ڈیفینس آف ہیومن رائٹس کا تحفظ پاکستان آرڈینینس اور تحفظ پاکستان (ترمیمی) آرڈینینس کے خلاف احتجاجی مظاہرہ ،، ڈی چوک سے پا رلیمنٹ ہاؤ س تک مارچ ،پارلیمنٹ ہاؤ س کے داخلی دروازہ پر، دھرنا، راستہ بند کر دیا ، ہم کسی قیمت پر اس آرڈینینس کو قبول نہیں کریں گے،ہر جائز اور قانونی طریقے سے اس کالے قانون کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے، آمنہ مسعود جنجوعہ\

منگل 28 جنوری 2014 08:49

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔28جنوری۔2014ء )لاپتہ افراد کی تنظیم ڈیفینس آف ہیومن رائٹس نے گزشتہ روز اسلام آباد میں حال ہی میں صدر پاکستان کی طرف سے جاری کردہ تحفظ پاکستان آرڈینینس اور تحفظ پاکستان (ترمیمی) آرڈینینس کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین ڈی چوک سے ریلی کی شکل میں مارچ کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤ س کے داخلی دروازہ تک پہنچ گئے اور وہاں دھرنا دے کر راستہ بند کر دیا۔

اجلاس میں شرکت کے لیے ارکان اسمبلی کو پچھلے دروازے سے اندر لے جایا جاتا رہا۔ اسلام آباد انتظامیہ کی سر توڑ کوششوں کے باوجود مظاہرین نے اٹھنے سے انکار کر دیا۔ آخری اطلاعات تک دھرنے کے شرکا وہیں بیٹھے ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ یہ ترمیمی آرڈینینس سپریم کورٹ کے 10 دسمبر 2012 کے فیصلہ کے جواب میں پیش کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

اس فیصلہ میں وزیراعظم سمیت حکومت کوحکم دیا گیا تھا کہ لاپتہ افراد کی فوری بازیابی کے ساتھ ساتھ جبری گمشدگی کے ظلم کے خاتمہ کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

اس موقع پر ڈیفینس آف ہیومن رائٹس کی چیر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے شدت سے اس قانون کی مذمت کرتے ہوئے صحافیوں سے کہا کہ ہم کسی قیمت پر اس آرڈینینس کو قبول نہیں کریں گے اور ہر جائز اور قانونی طریقے سے اس کالے قانون کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے مذید کہا، " یہ آرڈینینس تمام پاکستانیوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ کیوں کہ پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے تمام سیکیورٹی اداروں کو پولیس کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی شحص کو کسی بھی وقت گرفتار کرنے اور اس سے بھی بڑھ کر گولی مارنے کا کھلا لائسینس دے دیا گیا ہے۔ بلا وارنٹ گھروں میں گھسنے اور کسی کی بھی املاک پہ بلا اجازت قبضہ کر لینے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلٰی خیبر پختون خواہ بار بار توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں کیونکہ بجائے اس کے کہ حکومت عدالتی حکم کے مطابق جبری گمشدگی کے خاتمہ کے لیے اقدامات کرتی الٹا جبری گمشدگی کو ریاستی قانون میں جایز بنایا جا رہا ہے۔

کسی بھی پاکستانی کو اس کی شہریت سے محروم کر کے اس کو دشمن فوجی قرار دے کر ہمیشہ کے لیے غائب کیا جاسکتا ہے۔ آردڈینینس کی شق 9 کے تحت حکومت کو اختیار ہے کہ وہ کسی بھی گرفتار شدہ شخص کے بارے میں تمام معلومات خفیہ رکھ سکتی ہے۔ اگر کسی کا مقدمہ خصوصی عدالت میں لایا بھی جائے گا تو مقدمے کی کاروائی خفیہ رکھی جائے گی۔ قید کی جگہ خفیہ رکھی جائے گی۔

اب اہل ارباب ہی بتائیں کہ جبری گمشدگی اور کیا ہوتی ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ حکومتی ادارے یہ سب کام پہلے ہی بڑی کامیابی سے اور کسی سزا کے خوف کے بغیر کر رہے ہیں اس کے لیے ایسا گھناوٴنا آرڈینیس لکھنے کا تکلف کیوں کیا گیا۔ انہوں کہ بتایا کہ غیرمعمولی حالات کا بہانہ بنا کر ایسے کالے قوانین بنانے کی روایت پاکستان میں بڑی پرانی ہے۔ سیکیورٹی آف پاکستان ایکٹ 1952، ڈیفینس آف پاکستان آرڈینینس 1955، ڈیفینس آف پاکستان رولز 1965، سپریشن آف ٹیررسٹ ایکٹوٹی ایکٹ 1975 سے لیکر اینٹی ٹیررازم ایکٹ1997 سے ہوتے ہوئے ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈینینس2011 اور اب تحفظ پاکستان آرڈینینس تک قسم قسم کے جبری قوانین بنائے گئے مگر ہماری حکومتیں عوام کو حقیقی تحفظ دینے میں اج تک ناکام رہی ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ مشکل حالات کا بہانہ بنا کر تخلیق کیے گئے یہ تمام قوانین ہر حکومت نے اپنی مخالفین اور اور سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیے۔ آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ معمولی جرائم سے لیکر دہشت گردی تک ہر معاملے کے لیے پولیس کے علاوہ کوئی ادارہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ پولیس کی تنخواہوں میں تین گنا تک اضافہ، کانسٹیبل اور دیگر افسران کے لیے اہلیت کا بہتر معیار اور 2 سے 4 سال تک کی ابدائی پیشہ ورانہ تربیت، اختیارات کے ناجایز استعمال پر کڑی سزائیں، پولس کے خلاف شکایات کی تفتیش کے لیے ایک ماورا ادارہ اور تفتیش میں ہر طرح کی سیاسی اور فوجی مداخلت ختم کرنے کے قوانین جیسے اقدامات ہی امن و امان قائم کرنے کا واحد راستہ ہے۔

حکومت اگر بھٹکنا چھوڑ کر درست راستہ اختیار کر لے گی تو حکومت اور عوام دونوں کے لیے بہتر ہوگا۔

متعلقہ عنوان :