وزیرستان میں کرفیو کی وجہ سے خوراک کی قلت، زندگی معطل ہو کر رہ گئی،حافظ گل بہادر گروپ کی سکیورٹی فورسز پر گذشتہ جمعرات کو ہونیوالے حملے کی مذمت

جمعہ 16 مئی 2014 07:16

میران شاہ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16مئی۔2014ء) شمالی وزیرستان میں گذشتہ آٹھ روز سے جاری کرفیو کی وجہ سے ایجنسی کے بیشتر مقامات پر کھانے پینے کی اشیا کی قلت پیدا ہوگئی ہے جبکہ راستوں کی بندش کے باعث لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق شمالی وزیرستان میں گذشتہ جمعرات آٹھ مئی کو سکیورٹی فورسز کے قافلے پر ہونے والے حملے میں نو اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد ایجنسی کے بیشتر علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا جو تا حال جاری ہے۔

شمالی وزیرستان کے مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ مسلسل کرفیو کی وجہ سے ایجنسی کے اکثر علاقوں میں زندگی معطل ہو کر رہ گئی ہے۔انھوں نے کہا کہ زیادہ تر علاقوں میں مقامی افراد گھروں کے اندر محصور ہیں، جبکہ علاقے میں تمام بازار، تجارتی مراکز اور تعلیمی ادارے بھی گذشتہ جمعرات سے بند پڑے ہیں۔

(جاری ہے)

شمالی وزیرستان میں جمعیتِ علمائے اسلام ف کے نائب امیر مولانا گل رمضان نے بی بی سی کو بتایا کہ مسلسل کرفیو کی وجہ سے لوگ کئی مقامات پر محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان کو آنے جانے والے تمام راستوں کی بندش کے باعث علاقے میں کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے جبکہ کئی مقامات پر مریض گھروں اور ہسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں۔مولانا گل رمضان نے کہا کہ شمالی وزیرستان کو آنے جانے والے تمام راستوں کی بندش کے باعث علاقے میں کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے جبکہ کئی مقامات پر مریض گھروں اور ہسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں۔

مولانا رمضان کے مطابق سکیورٹی فورسز پر حملے کے بعد دو دنوں تک غلام خان کے علاقے میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے سرچ آپریشن جاری رہا، تاہم اس کے بعد سے کہیں بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی، لیکن اس کے باوجود علاقے کے مکین کرفیو کا عذاب بھگت رہے ہیں اور اس کا مقصد عوام کو تکلیف دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔شمالی وزیرستان کے مقامی صحافی عمر دراز وزیر کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے اب تک اس بات کو واضح نہیں کرایا جا سکا ہے کہ جب علاقے میں کوئی کارروائی نہیں ہو رہی تو پھر کرفیو مسلسل کیوں جاری ہے۔

انھوں نے کہا کہ علاقے میں سرچ آپریشن اور کارروائی کی وجہ سے کئی خاندانوں نے خواتین اور بچوں سمیت سرحد پار کر کے افغانستان ہجرت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد تین سو سے لے کر پانچ سو کے قریب بتائی جاتی ہے۔دریں اثنا شمالی وزیرستان میں مقامی طالبان رہنما حافظ گل بہادر گروپ کے ترجمان احمد اللہ احمدی نے مقامی صحافیوں کو فون کر کے سکیورٹی فورسز پر گذشتہ جمعرات کو ہونے والے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

ترجمان نے حکومت سے ایپل کی کہ عوام کی مشکلات کی خاطر شمالی وزیرستان میں نافذ کرفیو میں نرمی کی جائے تاکہ لوگ اپنے لیے کھانے پینے کا سامان خرید سکیں۔خیال رہے کہ جمعرات کو شمالی وزیرستان کے دور افتادہ علاقے غلام خان سڑک پر سکیورٹی فورسز کے ایک قافلے کو بم حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا جس میں نو سکیورٹی اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ تاہم ابھی تک کسی تنظیم کی طرف سے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے۔

متعلقہ عنوان :