موجودہ حکمرانوں نے انتخابی جلسوں میں ترقی اور خوشحالی کے جو سہانے خواب دکھائے تھے وہ پورے نہیں ہوئے، سراج الحق ، میں نواز شریف اور انکی ٹیم کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے انتخابی منشور کو پڑھیں اور عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کریں ،ملک میں افراتفری اور خوف کا راج ہے جسکی وجہ سے حکمرانوں کے بھی چہرے اترے ہوئے ہیں ، افطار ڈنر کے موقع پر خطاب

منگل 8 جولائی 2014 06:54

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8جولائی۔2014ء)جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے انتخابی جلسوں میں ترقی اور خوشحالی کے جو سہانے خواب دکھائے تھے وہ پورے نہیں ہوئے میں نواز شریف اور انکی ٹیم کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے انتخابی منشور کو پڑھیں اور عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کریں ،ملک میں افراتفری اور خوف کا راج ہے جسکی وجہ سے حکمرانوں کے بھی چہرے اترے ہوئے ہیں ،پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے ایک دوسرے کا کبھی احتساب نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے کی فرینڈ لی اپوزیشن بنیں رہیں جب تک ملک میں احتساب کا عمل شروع نہیں کیا جاتا جمہوریت کو خطرات لاحق رہینگے،سیاست اور جمہوریت کو مخصوص طبقے نے یرغمال بنا رکھا ہے عید کے بعد ایک عوامی ایجنڈا لیکر ملک بھر کے شہروں اور دیہاتوں میں عوام کے پاس پہنچونگا، بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی قومی اسمبلی نے تحفظ پاکستان بل کے نام پر ایک ایسے قانون کی منظوری دی ہے جس کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں شہریوں کو دئیے گئے بنیادی حقوق سلب ہو کر رہ جائینگے او رمحض شک کی بنیاد پر15گریڈ کا ایک افسر کسی شہری کوگولی ما ر سکے گا۔

(جاری ہے)

اس بل کے ذریعے ملک کا عدالتی اور قانونی نظام بے معنی ہو کر رہ جائیگا اور یہ خدشہ بھی ہے کہ اس ظالمانہ قانون کو سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے کے لئے استعمال کیا جائے ۔جماعت اسلامی تحفظ پاکستان بل کو مسترد کرتی ہے اور اس سلسلے میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس عاملہ کا ایک ہنگامی اجلاس 12جولائی کو منصورہ لاہور میں ہوگا جس میں تحفظ پاکستان بل کی قومی اسمبلی سے منظوری سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تفصیلی غورہوگا اور اس حوالے سے حکومت عملی وضع کی جائے گی۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے پشاور میں صحافیوں اور کالم نگاروں کے لئے جماعت اسلامی کی جانب سے دئیے گئے افطار ڈنر کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات امیر العظیم ، صوبائی سیکرٹری اطلاعات اسرار اللہ ایڈووکیٹ ، جماعت اسلامی ضلع پشاور کے امیر بحراللہ خان ایڈووکیٹ ، شعبہ تعلقات عامہ کے صوبہ خیبر پختونخوا صابر حسین اعوان اور دیگر رہنماء بھی موجود تھے۔

سراج الحق نے مزید کہا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں اور اس وقت شدید مشکلات سے دو چار ہیں۔ بد قسمتی میں ماضی میں بھی فوجی آپریشنوں سے متاثر ہونیوالے قبائلی عوام کی مشکلات کم کرنے اور انہیں ضروری مدد فراہم کرنے کے لئے وفاقی حکومتیں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں اور اس مرتبہ بھی وفاقی حکومت نے شمالی وزیرستان آپریشن کے متاثرین کے مسائل اور مشکلات کو حل کرنے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی جس کی وجہ سے سخت گرمی اور رمضان المبارک میں متاثرین در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔

صوبائی حکومت نے شمالی وزیرستان آپریشن کے متاثرین کے لئے مزید 57کروڑ روپے کی منظوری دے دی ہے اور میں وفاقی حکومت سے بھی مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ شمالی وزیرستان آپریشن کے متاثرین اور مجموعی طور پر قبائلی علاقوں کی ترقی کے لئے ایک سو ارب روپے کی ایک بڑے امداری پیکیج کا اعلان کرے اور بالخصوص ا نکی دوبارہ اپنے علاقوں میں آباد کاری کے لئے روڈ میپ اور منصوبہ بنائے اور اس کا جلد از جلد اعلان کیاجائے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت سخت گرمی اور رمضان المبار ک میں صوبے میں بجلی کی شدید لوڈ شیڈنگ جاری ہے ۔ ا ٓ پ کے ذریعے میں وفاقی حکومت اور پیسکو سے مطالبہ کرتا ہوں کہ صوبے میں بجلی لوڈ شیڈنگ میں کمی کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے موجودہ نظام میں غریبوں کے لئے کچھ نہیں ۔ اس ملک کے کڑوڑوں عوام نبیادی انسانی ضروریات سے محروم ہیں ۔ تعلیم اور صحت کی سہولتیں ناپید ہیں اور ملک سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ایک مٹھی بھر طبقے کے چنگل میں بُری طرح پھنسا ہوا ہے ۔

جب کہ غریب عوام کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے ۔ انشاء اللہ تعالی عید کے بعد ایک عظیم الشان عوامی ایجنڈا لے کر ملک کے کروڑوں غریب عوام کے پاس جاؤں گا اور انشاء اللہ تعالی انہیں ساتھ لیکر ظلم اور جبر کے نظام پر کاری ضرب لگائیں گے۔ یہاں ایک مرتبہ پھر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جمہوریت اس ملک کی ضرورت ہے اور جمہوریت اور جمہوری ادارے چلتے رہنے چاہئیں اور یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے یہ طے کیا ہے کہ وہ کسی ایسی احتجاجی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی جس کے نتیجے میں ملک میں جمہوریت ڈی ریل ہو نے کا خدشہ ہو۔