چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ ذکاء اشرف کیس میں حکومت بیک فٹ پر چلی گئی ،درخواست واپس لینے یا مزید دلائل دینے کے لئے حکومت کے وکیل عاصمہ جہانگیر نے حکومت سے مزید مشاورت کے لئے جمعہ تک کا وقت دینے کی استدعا کر دی،سپریم کورٹ نے استدعا منظور کرلی، ذکاء اشرف کی تعیناتی پی سی بی کے قانون کے مطابق تھی۔ عبوری کمیٹی ان کی بحالی کے ساتھ ہی ختم کر دی گئی،جسٹس میاں ثاقب نثار ، پی سی بی چیئرمین کی تعیناتی میں ہائیر اینڈ فائر کا اختیار حکومت کے پاس تھا انہوں نے استعمال نہیں کیا ۔اب کیوں کرنا چاہتے ہیں ۔اگر ایسا ہے تو کر لیں جس کا مسئلہ ہوگا وہ عدالت آ جائیگا،جسٹس اعجاز افضل کے ریمارکس

منگل 28 جنوری 2014 08:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔28جنوری۔2014ء)سپریم کورٹ میں چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ ذکاء اشرف کیس میں حکومت بیک فٹ پر چلی گئی ۔درخواست واپس لینے یا مزید دلائل دینے کے لئے حکومت کے وکیل عاصمہ جہانگیر نے حکومت سے مزید مشاورت کے لئے جمعہ تک کا وقت دینے کی استدعا کر دی۔جس کو عدالت نے منظور کرلیا۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ذکاء اشرف کی تعیناتی پی سی بی کے قانون کے مطابق تھی۔

عبوری کمیٹی ان کی بحالی کے ساتھ ہی ختم کر دی گئی جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پی سی بی چیئرمین کی تعیناتی میں ہائیر اینڈ فائر کا اختیار حکومت کے پاس تھا انہوں نے استعمال نہیں کیا ۔اب کیوں کرنا چاہتے ہیں ۔اگر ایسا ہے تو کر لیں جس کا مسئلہ ہوگا وہ عدالت آ جائیگا۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ روز دیئے ہیں۔جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل پر مشتمل دو رکنی بنچ نے چیئرمین کرکٹ بورڈ ذکاء اشرف کیس کی سماعت کی ۔

اس دوران حکومت کی جانب سے عاصمہ جہانگیر پیش ہوئیں۔21 اکتوبر2013 ء کو کمیشن کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ۔ہرروز میرے لئے نئی خبر تھی۔جسٹس ثاقب نے کہا ہے کہ تو ہماری تاریخ ہے ہمیں اپنے معاملات سے آگاہ کریں۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ فیصلہ دیتے وقت ہائی کورٹ نے ان کو نہیں سنا۔جسٹس ثاقب نے کہا کہ اگر ہم ذکاء اشرف کی تقرری کو درست قرار دیں تو کیا بتائیں کہ کیا ان کی تقرری صحیح طریقے سے کی گئی ۔

ہائیکورٹ نے انہیں بحال سے اس لئے کیا کہ دو رکنی بنچ کے نزدیک سنگل بنچ کا فیصلہ صحیح نہیں تھا ۔پی سی بی کو مسلسل نقصان ہو رہا تھا ۔پی سی بی لاء دکھائیں۔جسٹس اعجاز نے کہا کہ سنگل بنچ کا فیصلہ ناماسب سمجھتے ہوئے اس کے خلاف فیصلہ دیا گیا ۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ بہت سی چیزیں کی جارہی تھیں ۔جسٹس ثاقب نے کہا کہ آپ نے اس وقت فیصلہ کیا جب ہائی کورٹ میں درخواست زیر التواء تھی۔

آڈٹ رپورٹ بتانے کی ضرورت نہیں۔ آپ نے ان کی جانب سے درخواست دائر کرنے کے معاملے کو بھی چیلنج کیا ۔عاصمہ نے کہا کہ پالیسی حکومت نے وضع کی اور حکومت نے ہی اس کی فراغت کا فیصلہ کیا۔اس کے خلاف بہت سے الزامات تھے۔کئی لوگوں کو بھرتی کیا گیا۔جسٹس اعجاز نے کہا کہ اگر ہائیر اینڈ فائر آپ کے اختیار میں تھا تو پھر عدالت میں کیوں گئے ۔عاصمہ نے کہا کہ میں نے دیکھنا تھا کہ کیا میں عدالت سے رجوع کر سکتی ہوں یا نہیں۔

عدالت نے کہا کہ آپ کو کسی نے نہیں بتایا کہ یہ اختیار نہیں بنتا۔ہائی کورٹ نے کنفیوژکیا ۔جسٹس ثاقب نے کہا کہ جب قانون نے آپ کو اجازت دی تھی تو آپ نے خود سے ایکشن کیوں نہیں لیا۔آپ اپنے اختیارات کے استعمال سے کیوں شرم کررہے تھے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اب بھی آپ کوئی حکم جاری کر سکتے ہیں۔قانون کے مطابق آج بھی آپ کارروائی میں آزاد ہیں ۔

مگر اس میں عدالت کو تو ملوث نہیں کریں۔جسٹس ثاقب نے کہا کہ آپ قانون کے مطابق آزادانہ ایکشن کیوں نہیں لیا۔آپ سوچ لیئجے ۔ہم آپ کو ایڈوانس نہیں دے رہے یہاں آپ کے آنے کی کوئی تک نہیں بنتی۔بریک تک سوچ لیجئے۔وقفہ کے بعد بتلا دیجئے۔ممکن ہے کہ وہ یہ درخواست واپس لیں۔افتان کریم نے کہا کہ ہمارے معاملات برقرار نہیں رہیں گے۔جسٹس ثاقبت نے کہا کہ اگر قانون کے مطابق ان کو ا ختیار ہے تو وہ کورٹ آف لاء جائیں۔

کیا ایس آر او سے کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے یا نہیں۔عبوری کمیٹیاں خلاء پر کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں اور ذکاء اشرف کی بحالی کے ساتھ وہ ختم ہوگئیں ۔پی سی بی فیصلے کردے اگر کوئی اس سے متاثر ہوا تو وہ خود بخود عدالت آ جائے گا ۔ذکاء اشرف کو پی سی بی قانون کے تحت ہی چیئرمین بنایا گیاہے۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ چیئرمین پی سی بی کی بحالی قانون کے مطابق نہیں ہے اور عدالت کسی کو چیئرمین بنانے کا اختیار نہیں رکھتیں۔

ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے وقت زمینی حقائق کو مد نظر نہیں رکھا اور نہ ہی عبوری کمیٹیوں کو ختم کیا گیا۔14 اکتوبر2013 کو پانچ رکنی عبوری کمیٹی بنائی۔10 جنوری2014 اس میں توسیع دی گئی ۔کمیٹی نے90 روز تک کام کرنا تھا ۔اس میں ہارون الرشید اور نجم سیٹھی شامل ہے۔پی سی بی کے80 ووٹرز ہیں ۔چیئرمین الیکشن کے لئے35 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں جو دنیا کے مہنگے الیکشن ہوں گے۔کرکٹ صرف کھیل کے لئے نہیں ڈپلومیسی کے لئے بھی کام آتی ہے۔ عبوری کمیٹی 90 روز کے لئے حکومت نے بنائی تھی ۔وقفے کے بعد عاصمہ جہانگیر نے عدالت کو بتایا کہ حکومت اس معاملے پر مزید غور کرنا چاہتی ہے اس لئے سماعت ملتوی کی جائے جس پر عدالت ے سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی۔