Live Updates

کسی شادی پر کیا سلامی دینی ہے، دوست اس کا مشورہ بھی جنرل عاصم منیر سے کرتے ہیں، سہیل وڑائچ کا کالم

ان کے دوست اپنے خاندان اور رسوم و رواج کے حوالے سے بھی ان کے مشوروں کو صائب سمجھتے ہیں، وہ عرصہ دراز دوستوں کے ٹیم لیڈر رہے اور انہیں لیڈر شپ کا خاصا تجربہ ہے؛ سینئر صحافی کا اظہار خیال

Sajid Ali ساجد علی پیر 16 جون 2025 11:59

کسی شادی پر کیا سلامی دینی ہے، دوست اس کا مشورہ بھی جنرل عاصم منیر سے ..
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 جون 2025ء ) سینئر صحافی سہیل وڑائچ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ جنرل عاصم منیر زمانہ قدیم سے اپنے دوستوں کے پیشوا ہیں، کسی شادی پر کیا سلامی دینی ہے، دوست اس کا مشورہ بھی جنرل عاصم منیر سے کرتے ہیں۔ روزنامہ جنگ کے لیے اپنے کالم میں انہوں نے لکھا کہ صحافت کیلئے کافی عرصہ سے ایک مسئلہ جو چیلنج کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے وہ فیلڈ مارشل حافظ عاصم منیر کی شخصیت ہے، ان کے خیالات اور ان کے مزاج کا پتہ چلانا، سچ تو یہ ہے کہ فی الحال صحافت اس معاملے کا کھوج لگانے میں ناکام ہے، جنرل عاصم منیر نہ تو جنرل باجوہ کی طرح رات کو صحافیوں سے لمبی لمبی ملاقاتیں کرکے اپنا فلسفہ سمجھاتے ہیں اور نہ ہی جنرل کیانی کی طرح دھویں کے مرغولوں میں اپنے ارادوں کا اظہار کرتے اور نہ ہی وہ جنرل راحیل شریف کی طرح آئی ایس پی آر کے ذریعے سیاسی اور صحافتی جنگ لڑتے ہیں۔

(جاری ہے)

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ جنرل عاصم منیر صحافیوں سے ملنے سے گریزاں ہیں ان کی صحافیوں سے ملاقاتیں صرف دعا سلام تک محدود ہیں، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ ماضی کے فوجی سربراہوں کے صحافیوں کے سامنے اپنے ارادوں کے اظہار کو غلط سمجھتے ہوں، میں نے ذاتی طور پر پروفیشنل صحافی کی حیثیت سے کئی بار ملاقات اور گفتگو کا وقت لینے کی درخواست کی ہے لیکن ہر دفعہ شائستگی سے ٹال دیا گیا، بعض لوگوں کے خیال میں ملاقاتوں اور اظہار خیال سے پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں تو کئی دفعہ خاموشی سے افواہیں اور غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں، صحافیوں کے خیال میں مسلسل خاموشی، ملاقاتوں سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے مگر اس صحافیانہ استدلال کو کون سنتا ہے؟۔

صحافی سمجھتے ہیں کہ ماضی میں افواہیں اور غلط فہمیاں پھیلتی رہی ہیں اور پھیل رہی ہیں، ایک سابق ایڈیٹر حال مقیم امریکہ نے بغیر تصدیق کے یہ جھوٹی خبر چلا دی کہ چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری سے پہلے اِس عاجز نے نواز شریف اور جنرل صاحب کی ملاقات کروائی تھی حالانکہ اس وقت تک میں نے جنرل صاحب کو صرف ٹی وی پر دیکھا تھا اور نواز شریف میرے ساتھ عمران خان کی حمایت کرنے پر ناراض ہوگئے تھے اور آج تک ہیں، بہرحال صحافت میں ایسا ہوتا رہتا ہے کسی سے شکوہ شکایت کیا کرنا؟۔

انہوں نے لکھا کہ جنرل حافظ عاصم منیر کے بارے میں کیسے جانیں جب ان سے کسی صحافی کی کوئی ملاقات ہی نہیں، اس حوالے سے راقم نے وزیر اعظم سمیت جنرل صاحب سے ملنے والوں اور جاننے والوں سےگفتگو سے ایک خاکہ مرتب کرنے کی کوشش کی ہے جو قارئین کےتجسس کی پیاس بجھانےکیلئے پیش کیا جا رہا ہے، جنرل صاحب کے جاننے والے بتاتے ہیں کہ وہ دوستوں کے حلقوں میں ابریشم اور دشمنوں کیلئے فولاد جیسے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ وہ 1988ء سے اب تک آنے والے ہر آرمی چیف آف سٹاف سے ملتے رہےہیں اور تقریباً ہر ایک کے مثبت اور منفی نتائج کو براہ راست محسوس کرتے رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ حافظ عاصم منیر ماضی کے سب فوجی سربراہوں سے مختلف ہیں، ماضی کے سب فوجی سربراہ اگر دن میں وزیر اعظم سے ملتے تھے تو رات کے اندھیرے میں اسی کی اپوزیشن سے رابطہ کرلیتے تھے، بقول وزیر اعظم شہبا زشریف سابق صدر عارف علوی نے آرمی چیف کےتقرر نامے کے بعد کوشش کی کہ وہ عمران خان سے جنرل عاصم منیر کی فون پر بات کرا دیں مگر جنرل عاصم منیر نے سرکاری عمال کے علاوہ کسی سے بھی بات کرنے سے انکار کردیا۔

سہیل وڑائچ نے لکھا ہے کہ حافظ عاصم منیر ذاتی طور پر مذہبی ہیں، قرآن پاک کی آیات کا اکثر حوالہ دیتے ہیں اور ان ہی کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل ترتیب دیتے ہیں، ان کی والدہ مرحومہ وفات پاگئیں تو ان کی نماز جنازہ انہوں نے خود پڑھائی، گویا وہ سمجھتے ہیں کہ ہر شخص کو دین کا فہم ہونا چاہیے اسی لیے کسی مولوی کو جنازہ پڑھانے کیلئے نہیں بلایا، وہ مذہبی انتہاپسندی کے خلاف ہیں، ان کے ایک افسر کے بارے میں ان سے شکایت کی گئی کہ وہ شام کو دفتر میں نیکر پہن لیتا ہے حالاں کہ وہ جم کرنے کیلئے نیکر پہنتا تھا جنرل عاصم منیر نے اپنے آفیسر کو بلایا اور بغیر کسی کارروائی کے اسے فٹ رہنے کا نہ صرف درس دیا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی۔

کالم نگار میں لکھتے ہیں کہ فیلڈ مارشل اپنے ماتحتوں کے تساہل کے سخت خلاف ہیں وہ تین سینئر لیفٹیننٹ جرنیلوں کو ان کے عہدوں سے برخاست کر چکے ہیں ان تینوں سینئر ترین افسروں پر ڈسپلن کی خلاف ورزی اور کوڈ آف کنڈکٹ کی پابندی نہ کرنے کا الزام ہے، پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی سابق آئی ایس آئی چیف کا احتساب نہیں ہوا، جنرل فیض اس وقت کورٹ مارشل کے مراحل سےگزر رہے ہیں، اسی طرح وہ کسی بھی افسر کے ڈسپلن سے باہر ہونے کو برداشت نہیں کرتے۔

سہیل وڑائچ کے مطابق عمومی طور پر یہ غلط تاثر پھیل رہا تھا کہ جنرل باجوہ نے پاکستان میں جہادی سرگرمیوں پر جو مکمل پابندی عائد کی تھی اب شاید اس میں کچھ تبدیلی آ جائے جہادی تنظیموں کو اس حوالے سے کافی امیدیں بھی تھیں لیکن موجودہ ڈاکٹرائن کسی پراکسی وار کی قائل نظر نہیں آتی، ایک وجہ تو فیٹف اور دوسری بین الاقوامی نگرانیاں ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ نظریہ بھی کار فرما ہے کہ پاکستان کی افغان پراکسی اور کشمیر پراکسیز بالآخر آزاد اور خود مختار ہو کر ریاست ہی کیلئے خطرہ بن جاتی ہیں، ڈاکٹرائن کا واضح عزم ہے کہ ڈسپلنڈ فوج کو ہی ریاست کی واحد نمائندہ فورس ہونا چاہئے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ سماجی طور پر حافظ عاصم منیر کا دوستی کا دائرہ زیادہ وسیع نہیں ہے، وہ محدود دوستوں سے ہی ملتے جلتے ہیں اور اپنے ان دوستوں کے زمانہ قدیم سے پیشوا بھی ہیں، ان کے دوست اپنے خاندان اور رسوم و رواج کے حوالے سے بھی ان کے مشوروں کو صائب سمجھتے ہیں، حتیٰ کہ کسی کی شادی پر کیا سلامی دینی ہے اس کا مشورہ بھی ان سے کیا جاتا ہے گویا وہ عرصہ دراز سے دوستوں کے ٹیم لیڈر رہے ہیں اور انہیں لیڈر شپ کا خاصا تجربہ ہے۔

سینئر صحافی کا ماننا ہے کہ خوارج دہشت گردوں اور فتنۂ ہندوستان کے حوالے سے موجودہ ڈاکٹرائن میں ان کیلئےکوئی نرمی یا گنجائش موجود نہیں، وفاقی سیاسی حکومت کی پہلے رائے تھی کہ بلوچستان کے حوالے سے سیاسی ڈائیلاگ ہونا چاہیے نواز شریف نے بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک کو بلا کر مذاکرات کا عندیہ بھی دیا لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ سوچ بحث اور صلاح مشورے کے بعد سردخانے کی نذر ہو چکی اور اب صرف اور صرف آپریشن ہی واحد آپشن کے طور پر اپنا لیا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ خوارج دہشت گرد تو سینکڑوں کی تعداد میں مارے جا رہے ہیں اور امریکی جنرل نے خود اس کا اعتراف بھی کیا ہے، خوارج اور طالبان کو کبھی اتنی سخت مدافعت اور ایکشن کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنا آج کل کرنا پڑ رہا ہے، یہ ڈاکٹرائن پاکستان کے نظریے پر کامل یقین رکھتی ہے اور پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا بھرپور مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، حافظ ڈاکٹرائن کو شدت سے احساس ہے کہ پاکستان کی معاشی بنیاد بہت کمزور ہے اور جب تک یہ بنیاد مضبوط نہیں ہوگی اس وقت تک ریاست طاقتور نہیں ہوسکتی۔

اسی خیال کے پیش نظر ایس آئی ایف سی کو بنایا گیا تاکہ فوج اور سول حکومت کے اشتراک سے بیرونی سرمایہ کاری کی پیش کش کی جائے یہ نیا انتظام ابھی حتمی مراحل میں ہے ، بہت سے منصوبے بنائے گئے ہیں، قوانین میں ترامیم کی جا رہی ہیں تاکہ بیرونی سرمایہ کاری کا راستہ ہموار اور پرکشش ہو جائے، حافظ ڈاکٹرائن کا بنیادی خیال پاکستان کو دفاعی اور معاشی استحکام دینا ہے اور ظاہر ہے کہ اس سوچ کے محور و مرکزجنرل عاصم منیر خود ہیں گویا اس ڈاکٹرائن کی کامیابی کا انحصار بھی ان کے معیشت پر خصوصی ارتکاز پر ہے۔

جنرل صاحب کے خیال میں پاکستان کے پاس معدنیات کے اتنے وسیع ذخائر ہیں کہ ان سے پاکستان کے تمام قرضے بھی اتر سکتے ہیں اور پاکستان معاشی طور پر مضبوط بھی ہوسکتا ہے، دوسری طرف ان کے نقادوں کے خیال میں سیاسی استحکام کیلئے اس ڈاکٹرائن کے پاس کوئی فارمولہ نہیں ہے حالانکہ ملکی پائیدار ترقی و استحکام کے لئے وہ فارمولہ بنانا ضروری ہے۔
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات