�اہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 جون2025ء) پنجاب اسمبلی میں صحت ،تعلیم ،زراعت پولیس اور پبلک ہیلتھ کے 636ارب68کروڑ سے زائد مالیت کے پانچ مطالبات زر منظور کر لیے گئے جبکہ اپوزیشن کی کٹوتی کی تمام تحاریک کو کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا ، وزیر خزانہ میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے بجٹ2025-26 کو عوام کی فلاح کا بجٹ قراردیتے ہوئے اپوزیشن کے تمام اعتراضات کو مسترد کر دیا ، انہوںنے کہا کہ پنجاب میں وسائل کی منصفانہ تقسیم عوامی ترقی، معاشی خود مختاری کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کیا جائے گا،اپوزیشن سے کہوں گا کہ تنقید برائے تنقید کی بجائے تنقید برائے اصلاح کریں،عوامی ترقی کے سفر میں رکاوٹ نا بنیں،بجٹ میں حصہ لینے والے تمام اراکین کا شکریہ ادا کرتا ہوں ،وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کی قیادت میں ہماری حکومت، پنجاب میں ترقی اور خوشحالی کی نئی تاریخ رقم کرے گی۔
(جاری ہے)
پنجاب اسمبلی کا اجلاس 3گھنٹے 33منٹ کی تاخیر سے سپیکر ملک محمد احمد خان کی صدارت میں شروع ہوا۔اپوزیشن کی ایوان میں انٹری نعرے لگاتے ہوئے ہوئی،اس موقع پر اسپیکر ملک محمد احمد خان نے اپوزیشن سے استفسار کیا کہ اپوزیشن نے مودی کہا ہے یا یہودی کہا،اسپیکر کی اس بات پر حکومتی اراکین کے قہقے لگ گئے۔بجٹ 2025-26 کی پانچ روزہ بحث کو سمیٹے ہوئے وزیر خزانہ پنجاب میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کہا کہ ہم نے مثالی اور متوازن بجٹ پیش کیا ہے،یہ بجٹ عوام کی امنگوں کے عین مطابق ہے،100حکومتی اراکین اسمبلی اور باسٹھ اپوزیشن کے ارکان نے بجٹ کی بحث میں حصہ لیا،ہماری حکومت میں تین بجٹ سیشن ہوئے ہیں،سابقہ روایت کے مطابق اپوزیشن نے اس بار بھی بجٹ کی کتابوں کو نہیں پڑھا۔
اسپیکر ملک احمد خان نے کہا کہ حکومتی ارکان نے 13گھنٹے 38منٹ تقریر کی، 100حکومتی ارکان نے بجٹ پر تقریر کی،اپوزیشن نے 12گھنٹے 23منٹ بجٹ پر تقریر کی،62اراکین نے بجٹ تقریر میں حصہ لیا۔ وزیر خزانہ میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے اپنے خطاب میں کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے تقریر میں غلط اعدادو شمارپیش کئے۔پنجاب کا بجٹ سیاسی مصلحت کی بنیاد پر نہیں بنایا گیا،عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ بڑا ترقی پسند بجٹ ہے،اس بجٹ میں 1240ارب ترقیاتی بجٹ کے لئے رکھے گئے ،ہمارا پچھلا ترقیاتی بجٹ 840ارب کا تھا مگر ہم نے ایک ہزار ایک سو سے زائد کا ترقیاتی بجٹ پچھلے سال استعمال کیا،ہم نے نان ڈویلپمنٹ اخراجات میں خاطر خواہ کمی کی ہے،ہم گردشی قرضے کو 58ارب پر لے آئے ہیں،فوڈ اکائونٹ کو پہلی دفعہ 468بلین سے 68بلین پر لے کر آئے ہیں،اس دفعہ ہمیں فیڈرل پول سے بھی کچھ پیسے کم ملے ہیں،غیر ترقیاتی اخراجات میں اس سال صرف چھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے 6104ترقیاتی اسکیمیں مکمل کی ہیں ،تعلیم کے لئے تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ دیا ہے،چیف منسٹر پنجاب لیپ ٹاپ سکیم کے تحت 37ارب روپے مختص ارب کئے ہیں ،سرکاری سکولوں کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے بھی بجٹ مختص کیا ہے۔صحت کا شعبہ ہماری اولین ترجیح ہے،نواز شریف میڈیکل ڈسٹرکٹ منصوبہ 109ارب روپے کی مالیت سے شروع کیا ہے،نوازشریف کینسر ہسپتال اور نوازشریف کارڈیالوجی ہسپتال سرگودھا بھی ہماری حکومت کے اہم منصوبے ہیں، تعلیم، صحت، زراعت، کھیل، آئی ٹی، ٹرانسپورٹ سمیت تمام شعبے توجہ کا خصوصی مرکز رہے،شفافیت کو یقینی بنایا گیا ہے،عوام سے کیے وعدے پورے ہوں گے،جن منصوبوں پر کام شروع کیا انہیں پورا کیا جا رہا ہے ،عوامی خدمت کی نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے ۔
انہوںنے کہا کہ سرکاری سہولیات کی آئوٹ سورسنگ کا مطلب انہیں فرخت کرنا نہیں بلکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت سروس ڈیلیوری کو بہتر بنانا ہے ،اپوزیشن لیڈر کے اعترضات کھوکھلے نعرے ہیں،زراعت کے شعبے کے حوالے سے بے نیاد الزامات لگائے گئے ہماری حکومت نے زراعت کے شعبے کو پہلی مرتبہ پنجاب کی معیشت کا محور قرار دیتے ہوئے متعدد کسان دوست پروگرامز شروع کیے ہیں،کسان کارڈ، سولر پینلز، ٹریکٹر سکیم لانچ کی گئی،10لاکھ سے زائد کسانوں کو بلا سود قرضے دیے گئے،زراعت کے شعبے کے لیے 129.8ارب کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں ،پچھلی کئی دہائیوں سے نظر انداز مختلف کینال لنکس کی بحالی کے منصوبوں کا آغاز کیا تاکہ کاشتکاروں تک پانی کی مناسب رسائی ممکن ہو سکے،انفراسٹرکچر سیکٹر کے لیے مجموعی طور پر 335.5ارب روپے مختص کیے ہیں،صنعت تجارت شعبے کے لیے 16.8 ارب مختص کیے ہیں ،سکلز ڈویلپمنٹ کے لئے 25ارب روپے مختص کیے ہیں،آسان کاروبار کارڈ اور فنانس سکیم کے تحت اب تک مجموعی طور پر 70ارب کے بلاسود قرضے جاری کیے جا چکے ہیں۔
گارمنٹس سٹی پر اپوزیشن لیڈر نے اعتراض لگائے گارمنٹس سٹی میں اب تک 2سٹچنگ یونٹ مکمل ہو چکے ہیں اور سولرآزیشن کا کام تیزی سے جاری ہے، ستھرا پنجاب پروگرام ہم نے متعارف کروایا،پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے شروع کیا گیا یہ منصوبہ کامیابی سے جاری ہے۔وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کہا کہ قائد حزب اختلاف نے الزام لگایا کہ دیہی علاقوں کو نظر انداز کیا گیا ،ہم نے مثالی گائوں پروگرام کے لیے 10ارب مختص کیے ہیں ،27ماحول دوست ای بسیں لاہور کی سڑکوں پر رواں دواں ہیں ،1200مزید بسوں کی خریداری کا عمل جاری ہے،ٹرانسپورٹ سیکٹر میں متعارف کروائے گئے تمام منصوبوں کا مقصد صوبے میں نا صرف ایک مضبوط نیٹ ورک قائم کرنا ہے بلکہ سیاحت کو فروغ دینا ہے،پنجاب کی مالیاتی تاریخ میں اس بجٹ کو حقیقی معنوں میں ماحول دوست بجٹ کہا جا سکتا ہے ،اپوزیشن ارکان نے الزام لگایا کہ موسمیاتی تبدیلی کو حکومت نے نظر انداز کیا،یہ بھی بے بنیاد الزام ہے اور انکی کم علمی کا ثبوت ہے ،پنجاب حکومت نے ماحولیات کو بجٹ کے ہر شعبے سے جوڑا ہے شفاف انداز میں شجر کاری مہم جاری ہے پنجاب میں ایکوا کلچر کے شعبے کو پہلی دفعہ توجہ کا مرکز بنایا،10ارب کا فنڈ شرمپ اور فش فارمنگ کے لیے رکھے گئے ہیں،ہماری حکومت نے اس بجٹ میں خواتین، بزرگ شہری اور معذور افراد کے لیے وسیع اقدامات اٹھائے ہیں،ہمت کارڈ، دیہی رانی، مینارٹی کارڈ، مریم نواز سوشل سکیورٹی راشن کارڈ جیسے پروگرام شروع کیے،اپوزیشن نے پنجاب پولیس کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے ہیں حقیقت یہ ہے کہ پنجاب پولیس اپنی جان دے کر ہمیں تحفظ فراہم کر رہی ہے ،ہماری حکومت نے پنجاب پولیس کے لے 300ارب کے فنڈز مختص کیے ہیں ہم نے اس بجٹ کو کسی روایتی مشن کی بجائے نتیجہ خیز مالیاتی بیانیہ بنایا ہے ،پنجاب کی عوام کی ترقی اور خوشحالی کا بجٹ ہے انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ کیا تعلیم، صحت، زراعت، ماحولیاتی تحفظ، ٹرانسپورٹ، سماجی فلاح و بہبود، خواتین اور نوجوانوں کی ترقی جیسے شعبوں میں تاریخی سرمایہ کاری ویژن نہیں ہے ،پنجاب میں وسائل کی منصفانہ تقسیم عوامی ترقی، معاشی خود مختاری کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کیا جائے گا،اس بجٹ کا ایک ایک روپیہ پنجاب کی عوام پر لگے گا ،اپوزیشن سے کہوں گا کہ تنقید برائے تنقید کی بجائے تنقید برائے اصلاح کریں،عوامی ترقی کے سفر میں رکاوٹ نا بنیں،ہم نے مشکل فیصلے کیے لیکن عوامی مفاد میں کیے ہم نے اصلاحات کی،رکاوٹیں برداشت کیں لیکن پیچھے نہیں ہٹے،ہمیں یقین ہے اگر نیت صاف ہو سمت درست ہو اور فیصلے عوام کی بہتری کے لئے ہوں تو وقت خود گواہی دیتا ہے،بجٹ میں حصہ لینے والے تمام اراکین کا شکریہ ادا کرتا ہوں وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کی قیادت میں ہماری حکومت، پنجاب میں ترقی اور خوشحالی کی نئی تاریخ رقم کرے گی۔
اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر،جنید افضل ساہی،شیخ امتیاز سمیت دیگر محکمہ پولیس کے بارے میں کٹ موشن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دسمبر 2023کی ایک رپورٹ میں پنجاب میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا،دسمبر 2024ء میں پولیس رپورٹ کے مطابق پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے،مریم نواز جو دعویٰ کرتی رہیں وہ غلط ثابت ہوا،ہمارے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کے باوجود ان کو حکومت دی گئی ہے،خاتون وزیر اعلی ہونے کے باوجود خواتین کے ساتھ زیادتی کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے،پہلی بار ہوا کہ وزراء نے اپنے محکموں کی رپورٹ پیش کی، دسمبر 2023ء کی ایک رپورٹ میں پنجاب میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا،دسمبر 2024ء میں پولیس رپورٹ کے مطابق جرائم میں پانچ فیصد اضافہ ہوا،پنجاب جنسی زیادتی کے کیسز میں سر فہرست رہا ہے،ہماری خواتین ارکان اپنی وزیر اعلی کو کہیں کہ وہ اس معاملے پر توجہ دیں ،پولیس کے محکمے کو درست کرنے کی ضرورت ہے،جو اچھے افیسرز ہیں ان کو آگے آنے کی ضرورت ہے جو کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں ان کو لے کرآئیں پانچ پانچ چار سال اپنے من پسند لوگوں کو آپ نے بٹھایا ہوا ہے، کارکردگی اس کی بہتر بنائیں ،200 ارب روپے رکھنے سے نئی گاڑیاں خرید نے ،نئی بلڈنگ بنانے سے پولیس کا محکمہ ٹھیک نہیں ہوگا۔
اپوزیشن کی کٹ موشن پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمن کاکہناتھاکہ پنجاب میں وسیم اکرم پلس عثمان بزدار آیا تھا جس نے وزیر اعلیٰ ہائوس میں ایک دوکان کھولی تھی،جہاں پیسے لے کر تقرر و تبادلے کئے جاتے تھے،کرپشن کی بات کریں تو تحریک انصاف نے سارے ریکارڈ توڑے ہیں ان سے کوئی مقابلہ نہیں،اپوزیشن والے بھی بہت سے ایسے ہیں جو فارم 47سے مستفید ہو کر آئے ہیں،مجھے لگتا ہے کہ کسی کا مجھے فارم سنتالیس پر فائدہ لینے والوں کا نام دینا ہو گا۔
انہوں نے صرف پچیس سیٹوں پر انتخابی عذرداری جمع کرائی ہے،اپوزیشن میں جنرل فیض حمید سے فیض حاصل کرنے والے بیٹھے ہیں مجھے ان کا نام بھی بتانا پڑے گااگر ان کو یہ پچیس سیٹیں بھی دے دیں تو پھر بھی ہماری ڈیڑھ سو کی لیڈ ہے، جس کے بعد رائے شماری کے ذریعے سے اپوزیشن کی پولیس پر مطالبہ زر کی کٹوتی کی تحریک کثرت رائے سے مسترد کردی گئی اور پولیس کو دی جانے والی 200ارب سے زائد کی گرانٹ ایوان میں کثرت رائے سے منظورکر لی گئی ۔
زراعت کی کٹ موشن پر بات کرتے ہوئے اپوزیشن ارکان اعجاز شفیع،حافظ فرحت عباس اور سردار محمد علی کا کہنا تھا کہ ہماری وزیر اعلیٰ نے کسان کو مافیا کہہ دیا،موجودہ حکومت نے کاشتکار کو ذبح کر کے رکھ دیا ہے، کسان دشمنی پاکستان دشمنی کے برابر ہے،پچھلے ایک سال سے کونسی فصل ہے جس کا پورا پیسہ کسان کوملا ہے۔جب کاشتکار کو زیرو ریلیف ملتا ہے تو پھر اربوں روپے کیوں رکھ گئے ہیں۔
حکومتی سعید اکبر خان نے کٹ موشنز پراپوزیشن کی تقاریر پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ تحریک کٹوتی پر بات نہیں کر رہے عام بحث کر رہے ہیں،تحریک کٹوتی پر صرف دئیے گئے نکتے پر بات کرنی ہوتی ہے،یہ تو محکمے پر عام بحث کر رہے ہیں۔سپیکر ملک محمد احمد خان کا کہنا تھا کہ سعید اکبر نووانی نے رولز کی بات کی ہے تو میں نے پہلے بھی کہا کہ پالیسی پر بات کریں جب زراعت کی کٹوتی کی تحریک آئے اس وقت بھی میں نے تین آپشنز رکھی تھیں،اپوزیشن نے پہلی آپشن یعنی پالیسی پر بات کرنے کی آپشن کا انتخاب کیا ہے،یہ معاملہ اب رولز پر عمل درآمد کرنے کا ہے،ممبر کو مخصوص پالیسی پر بات کرنی ہے،ساری رات میں ہیر پڑھتا رہا صبح اٹھ کر پوچھتا رہا کہ ہیر لڑکی تھی یا لڑکا۔
جو کتاب میں لکھا ہے میں اس کے لفظ با لفظ پر عمل کروں گا اور اس کی تشریح کروں گا،ممبر صرف ایک خاص نقطہ پر بات کر سکتا ہے۔اس موقع پر وزیر زراعت عاشق کرمانی نے اپوزیشن کی زراعت پر کٹ موشن کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کاش یہ لوگ بجٹ پڑھ لیتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ حکومت زراعت کے لیے کرنے کیا جا رہی ہے،وہ وقت گزر گیا جب محکمہ زراعت اور لائیو سٹاک کو نظر انداز کیا جاتا تھا اور چند ارب رکھے جاتے تھے،پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار ارلی کاٹن کے لیے زوننگ کرائی گئی۔
پہلی مرتبہ فرٹیلائزر ایکٹ لایا گیا،پنجاب میں ڈیلرز اور سب ڈیلرز کو رجسٹر کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ویٹ سپورٹ پروگرام میں صرف آٹھ نو ارب دیا گیا۔جبکہ یہ فگر سولہ ارب دیا گیا ہے،ویٹ سپورٹ پروگرام کے اندر زیادہ گندم پیدا کرنے والے کاشتکار کو مفت ٹریکٹر دیا گیا، سات ہزار ارب روپے پوٹھار ریجن کے لیے وقف کیا گیا ہے،ان پیسوں سے منی ڈیم بھی بنیں گے،بتیس ارب روپے صرف پانی کو بچانے کے لیے رکھا گیا ہے،تیس ارب کا انٹرسٹ فری لون زراعت کی مشینری کے لیے رکھا گیا ہے۔
ایوان میں محکمہ زراعت کے حوالے سے بھی اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ کٹ موشن کو کثرت رائے سے مسترد کردی گئی اور زراعت کے 26ارب 52کروڑ روپے مالیت کا مطالبہ زرمنظور کر لیا گیا۔ہیلتھ سروسز کے لئے 258ارب سے زائد مطالبہ زر کثرت رائے سے منظور کرتے ہوئے اپوزیشن کی کٹوتی کی تحریک مسترد کردی گئی۔مطالبہ زر گرانٹ صوبائی وزیر سپیشلائزڈ ہیلتھ خواجہ سلمان رفیق نے پیش کرتے ہوئے کہا کہ گوجرانوالہ میں میڈیکل کالج بھی (ن) لیگ کے دور میں بنا،پولیو پر بھی سب سے زیادہ کام صرف پنجاب حکومت نے کیا ہے،نوازشریف کینسر ہسپتال میں سو بیڈ صرف ان مریضوں کے مختص ہیں جو سٹیج تھری اور فور کے ہوں گے،سرگودھا میں بارہ ارب سے کارڈیالوجی ہسپتال بن رہا ہے،لاہور میں پی آئی سی پر بہت لوڈ ہے ایک اور پی آئی سی بنانے جا رہے ہیں،ساہیوال میں کارڈیالوجی بنا رہے ہیں،بہاولپور اور رحیم یار خان میں برن یونٹ بنا رہے ہیں،پولیو کا وائرس کمیونیکیشن کرتا ہے، اگر لوگ سمجھیں تو اس کو ختم کیا جا سکتا ہے، لیور ٹرانسپلانٹ، کڈنی ٹرانسپلانٹ کے لئے الگ رقوم مختص کی ہیں،نو سو سے زائد کلینک ان وہیل پنجاب کے ایسے علاقوں میں سروسز دے رہے ہیں جہاں ہسپتالوں کی سہولت نہیں ہے، یہاں آوٹ سورسنگ کی بات کی گئی ہے۔
حکومت کا کام ہے لوگوں کو سروسز مہیا کرناوہ حکومت پیسے دے کر کروائے یا خود کرے،یہ حکومت کا کام ہے،بیسک ہیلتھ یونٹ ہمیشہ سے ایک چیلنج رہا ہے،وہ بیسک ہیلتھ یونٹ جو ویران پڑے تھے اور اس علاقے کے لوگ پریشان تھے وہ ہیلتھ یونٹ اب رات آٹھ بجے تک کھلے رہتے ہیں،افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ بیسک ہیلتھ یونٹ میں کوئی ڈاکٹر نہیں ٹکتا تھا ۔
اپوزیشن رکن حسن بٹر نے کٹوتی کی تحریک پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہیلتھ کی مد میں دنیا کے 167ملکوں میں سے 136نمبر پر ہم آتے ہیں،کارکردگی زیرو ہے ۔اجلاس میں محکمہ تعلیم کے لئے 137ارب سے زائد مالیت کا مطالبہ زر کثرت رائے سے منظور کرتے ہوئے اپوزیشن کی کٹوتی کی تحریک مسترد کر دی گئی ۔مطالبہ زر وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمن نے پیش کیا۔ پبلک ہیلتھ کے 15ارب 16کروڑ62ہزار روپے مالیت کا مطالبہ زر کثرت رائے سے منظور کرتے ہوئے اپوزیشن کی تحریک مسترد کردی گئی۔پبلک ہیلتھ کے متعلق مطالبہ زر بھی وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمن نے پیش کیا۔ ایجنڈا مکمل ہونے پر اجلاس آج 26جون کی صبح11بجے تک کردیاگیا۔