مجھے تھر میں کسی ایک فرد کا نام بتایا جائے جو بھوک سے مرا ہو ،سید قائم علی شاہ،وہاں جو بچے مرے ہیں ، اس کا سبب بھوک نہیں بلکہ اس کے اسباب وہ ہیں ، جن کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں میں بھی بچوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں ،وزیر اعلیٰ سندھ

منگل 28 اکتوبر 2014 07:38

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔28اکتوبر۔2014ء) وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ مجھے تھر میں کسی ایک فرد کا نام بتایا جائے ، جو بھوک سے مرا ہو ۔ وہاں جو بچے مرے ہیں ، اس کا سبب بھوک نہیں بلکہ اس کے اسباب وہ ہیں ، جن کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں میں بھی بچوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ ہے کہ پاکستان میں سالانہ دس فیصد پانچ سال کی عمر سے پہلے مر جاتے ہیں ۔

ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائے ، جو یہ رپورٹ دے کہ سول اسپتال کراچی میں کتنے بچے ہلاک ہوتے ہیں اور سول اسپتال مٹھی میں کتنے بچے ہلاک ہوتے ہیں ۔ وہ پیر کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں متعدد ارکان کی طرف سے تھر میں بچوں کی ہلاکتوں سے متعلق بعض ٹی وی چینلز کی رپورٹس کے حوالے سے اٹھائے گئے ایشو پر بیان دے رہے تھے ۔

(جاری ہے)

ایم کیو ایم کے متعدد ارکان نے یہ مسئلہ اٹھایا اور کہا کہ تھر میں بچوں کی ہلاکتوں کی خبریں تشویش ناک ہیں ۔

ایم کیو ایم کے رکن محمد حسین اس حوالے سے ایک قرار داد بھی پیش کرنا چاہ رہے تھے لیکن اجلاس کے ختم ہونے تک انہیں قرار داد پیش نہیں کرنے دی گئی ۔ اجلاس کے آخر میں جب وہ قرار داد پیش کرنے لگے تو ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا نے کہا کہ اس معاملے پر بات ہو گی ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کافی عرصے کے بعد انتہائی جذباتی تقریر کی اور کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت گذشتہ چار سال سے تھر کے لوگوں کو مفت گندم مہیا کر رہی ہے اور اس پر اب تک دو ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں ۔

ہماری حکومت 16 لاکھ افراد کو خوراک فراہم کر رہی ہے ۔ ہم نے مٹھی میں مزید 46 ڈاکٹرز تعینات کیے ہیں ۔ ننگر پارکر جیسے دور دراز علاقے میں بھی مرد اور خواتین ڈاکٹرز خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ میں نے اتوار کو وہاں دورہ کیا تھا ۔ وہاں ایک بچے کی موت ہوئی ہے لیکن اس کا سبب کچھ اور ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج آپ مٹھی اسپتال کو جا کر دیکھیں ، وہاں تمام سہولتیں موجود ہیں ۔

مٹھی ایک صاف ستھرا شہر ہے ۔ ہم نے تھر پارکر میں سڑکیں تعمیر کیں ۔ وہاں لوگوں کو بجلی مہیا کی ۔ وہاں کے لوگوں کو خوراک اور دوائیں فراہم کیں۔ پانچ سال سے زیادہ عمر کا کوئی فرد بھوک سے نہیں مرا ہے ۔ بچے بھوک سے نہیں مرے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تھر میں اگرچہ غربت ہے لیکن ہماری حکومت نے غربت کے خاتمے کے لیے کئی انقلابی اقدامات کیے ہیں ۔ ننگر پارکر سے لے کر پنجاب کے شہر خانپور تک تھر کا علاقہ ہے ۔

پنجاب کے علاقے میں بھی بچوں کی اموات ہوئی ہیں لیکن اگر سول اسپتال کراچی اور مٹھی کے اسپتالوں میں بچوں کی اموات کے اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو سب کو اندازہ ہو جائے گا ۔

انہوں نے کہا کہ 2007ء سے پہلے تھر کی حالت بہت خراب تھی لیکن آج حالات بہتر ہیں ۔ ہم نے گذشتہ پانچ سال میں بہت محنت کی ہے۔ کسی کی محنت اور کوششوں کو ماننا چاہئے ۔

انہوں نے کہا کہ تھر میں طویل عرصے سے پانی کی قلت تھی ۔ پیپلز پارٹی کے دور سے پہلے تھر میں صرف چار آر او پلانٹس تھے اور وہ بھی کام نہیں کر رہے تھے ۔ ہماری حکومت نے 180 آر او پلانٹس نصب کیے ہیں اور جون سے پہلے مزید 150 آر او پلانٹس لگا دیئے جائیں گے ۔ ننگر پارکر تک پانی کی پائپ لائن بچھائی جا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اندھیرے میں تیر نہ چلائے جائیں ۔

مٹھی جا کر خود صورت حال کو دیکھا جائے ۔ اگر ہماری کوئی کوتاہی سامنے آئے تو میں معافی مانگوں گا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ عدالت نہ کی جائے ۔ ہم کسی کے ساتھ عدالت نہیں رکھتے ہیں ، چاہے کوئی دوسرا ہم سے ناراض ہی کیوں نہ ہو ۔ انصاف کی بات کرنی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ دس ارب روپے کی لاگت سے اسلام کوٹ تک شاہراہ بنائی جا رہی ہے ۔ دو سال کے اندر کوئلے کی مائننگ شروع ہونے سے وہاں کے حالات بدل جائیں گے ۔

ہم نے ہوا سے بجلی پیدا کی ہے اور کوشش کریں گے کہ ہوا سے چار سے پانچ سو میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکے ۔ قبل ازیں وزیر خوراک جام مہتاب حسین ڈاہر نے ایوان میں اپنا بیان دیتے ہوئے بتایا کہ حکومت تھر کی صورت حال سے غافل نہیں ہے اور خشک سالی سے متاثرہ افرادکی امداد کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں ۔ گذشتہ سا بھی حکومت نے مفت گندم تقسیم کی تھی ۔

اس سال بھی مفت گندم تقسیم کی جا رہی ہے ۔ جن گھرانوں کو مفت گندم تقسیم کی جارہی ہے ، ان کی تعداد 127000 سے بڑھا کر 187000 کر دی گئی ہے ۔ انہیں ماہانہ کی بنیاد پر مفت گندم کے تھیلے دیئے جاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تھر کی صورت حال میں محکمہ صحت کی کارکردگی پر بھی بات کی جائے ۔ محکمہ صحت کی کارکردگی ایک سوال ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مشکل کی اس گھڑی میں حکومت تھر کے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑے گی ۔

وزیر اعلیٰ کے بعد وزیر لائیو اسٹاک جام خان شورو نے کہا کہ ہم نے تھر میں ساڑھے سات لاکھ جانوروں کی ویکسی نیشن کی ہے ۔ میں نے تھر کے کئی دورے کیے ہیں ۔ ہماری تین موبائل ٹیمیں کام کر رہی ہیں ۔ تھر میں 65 لاکھ مویشی ہیں ۔ پاکستان میں کسی بھی ضلع سے زیادہ تھر میں مویشی پائے جاتے ہیں ۔ حکومت اپنا کام کر رہی ہے اور وہ صورت حال سے غافل نہیں ہے ۔