جاگیرداری نظام کے خلاف سندھی ہاری تحریک کی طرف سے گل سینٹر سے حیدرآباد پریس کلب تک احتجاجی ریلی نکالی گئی

بدھ 8 اکتوبر 2025 21:10

�یدرآباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 اکتوبر2025ء) جاگیر داری نظام، کارپوریٹ فارمنگ، نئے ڈیموں، نہروں اور زرعی اجناس بیرون ممالک سے منگوانے کے خلاف سندھی ہاری تحریک کی طرف سے گل سینٹر سے حیدرآباد پریس کلب تک احتجاجی ریلی نکالی گئی اور دھرنا دیا گیا، جس میں بڑی تعداد میں ہاری مرد و خواتین اور معصوم بچے شریک ہوئے۔احتجاجی ریلی کی قیادت عوامی تحریک کے مرکزی صدر ایڈووکیٹ وسند تھری، سندھی ہاری تحریک کے مرکزی صدر کامریڈ غلام مصطفی چانڈیو، سندھیانی تحریک کی مرکزی صدر عمرہ سموں، عوامی تحریک کے مرکزی سینئر نائب صدر نور احمد کاتیار، سندھی ہاری تحریک کے مرکزی جنرل سیکریٹری دریا خان زئور اور دیگر رہنماں نے کی۔

ریلی گل سینٹر، اولڈ کیمپس، حیدر چوک اور گول بلڈنگ سے ہوتی ہوئی پریس کلب پہنچی، جہاں دھرنا دیا گیا، ریلی میں بڑی تعداد میں مرد و خواتین ہاریوں کے ساتھ بچوں نے بھی شرکت کی۔

(جاری ہے)

ریلی میں منظور کی گئی قرار دادوں میں مطالبہ کیا گیا کہ کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے زمینوں پر قبضے ختم کیے جائیں، زرعی اصلاحات لا کر جاگیریں توڑی جائیں اور زمینیں بے زمین ہاریوں میں تقسیم کی جائیں۔

شرکا نے دھان (چاول) کی قیمت 4000 روپے فی من مقرر کرنے، ہاری کارڈ زمینداروں کو دینے کے بجائے اصل ہاریوں کو جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔ سندھ حکومت کی جانب سے ٹیننسی ایکٹ پر سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیل کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ پیپلز پارٹی کی جاگیردار حکومت عدلیہ کی طرف سے ہاریوں کو ملنے والے معمولی ریلیف کو بھی برداشت نہیں کر سکتی۔

عوامی تحریک کے مرکزی صدر ایڈووکیٹ وسند تھری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنرل ایوب نے ون یونٹ نافذ کر کے قومی وحدتوں کی شناخت مٹانے کی سازش کی، جسے سندھ کے عوام نے عبرتناک شکست دی۔ اب 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے نئے صوبوں کے نام پر سندھ کو توڑنے اور کراچی کو الگ صوبہ بنانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ہزاروں سالوں سے سندھی عوام کا وطن ہے، اس کے خلاف کوئی بھی سازش برداشت نہیں کی جائے گی۔

وسند تھری نے کہا کہ سندھ کو تقسیم کرنے کی سازش میں نواز لیگ کے ساتھ پیپلز پارٹی کی قیادت بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اقتدار کی لالچ میں مریم نواز کی پنجاب حکومت کو چولستان کینال بنانے کی منظوری دے دی۔ 8 جولائی 2024 کو صدر زرداری کی صدارت میں ایوانِ صدر میں ہونے والے اجلاس میں پیپلز پارٹی سندھ کا سودا کر چکی ہے۔ صدر زرداری نے چولستان کینال کی منظوری دے کر سندھی قوم کے ساتھ غداری کی ہے، انہوں نے کہا کہ پنجاب کے وزیر اعلی کی جانب سے سندھ کے پانی پر قبضے کے خواب پیپلز پارٹی کی طرف سے گرین پاکستان اور کارپوریٹ فارمنگ منصوبوں کی حمایت کا نتیجہ ہیں۔

پیپلز پارٹی جزائر کی طرح نہروں کے مسئلے پر بھی سندھی قوم کے ساتھ "ڈبل گیم" کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ارسا (IRSA) کی جانب سے پانی کی قلت کا اعلان محض اعداد و شمار میں ہیرا پھیری ہے۔ ارسا ہر سال سندھ کو 1991 کے معاہدے کے مطابق پانی نہیں دیتی، حالانکہ وہ معاہدہ بھی یکطرفہ طور پر پنجاب نے مسلط کیا تھا۔ پنجاب نہ صرف اس معاہدے پر عمل نہیں کرتا بلکہ اس کے بجائے "سہ رخی فارمولی" کے تحت سندھ کے حصے کا پانی پنجاب کو دے رہا ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ ارسا کی اعداد و شمار میں ہیرا پھیری بند کی جائے اور سندھ کو اس کے حصے کا پانی دیا جائے۔

وسند تھری نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں ریونیو کے بجائے آبادی کی بنیاد پر تقسیم کر کے تین صوبوں کے وسائل پنجاب حکومت کے حوالے کر دیے گئے ہیں، جو پنجاب کو بالادست بنانے کی سازش ہے۔ انہوں نے کہا کہ این ایف سی میں صوبوں کا حصہ کم کر کے ساری آمدنی وفاق کے نام پر پنجاب کے حوالے کرنے کی سازش جاری ہے۔ انہوں نے کہا: "میرا پانی، میری مرضی میرا پیسہ، میری مرضی" کے نعرے لگانے والے تین صوبوں کے وسائل پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔

سرائیکی وسیب کو برباد کر کے لاہور میں بادشاہت قائم کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کا پانی مکمل طور پر بند کر کے دریائے سندھ کو کارپوریٹ کمپنیوں کے ہاتھ فروخت کرنے کے لیے نئے کینال اور ڈیموں کے منصوبے لائے جا رہے ہیں۔ سندھی قوم پہلے بھی ریفرنڈم دے چکی ہے، آج بھی دیتی ہے اور حکومت سے پوچھتی ہے کہ بلاول، شہباز، مریم! واضح کرو اعلان کینال چاہیے یا پاکستان" انہوں نے کہا کہ ڈیموں اور کینالوں کے منصوبے لا کر سات کروڑ سندھیوں کی نسل کشی کرنے والے قائد اعظم کے پاکستان کے دشمن ہیں۔

سندھی ہاری تحریک کے مرکزی صدر غلام مصطفی چانڈیو نے کہا کہ سندھ حکومت نے ہاری دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے زمینداروں اور جاگیرداروں کی حمایت میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔ پیپلز پارٹی نے ہاریوں کے خلاف اپیل کر کے ثابت کیا کہ وہ جاگیرداروں کی نمائندہ اور ہاری دشمن جماعت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کا متعارف کردہ بینظیر ہاری کارڈ دراصل "زمیندار کارڈ" ہے، جو کھاتہ دار زمین داروں کو دیا جا رہا ہے، جبکہ لاکھوں ہاریوں کے پاس اپنی زمین کا ایک ٹکڑا بھی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت سندھ کا پانی چوری کر رہی ہے، سندھ سمیت تینوں صوبوں کے وسائل، زمین اور خزانہ پنجاب کے حکمرانوں کے قبضے میں ہیں۔ وفاقی ملازمتوں میں بھی پنجاب کی اکثریت لا کر قائد اعظم کے پاکستان کو "رنجیت سنگھ کا پنجابستان" بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت میں SIFC کے تحت "گرین ٹورزم" کے نام پر قبضے کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ دھان (چاول کی فصل) کا ریٹ 4000 روپے اور گندم کا ریٹ 5000 روپے مقرر کر کے اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔

سندھیانی تحریک کی مرکزی صدر عمرہ سمون نے کہا کہ سندھ کے ہاری مرد و خواتین بنیادی انسانی سہولتوں سے محروم ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ہاریوں پر ظلم و جبر بڑھانے کے لیے جاگیرداری نظام اور ڈاکو راج کو تقویت دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکو جاگیر داروں، وڈیروں اور قبائلی سرداروں کی مسلح فورس کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت ارسا کو ختم کر کے نیشنل ریور اتھارٹی بنا کر سندھ کا پانی مکمل طور پر بند کرنے کی سازش کر رہی ہے۔

وفاق کے نام پر دریائے سندھ کے تمام معاملات پنجاب کے حوالے کیے جا رہے ہیں، مگر سندھیانی تحریک اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ارسا ایکٹ میں ترمیم اور کالا باغ ڈیم سمیت سندھ کے پانی پر قبضے کے تمام منصوبوں کے خلاف سندھیانی تحریک اپنی جدوجہد جاری رکھے گی اور بہت جلد ان مسائل پر سندھیانی تحریک کی جانب سے ایک بڑی احتجاجی ریلی نکالی جائے گی۔

ریلی میں تحریک کے مرکزی رہنما ڈاکٹر دلدار لغاری، ایڈووکیٹ اسماعیل خاصخیلی، سندھی مزدور تحریک کے مرکزی آرگنائزر خالق گندرو، سندھیانی تحریک کی رہنما ڈاکٹر ماروی سندھو، سبھانی ڈاھری، حسنہ راہوجو، ایڈووکیٹ کائنات ڈاھری، سندھی شاگرد تحریک کے جنرل سیکریٹری علی رضا جلبانی، سجاگ بار تحریک کے مرکزی صدر فاضل کوسو، عوامی تحریک کے مرکزی رہنما نور نبی پلیجو، سندھی ہاری تحریک کے مرکزی رہنما ریاض پیچوہو، انور رند، علی نواز ڈاہری، علی نواز عالمانی بھی شریک ہوئے۔

جاگیر داری نظام، کارپوریٹ فارمنگ، نئے ڈیموں، نہروں اور زرعی اجناس بیرونِ ملک سے منگوانے کے خلاف سندھی ہاری تحریک کی طرف سے گل سینٹر سے حیدرآباد پریس کلب تک نکالی گئی احتجاجی ریلی میں منظور کی گئی قرار دادیں۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اور زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان کی 72 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے جن کا براہِ راست یا بالواسطہ روزگار زراعت سے وابستہ ہے۔

زراعت ہی کی بدولت شہروں اور دیہاتوں کو خوراک، کپڑا اور دیگر زرعی سہولتیں میسر آتی ہیں۔ یہی ہاری اور آبادگار ہیں جو ان اجناس کے ساتھ ساتھ پولٹری اور مویشی پالنے کا کام بھی کرتے ہیں، جس سے دودھ اور گوشت حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اس کے بدلے میں حکمرانوں کی غلط اور کسان دشمن پالیسیوں کی وجہ سے زراعت تباہ ہو چکی ہے اور ہاری و آبادگار فاقہ کشی کا شکار ہیں۔

کسان دشمن حکومت نے پہلے پانی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے آموں اور کیلے کے باغات تباہ کر دیے۔ فروری اور مارچ کے مہینوں میں پانی کی شدید کمی نے گندم اور سبزیوں کی فصلوں کو کاری ضرب لگائی۔ مزید یہ کہ ناقص پالیسیاں بنا کر گندم، ٹماٹر اور پیاز بیرون ملک سے منگوائے گئے، جس کے نتیجے میں یہاں کی تھوڑی بہت پیداوار بھی سیٹھ مافیاز کے حوالے کر دی گئی۔

اس سب سے ہاری اور آبادگار کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا اور وہ معاشی طور پر تباہ ہو گئے۔اس وقت جب دھان (چاول) کی فصل اترنا شروع ہوئی ہے، تو ایک طرف سیٹھوں اور سرمایہ داروں نے نرخ کم کر دیے ہیں اور دوسری طرف نمی (موئسچر) کا بہانہ بنا کر کئی کلو کی کٹوتی کر رہے ہیں۔ اس ظلم اور ناانصافی کے خلاف ہاری اور آبادگار احتجاج کر رہے ہیں، مگر حکومت کوئی نوٹس لینے کے لیے تیار نہیں۔

پانی کی غیر منصفانہ تقسیم اور اس پر ہونے والی چوریوں کے سبب حالات مزید خراب اور سنگین ہو گئے ہیں۔ ایک طرف پنجاب کے حکمران انگریز دور سے لے کر آج تک ملکی، عالمی، علاقائی اور اسلامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سندھ کے حصے کے پانی پر ڈاکہ ڈال کر سندھ کو اس کے حق کے پانی سے محروم کیے بیٹھے ہیں، تو دوسری طرف زمینیں مخصوص اور عالمی سامراجی طاقتوں کے وفادار جاگیر داروں کے حوالے کر دی گئی ہیں۔

انگریز سامراج نے سندھ میں خاص طور پر جاگیرداری نظام کو پروان چڑھایا اور مضبوط کیا، جسے پاکستان بننے کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مفادات کے لیے مزید طاقتور اور مستحکم کر دیا۔ بھوتاروں، جاگیرداروں اور سرداروں کو اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار اور کرسی کا لالچ دے کر تمام سندھ دشمن منصوبے پورے کرانے کے لیے استعمال کیا، اور بدلے میں انہیں ریاست کے اندر ایک الگ ریاست قائم کرنے کا موقع دیا۔

جاگیرداری نظام میں ہاری کو ظلم کی چکی میں پیسا جاتا ہے، نہ اس کے روزگار کا تحفظ ہے، نہ گھر کا، اور نہ ہی عزت و آبرو کا۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے تو جاگیرداروں کو ڈاکو پالنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اغوا انڈسٹری اور ڈاکو راج کے ذریعے سندھی عوام کو تباہ و برباد کر کے جاگیرداروں کو مزید طاقتور اور بے خوف بنا دیا ہے۔

سندھی ہاری تحریک کی آج کی ریلی کا مطالبہ ہے کہ پورے پاکستان، خاص طور پر سندھ سے، جاگیر داری اور سرداری نظام کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ زرعی اصلاحات لا کر جاگیریں توڑ کر زمینیں ہاریوں میں تقسیم کی جائیں، اور سندھ میں موجود سرکاری زمینوں سے غیر مقامی اور جاگیرداروں کے قبضے فوری طور پر ختم کر کے یہ زمینیں بے زمین مقامی ہاریوں اور آبادگاروں میں تقسیم کی جائیں۔ دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں پر بنائے گئے تمام ڈیم، اور تونسہ، پنجند، چشما جہلم جیسے تمام ڈاکو کینال ختم کیے جائیں۔