یو اے ای میں افغان حکومت کے طالبان کے ایک دھڑے کے ساتھ مذاکرات ،ملاعمر کے سابق قریبی ساتھی آغا جان معتصم نے بھی مذاکرات کی تصدیق کردی،ملاعمر کی طرف سے مذاکرات مسترد،مکمل لاتعلقی کا اعلان

پیر 24 فروری 2014 05:42

کابل /دبئی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔24فروری۔2014ء)افغان امن کونسل نے طالبان کے ایک دھڑے سے امن بات چیت کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ مذاکرات کابل حکومت کی سرپرستی میں متحدہ عرب امارات میں اْن سینئر طالبان رہنماوٴں کے ساتھ ہوئے، جو باقی طالبان سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔موصولہ رپورٹوں میں اہلکاروں کے ذرائع سے بتایا گیا ہے کہ یہ تازہ مذاکرات افغان حکومت کی سرپرستی میں ہونے والے پہلے مذاکرات ہیں، جِن کا مقصد رواں برس افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد ملک میں امن کا قیام ہے۔

افغان امن کونسل کی جانب سے اِس بارے میں گذشتہ روز جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے،فریقین نے اتفاق کیا ہے کہ اِس طرز کی بات چیت کا عمل جاری رکھنا چاہیے اور دونوں جانب سے اْمید ظاہر کی گئی ہے کہ اِن ملاقاتوں سے کوئی مثبت پیش رفت ممکن ہو سکے گی۔

(جاری ہے)

بیان کے مطابق سرکاری وفد کے ارکان جن طالبان نمائندوں سے ملے، وہ امن مذاکرات کے سلسلے میں سنجیدہ تھے۔

اگرچہ امن کونسل نے اِس بارے میں کوئی معلومات جاری نہیں کی ہیں کہ کونسل نے جن طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے، وہ کون ہیں تاہم افغانستان میں طالبان دور میں وزیر خزانہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے والے آغا جان معتصم کے گروپ نے نیوز ایجنسی اے پی کو جاری کردہ اپنے ایک بیان میں اِن مذاکرات میں شرکت کی تصدیق کر دی ہے۔ معتصم کے بقول دبئی میں افغان صدر حامد کرزئی کی امن کونسل کے نمائندگان کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں اِس بات پر اتفاق رائے قائم ہوا کہ مسلح تنازعے کے حل کے لیے افغان باشندوں پر مشتمل مذاکراتی عمل کی راہ اختیار کی جائے۔

واضح رہے کہ طالبان رہنما ملا عمر نے کرزئی انتظامیہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کو مسترد کر دیا ہے اور طالبان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ دبئی میں جس وفد نے افغان حکومت کی امن کونسل کے ساتھ بات چیت کی، اْس کا اْن سے کوئی تعلق نہیں۔آغا جان معتصم ایک وقت ملا عمر کے قریبی ساتھی مانے جاتے تھے اور وہ طالبان کی طاقتور سیاسی کمیٹی کے سربراہ بھی تھے۔

پاکستان کے جنوبی شہر کراچی میں 2010ء میں ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا۔ اگرچہ کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی تاہم ایسا مانا جاتا ہے کہ یہ ناکام حملہ سخت گیر طالبان کی جانب سے اس لیے کیا گیا تھا کیونکہ معتصم افغانستان میں مسلح تنازعے کے خاتمے کے لیے متعدد مرتبہ امن مذاکرات کا مطالبہ کر چکے تھے۔ معتصم کے گروپ میں طالبان دور کے سینئر وزراء سمیت کئی اہم طالبان کمانڈز اورسابق سفارت کار بھی شامل ہیں۔

متعلقہ عنوان :