Live Updates

مسئلہ کشمیر دو ملکوں کا نہیں بلکہ عالمی تنازع ہے، بلاول بھٹو

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 12 جون 2025 10:40

مسئلہ کشمیر دو ملکوں کا نہیں بلکہ عالمی تنازع ہے، بلاول بھٹو

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 جون 2025ء) پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بدھ کو لندن میں پاکستانی سفارتی وفد کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے جارحانہ بیانات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن مشن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔

صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرسکتے ہیں، امریکی محکمہ خارجہ

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ’’صدر ٹرمپ نے واضح طور پر اور بارہا یہ کہا ہے کہ خطے میں امن ہونا چاہیے اور ہم ان کے بیانات کو وعدہ سمجھتے ہیں۔

‘‘ لیکن ’’بھارت ان کے امن کی کوششوں کے لیے دیے گئے بیانات کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے، ہم سمجھتے کہ اگر امریکہ کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’’وہ کشمیر پر بھی ثالثی کے لیے تیار ہیں تو یہ مسٔلہ بھارت کا اندرونی مسٔلہ نہیں رہ جاتا بلکہ عالمی تنازع تصور ہوتا ہے۔

‘‘

انہوں نے کہا کہ امریکی محکمہ خارجہ کے کشمیر کے حوالے سے کل کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے منگل کو مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ صدر ٹرمپ ایسے معاملات میں ثالثی کرنا چاہیں گے۔

’بھارت کی جنگ جھوٹ پر مشتمل‘

بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا بھارت کی جنگ بھی جھوٹ پر مشتمل تھی۔

بھارت بھی جانتا ہے کہ پہلگام کے واقعے میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔

بھارت 'جھگڑنے والی ایک بے قابو طاقت' ہے، پاکستانی وفد

خیال رہے کہ بائیس اپریل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ایک حملے میں چھبیس سیاح مارے گئے۔ بھارت نے اس کے لیے پاکستان کو مورد ال‍زام ٹھہرایا لیکن پاکستان نے اس کی تردید کی۔

بلاول کے بقول، ’’اگر بھارت سچ بولتا تو وہ اپریل حملے کی شفاف تحقیقات کی مخالفت کی بجائے اس کے ثبوت اگر پاکستان کو نہیں تو دنیا کے سامنے رکھتا اور اسی لیے جب بھارت پاکستان کے خلاف جارحیت اور الزام تراشی کر رہا تھا تو دنیا اس کے ساتھ نہیں کھڑی تھی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کسی ملک کے وزیر خارجہ کی بجائے جنگی جنونی کی طرح بات کر رہے ہیں۔

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’’دنیا میں امن و استحکام قائم کرنا ہے تو بھارت کو اپنا رویہ بدلنا ہو گا اور مسائل کے حل کے لیے بات چیت اور مذاکرات کی جانب بڑھنا ہو گا تاکہ خطے میں استحکام ہو اور خطہ ترقی کی جانب بڑھے۔‘‘

انہوں نے یاد دلایا کہ کینیڈا کے وزیر اعظم نے بھی کہا تھا کہ بھارت ان کے ملک میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔

خیال رہے پہلگام حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے مابین فوجی جھڑپوں کے بعد اسلام آباد کا موقف پیش کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد بلاول بھٹو کی قیادت میں دنیا کے اہم ملکوں کے دورے پر ہے۔ یہ وفد اب یورپی یونین اور بیلجیئم کے سینیئر حکام سے ملاقات کرے گا۔ اور پاکستان کے تئیں بھارت کے مبینہ جارحانہ موقف اور اس کے عزائم کو اجاگر کرے گا۔

وفد یورپی تھنک ٹینکس اور بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں سے بھی بات چیت کرے گا۔

بھارت نے بھی اراکین پارلیمان پر مشتمل کئی وفود دنیا کے مختلف ملکوں میں بھیجے تھے جو اپنی مہم کے بعد واپس دہلی لوٹ چکے ہیں اور انہوں نے گزشتہ دنوں اپنی کارکردگی کی رپورٹ وزیر اعظم نریندر مودی کو پیش کی۔

’بھارتی وزیر خارجہ کے بیانات غیرذمہ دارانہ‘

بدھ کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھارتی وزیرخارجہ ایس جے شنکر کے بیان کو’غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا اور کہا کہ مظلومیت کی یہ من گھڑت داستان بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرنے کی بھارت کی جاری مہم کا حصہ ہے۔

دفتر خارجہ نے ایک بیان میں برسلز میں جے شنکر کے حالیہ ریمارکس کو مسترد کرتے ہوئے انہیں ’’غیر ذمہ دارانہ‘‘ قرار دیا اور بھارت کو مشورہ دیا کہ وہ گمراہ کن بیانیے سے باز رہے۔

یہ بیان اس وقت آیا ہے جب جے شنکر نے پاکستان پر ایک اور زبانی حملہ کرتے ہوئے اور اسے ’ ٹیررستان‘ کہا۔

منگل کو برسلز میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جے شنکر نے کہا تھا، ’’میں چاہتا ہوں کہ آپ یہ سمجھیں کہ یہ دو ریاستوں کے درمیان تنازعہ نہیں ہے۔

یہ درحقیقت دہشت گردی کے خطرے اور عمل کا جواب ہے۔‘‘

جے شنکر کا مزید کہنا تھا، ’’لہٰذا، میں آپ سے گزارش کروں گا کہ اسے بھارت اور پاکستان کے طور پر نہ دیکھیں بلکہ اسے بھارت اور ٹیررستان کے طور پر سمجھیں۔ تب آپ اس کی تعریف کریں گے۔‘‘

بدھ کو جاری ہونے والے بیان میں، پاکستان کےدفتر خارجہ نے بھارتی وزیر خارجہ کی ’بیان بازی‘ کی مذمت کی اور اس بات پر زور دیا کہ اعلیٰ سفارت کاروں کو اپنی گفتگو کو’’جنگجویانہ پنچ لائنز‘‘ بنانے کے بجائے امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہیے۔

ترجمان نے بین الاقومی تعلقات میں سفارتی رواداری کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’وزیر خارجہ کا لہجہ اور طرز عمل اس کی باوقار حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔‘‘

ج ا ⁄ ص ز (خبر رساں ادارے)

Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات