظر صنعتی شعبے کے لیے بجلی کی قیمت میں 31 فیصد سے زائد کمی کی ہے جب کہ ایک کروڑ 80 لاکھ مستحق اور پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں کمی 50 فیصد سے بھی زائد ہے۔انہوںنے کہاکہ ہم نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر بھی نظرثانی کی ہے جس کے نتیجے میں 3 ہزار ارب روپے سے زیادہ کی بچت ہوگی، اس طریقہ کار پر عمل کرکے ہم ماحول کے لیے نقصان دہ 3 ہزار میگاواٹ گنجائش سے زائد فرنس آئل پاور پلانٹس کو بند کرنے میں کامیاب ہوئے۔

انہوںنے کہاکہ ہمیں احساس ہے کہ مستقل بنیادوں پر بہتری لانے کے لیے پاور سیکٹر میں گہری اور بنیادی اصلاحات لانا ضروری ہیں، ہم نے آگے بڑھتے ہوئے فیصل آباد، گوجرانوالہ اور اسلام آباد کی 3 ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کا تقریباً آدھا عمل مکمل کر لیا ہے اور ان کی نجکاری کے تمام ضروری لوازمات پورے کر لیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے بجلی کی ترسیل کے ادارے این ٹی ڈی سی کو موثر بنانے کے لیے اس کی تنظیم نو کی ہے اور اسے 3 نئی کمپنیوں میں تقسیم کردیا ہے، یہ کمپنیاں مستقبل کے پراجیکٹس کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد کی ذمے دار ہوں گی تاکہ بجلی کے ترسیلی نظام میں رکاوٹیں دور کی جا سکیں۔

اِن اداروں کو چلانے کے لیے عالمی معیار کے افراد تعینات کیے جائیں گے۔انہوںنے کہاکہ مجھے یہ بتاتے ہوئی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اب بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا انتظام پروفیشنل بورڈز کے سپرد ہے، ہم نے ان بورڈز میں سیاسی مداخلت کو ختم کر دیا ہے، پروفیشنل بورڈز کے آنے سے ان کمپنیوں نے صرف 9 مہینوں میں اپنے نقصانات میں 140 ارب روپے کی کمی کی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ انشااللہ ہمارا عزم ہے کہ اگلے 5 سالوں میں کمپنیوں کے ان نقصانات کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا جبکہ بجلی کے شعبے میں مسابقتی اور آزاد مارکیٹ کے قیام کے لیے قانون سازی اور ضوابط کو حتمی شکل دے دی گئی ہے ،اگلے 3 ماہ میں اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار توانائی بچت کے اصولوں پر مبنی بلڈنگ کوڈز منظور کیے گئے ہیں اور وفاقی و صوبائی اداروں کو ان ضوابط پر مکمل عملدرآمد کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ مستقبل میں بننے والی تمام تعمیرات توانائی کے اعتبار سے مؤثر اور فعال ہوں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے سستی بجلی کے حصول کے لیے جامع منصوبہ بندی کر لی ہے جس سے آنے والے دنوں میں سستی بجلی کا حصول ممکن ہو گا، اس منصوبے کے تحت اب تک 4 ہزار ارب روپے سے زائد کی بچت کی ہے اور 9 ہزار میگاواٹ گنجائش کے مہنگے بجلی گھر جنہیں نیشنل گرڈ میں شامل کیا جانا تھا، ترک کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے بجلی کی پیداوار کے ایسے تمام پلانٹس کو بند کر دیا ہے جو جنریشن کمپنیوں کی شکل میں سرکاری ملکیت میں تھے، ان پلانٹس کے فالتو آلات کی فروخت کا عمل شروع ہو گیا ہے تا کہ ان اداروں کے باعث ملکی خزانہ پر 7 ارب روپے سالانہ سے زائد کے بوجھ کا خاتمہ ہو سکے۔

سینیٹرمحمد اورنگزیب نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران ہم نے پاکستان کے تیل اور گیس کے شعبے میں ہدف پر مبنی اصلاحات کیں جن سے سرمایہ کاری میں اضافہ، اور اسٹریٹیجک تنوع کے بل بوتے پر نمایاں ترقی ہوئی ہے جب کہ ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن (ای اینڈ پی) کے شعبے میں مسابقتی بولیوں میں خاص طور پر ترک پیٹرولیم سمیت بین الاقوامی کمپنیوں کی خاصی دلچسپی رہی، جو طویل عرصے کے بعد آن شور سیکٹر میں قابل ذکر بیرونی سرمایہ کاری کی علامت ہے۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان آف شور ایکسپلوریشن بڈ 2024 کا آغاز ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے بعد عمل میں آیا، جس سے آف شور سیکٹر میں ای اینڈ پی سرگرمی بحال ہوئی جب کہ تیل اور گیس کی کی متعدد دریافتوں سے درآمدات کے متبادل میں مدد ملی اور انرجی سیکیورٹی میں بہتری آئی، ای اینڈ پی کمپنیوں نے مستقبل میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے 5 ارب امریکی ڈالرز سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے جب کہ پہلے سے رواں فیلڈز پر جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے ان کی استعداد بڑھانے کے منصوبوں پر بھی توجہ مرکوز کی گئی۔

پیٹرولیم پالیسی 2012 ٹائٹ گیس پالیسی میں ترامیم، مناسب قیمتوں سمیت متعدد پالیسی اصلاحات سے مسابقت میں بہتری آئی۔انہوں نے کہا کہ ریفائننگ اور ڈاؤن اسٹریم سیکٹر میں پاکستان ریفائنگ پالیسی 2023 کے ذریعے تحرک دیکھنے میں آیا ہے، جس سے یورو-وی اپ گریڈز اوراستعداد میں توسیع لانے میں معاونت ملی، ایندھن کی قیمتوں کی ڈی ریگولیشن کی جانب اقدامات کا مقصد مسابقت اور نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔

انہوںنے کہاکہ ریکوڈک میں واقع تانبے اور سونے کی کانیں ہمارے مستقبل کا ایک اہم اثاثہ ہیں، حکومت اس اثاثے کو مفید بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، اس منصوبے کی فزیبلٹی سٹڈی جنوری 2025 میں مکمل کی گئی اور اس منصوبے کی متوقع کان کنی کی مدت 37 سال ہے جس کے دوران ملک کو 75 ارب ڈالر سے زائد کے کیش فلوز حاصل ہوں گے جب کہ اس منصوبے کے تحت تعمیراتی کام میں 41 ہزار 500 ملازمتیں فراہم ہوں گی۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ منصوبے سے کمیونٹی پروگراموں، مقامی خریداری ماحولیاتی حفاظتی اقدامات اور معاونت کے ذریعے نمایاں سماجی و اقتصادی ترقی کا حصول ممکن ہو گا، اس منصوبے سے 7 ارب ڈالر کے ٹیکس اور 7.8 ارب ڈالر کی رائلٹی متوقع ہے جب کہ برآمدات میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ریکوڈک سے پورٹ قاسم اور گوادر تک سڑک اور ریل کے ذریعے نقل وحمل کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر جاری ہے، یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہوگا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت سازگار کاروباری ماحول پیدا کرنے، سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور برآمدات کو بڑھانے کے لیے پٴْر عزم ہے، وزارت تجارت نے مسابقتی ، متنوع اور برآمدات پر مبنی ملکی معیشت کے فروغ کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں، حکومت معاشی ترقی، کاروبار کو سپورٹ کرنے اور برآمدات کو فروغ دینے کے واضح ویڑن کے ذریعے ایک جامع ٹیرف ریفارمز پیکچ متعارف کروا رہی ہے، جس کا مقصد موجودہ ٹیرف کو مناسب بنانا ہے تاکہ برآمدات کو بڑھا کر معاشی ترقی کو تیز کیا جاسکے۔

انہوںنے کہاکہ وزیراعظم کی ہدایات کے مطابق درج ذیل ٹیرف اصلاحات کو نیشنل ٹیرف پالیسی 30-2025 کا حصہ بنایا جا رہا ہے جس کے تحت 4 سال میں اضافی کسٹم ڈیوٹی کا خاتمہ،5 سال میں ریگولیٹری ڈیوٹیز کا خاتمہ،کسٹم ایکٹ 1969 کے 5 ویں شیڈول کا 5 سالوں میں اختتام،کل چار کسٹمز ڈیوٹی سلیبز (0 فیصد، 5 فیصد، 10 فیصد، اور 15 فیصد )،زیادہ سے زیادہ کسٹم ڈیوٹی کی حد 15 فیصد۔

انہوں نے کہا کہ ان ٹیرف اصلاحات کو مرحلہ وار لاگو کیا جائے گا تاکہ کاروبار کسی خلل کے بغیر اس تبدیلی کے ساتھ ایڈجسٹ کرسکیں اور ان کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو کم سے کم کیا جاسکے جب کہ معیشت کے تقریباً تمام شعبے ان اصلاحات سے مستفید ہوں گے جن میں فارماسیوٹیکل، آئی ٹی اور ٹیلی کام، ٹیکسٹائل، انجینئر نگ وغیرہ شامل ہیں۔انہوںنے کہاکہ ورلڈ بینک کے مطابق ان اصلاحات کے کامیاب نفاذ کے بعد پاکستان کے اوسط ٹیرف، خطے میں سب سے کم ہو جائیں گے اور ہم ویت نام اور انڈونیشیا جیسے ممالک کی صف میں شامل ہو جائیں گے، ہمیں یقین ہے کہ ان اصلاحات کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے اور یہ ملک کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پچھلی دو دہائیوں سے ہماری معیشت قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے، مالیاتی نظم ونسق کو بہتر بنانے سے ہماری معیشت کے تناسب سے قرضوں کے حجم میں کمی آئی ہے، آج سے دو سال قبل ہمارے قرض اور جی ڈی پی کا تناسب 74 فیصد تھا جو کہ اب 70 فیصد سے بھی نیچے آ گیا ہے جسے ہم آگے چل کر مزید کم کریں گے، اس ضمن میں ہمیں اہم کامیابیاں ملی ہیں۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان کے پہلے ڈیبٹ بائے بیک پروگرام کے تحت ایک ہزار ارب کے قرض بائے بیک کیے گئے،ایک فعال ری فنانسنگ پروگرام کے تحت مارک اپ میں ریکارڈ 850 ارب روپے سے زائد کی بچت کی گئی،قرضوں کے میچورٹی کا اوسط وقت میں 66 فیصد اضافہ کیا گیا جس سے ہمارا ری فنانسنگ رسک کم ہوا اور مالیاتی استحکام میں اضافہ ہوا۔انہوںنے کہاکہ قرض کی مصنوعات کو متنوع کیا جارہا ہے تاکہ انویسٹر بیس بڑھایا جاسکے، اس سلسلے میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے سکوک بانڈ کا اجرا کر دیا گیا ہے ،مزید پراڈکٹس کو لانچ کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

انہوںنے کہاکہ عالمی طریقہ کار کے مطابق ڈی ایم او کی تنظیم نو کی جارہی ہے، پہلے پانڈا بونڈ کے اجرا کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے جس کا مقصد دنیا کی سب سے بڑی اور گہری چینی کیپٹل مارکیٹ تک پاکستان کی رسائی ممکن بنانا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ایس او ایز حکومتی خزانے پر 800 ارب روپے سے زیادہ کا سالانہ بوجھ ڈالتی ہیں، سبسڈیز، گرانٹس اور ایکویٹی کی مد میں دی گئی حکومتی امداد کو شامل کیا جائے تو یہ تخمینہ ایک ٹریلین روپے سالانہ سے تجاوز کر جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایس او ای ریفارمز مالیاتی نظم و ضبط کے لیے انتہائی اہم ہیں، حکومت نے ایس او ایز کے حوالے سے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ ایس او ای ریفارمز کا ایک اہم ستون ان کی مختلف اقسام میں تقسیم ہے جس کے ذریعے اٴْن کی مستقبل کی سمت یعنی نجکاری کی تنظیم نو یا پی پی پی ماڈل کا تعین کیا جاتا ہے، کابینہ کی ایک کمیٹی کے ذریعے درجہ بندی کو مکمل کر لیا گیا ہے۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ عوامی شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنانے، مالی بوجھ کو کم کرنے، اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے حکومت ایک جدید اور متحرک نجکاری حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، یہ حکمت عملی غیر ضروری سرکاری اداروں کی شفاف اور مؤثر نجکاری پر مرکوز ہے تاکہ مختلف شعبوں، بالخصوص توانائی اور مالیاتی شعبے میں مسابقت، کارکردگی اور نجی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ مالی سال 26-2025 میں ہمارا ہدف ہے کہ ہم پی آئی اے اور روزویلٹ ہوٹل جیسی اہم ٹرانزیکشن مکمل کریں، اور ڈسکوز اور جینکوز جیسے کلیدی اثاثوں کی نجکاری کے لیے پالیسی اور ضابطہ جاتی اصلاحات کو آگے بڑھائیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نجکاری کو صرف ایک مالی اقدام نہیں بلکہ پاکستان کی سرمایہ منڈیوں کو وسعت اور گہرائی دینے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ منتظم پبلک لسٹنگ اور آفرز کے ذریعے ہمارا مقصد یہ ہے کہ سرکاری اثاثوں کو اسٹاک مارکیٹ میں شامل کیا جائے تاکہ مارکیٹ میں شفافیت بڑھے، سرمایہ کاروں کی شرکت ممکن ہو اور عوام کی معیشت میں شمولیت کو فروغ دیا جا سکے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے وفاقی حکومت کی ادارہ جاتی تشکیل کو وزیراعظم کی ویڑن کے مطابق درست منتظم اور جدید بنانے کے اقدام کا آغاز کیا ہے، یہ اہم اور بنیادی اصلاحات اس اصول پر مبنی ہے کہ حکومت عوامی سہولیات کی فراہمی کے لیے ٹیکس دہندگان پر کم سے کم بوجھ ڈالے، حکومتی اسٹرکچر میں جدید خیالات کے لیے ساز گار ماحول دستیاب ہو اور حکومت کاروباری معاملات میں حصہ نہ لے بلکہ یہ معاملات نجی شعبے کے حوالے کرنے چاہیں۔

انہوںنے کہاکہ اب تک کابینہ نے 10 وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کے منصوبوں کی منظوری دے دی ہے، جو اب عملدر آمد کے مرحلے میں ہیں، 6 ڈویژنز کو ضم کر کے 3 بنا دی گئی ہیں، 45 کمپنیوں اور اداروں کو پرائیویٹائز ضم یا بند کیا جارہا ہے ،تقریباً 40 ہزار خالی آسامیوں کوختم کر دیا گیا ہے، اگلی 10 وزارتوں کے لیے رائٹ سائزنگ کی سفارشات کو حتمی شکل دی جاچکی ہے جبکہ مزید 8 وزارتوں کے حوالے سے تجاویز زیر غور ہیں۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ پینشن، ریٹائرڈ ملازمین کا بنیادی حق ہے، پچھلی کچھ دہائیوں میں پینشن اسکیم میں ایگزیکٹو آڈرز کے ذریعے تبدیلیاں کی گئیں جس کی وجہ سے سرکاری خزانے پر بوجھ بڑھا، پنشن اسکیم کو درست کرنے اور سرکاری خزانے پر بوجھ کو کم کرنے کے لیے حکومت نے پنشن اسکیم میں اصلاحات کی ہیں۔جیسے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی حوصلہ شکنی،پینشن اضافہ (کنزیومر پرائس انڈیکس) سے منسلک،شریک حیات کے انتقال کے بعد فیملی پنشن کی مدت 10 سال تک محدود ایک سے زائد پنشنز کا خاتمہ،ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت کی صورت میں پنشن یا تنخواہ میں سے کسی ایک کا انتخاب شامل ہے ۔
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات