کراچی ،سندھ اسمبلی میں زبردست ہنگامہ ،سابق اتحادی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ارکان ایک دوسرے سے الجھ پڑے

منگل 28 اکتوبر 2014 07:38

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔28اکتوبر۔2014ء) سندھ اسمبلی میں پیر کو اس وقت زبردست ہنگامہ ہوا اور سندھ کی سابق اتحادی جماعتوں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے ارکان ایک دوسرے سے الجھ پڑے ، جب سندھ کے وزیر بلدیات و اطلاعات شرجیل انعام میمن نے ایم کیو ایم کے رکن ڈاکٹر ظفر احمد خان کمالی کے توجہ دلاوٴ نوٹس پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی ( کے ایم سی ) اور کراچی واٹر بورڈ کے کئی ملازمین ٹارگٹ کلرز کے طور پر گرفتار ہوئے ہیں ۔

بدنام دہشت گرد فاروق دادا ایم ڈی واٹر بورڈ کا ڈرائیور تھا ۔ اس پر ایم کیو ایم کے ارکان کھڑے ہو گئے اور انہوں نے ایک ساتھ بولنا شروع کر دیا ۔ ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ہم بھی کئی لوگوں کا نام لے سکتے ہیں ، جو ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہیں ۔

(جاری ہے)

پیپلز پارٹی کے ارکان بھی کھڑے ہو کر بولنے لگے اور ایوان زبردست شور شرابے کے باعث مچھلی بازار کا منظر پیش کرنے لگا ۔

اسپیکر نے سب کے مائیک بند کرا دیئے ۔ اسی دوران ظہر کی اذان شروع ہو گئی لیکن دونوں طرف سے ارکان اذان کے احترام میں بھی خاموش نہیں ہوئے اور مسلسل بولتے رہے ۔ اسپیکر ارکان سے کہتے رہے کہ ہم سب مسلمان ہیں ، ہمیں اذان کا احترام کرنا چاہئے لیکن ان کی بھی نہیں سنی گئی ۔ اسپیکر کے بار بار کہنے پر اذان کے آخر میں ارکان اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے ۔

اذان کے بعد شرجیل انعام میمن نے کہا کہ میں سچ بولوں گا تو یہی ہو گا ۔ خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ سچ تو ہمارے پاس بھی بہت ہے ۔ اس دوران ایم کیو ایم کے ارکان نے زبردست نعرے بازی شروع کر دی ۔ وہ ” ظالمو جواب دو ، خون کا حساب دو ۔ غنڈہ گردی نہیں چلے گی ۔ لاٹھی گولی کی سرکار ، نہیں چلے گی “ کے نعرے لگا رہے تھے ۔ اسپیکر نے ایم کیو ایم کے ارکان سے کہا کہ ان کے رویئے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ ایوان کو چلایا جائے ۔

یہ رویہ ٹھیک نہیں ہے ۔ اسپیکر کی بار بار اپیل پر بالآخر دونوں طرف سے ارکان اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے ۔ شور شرابے کے دوران دونوں سابق اتحادی جماعتوں کے ارکان کے درمیان سخت جملوں اور غیر پارلیمانی الفاظ کا بھی تبادلہ ہوا ، جنہیں اسپیکر نے ہذف کرا دیا ۔ واضح رہے کہ ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے بعد دونوں جماعتوں کی سندھ اسمبلی میں یہ پہلی شدید جھڑپ تھی ۔

قبل ازیں ایم کیو ایم کے رکن ڈاکٹر ظفر احمد خان کمالی نے توجہ دلاو نوٹس پر کہا کہ حکومت صوبہ سندھ خصوصاً میرپور خاص میں صحت و صفائی کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے ۔ بلدیاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے میرپور خاص گندگی ڈھیر بنا ہوا ہے ۔ بلدیاتی اداروں میں ضرورت سے زیادہ لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے ۔ وہاں کرپٹ آفیسرز کو بٹھایا گیا ہے ، جو کوئی کام نہیں کرتے ہیں ۔

شرجیل انعام میمن نے کہا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت نیک نیتی دکھا رہی ہے اور اس پر دوسری طرف سے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی جا رہی ہے ۔ محکمہ بلدیات جب سے پیپلز پارٹی کے پاس آیا ہے ، تب سے صورت حال بہتر ہوئی ہے ۔ ورنہ سب جانتے ہیں کہ بلدیاتی اداروں کو کس نے تباہ کیا ہے اور کس نے ” اوور ایمپلائمنٹ “ کی ہے ۔ بلدیاتی اداروں میں بھرتیوں کے لیے ڈگریوں یا قابلیت کو نہیں دیکھا جاتا تھا ۔

ٹارگیٹڈ آپریشن میں گرفتار ہونے والے زیادہ تر ٹارگٹ کلرز کا تعلق واٹر بورڈ اور کے ایم سی سے ہے ۔ بدنام زمانہ دہشت گرد فاروق دادا ایم ڈی واٹر بورڈ کا ڈرائیور تھا ۔ اسی موقع پر ایوان میں ہنگامہ شروع ہوا ۔

قبل ازیں حیدر آباد میں صحت و صفائی سے متعلق ایم کیو ایم کی خاتون رکن رعنا انصار کے توجہ دلاو نوٹس پر وزیر بلدیات و اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ حیدر آباد سمیت پورے سندھ میں بلدیاتی مسائل موجود ہیں اور حکومت نے ان مسائل سے آنکھیں بند نہیں کی ہیں ۔

ان مسائل کا بنیادی سبب بلدیاتی اداروں میں ” اوور ایمپلائمنٹ “ ہے ۔ حیدر آباد کا ادارہ ” واسا “ ہو یا ” کے ڈبلیو ایس بی “ ہو ، دونوں میں اوور ایمپلائمنٹ کی وجہ سے اخراجات پورے نہیں ہوتے ۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ملازمین کام نہیں کرتے ہیں ۔ حکومت سندھ دونوں اداروں کو بجلی کے بلوں کی ادائیگی کی مد میں بالترتیب 50 کروڑ اور 30 کروڑ روپے ماہانہ ادا کرتی ہے تاکہ ان اداروں کی بجلی منقطع نہ ہو اور شہریوں کو پانی کی فراہمی میں تکلیف نہ ہو ۔

ہم نے کوئی امتیاز نہیں برتا ہے ۔ یہ شہر بھی ہمارے ہیں اور ہم نے ان کے مسائل حل کرنے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حیدر آباد میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے منتخب ارکان اور اعلیٰ افسران کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کیا تھا ، اسی اجلاس میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ۔ کمیٹی سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ ان ملازمین کو برطرف کر دے، جو کام نہیں کرتے ہیں ۔

افسران سے بھی کہا گیا تھا کہ بلدیاتی اداروں میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہو گی ، وہ شہر کو بہتر بنا کر دکھائیں ۔ ہم نے اپنے وسائل سے زیادہ فنڈز بھی مہیا کیے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ نے پورے صوبے میں تجاوزات کے خاتمے اور صفائی کی مہم شروع کی ۔ حیدر آباد میں جتنی تجاوزات ہم نے ختم کی ہیں ، اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ حیدر آباد میں مسائل ماضی سے چلے آ رہے ہیں ۔

کسی ایک دور پر سارا ملبہ نہیں ڈالنا چاہئے ۔ وہاں مشرف دور میں طاقتور ناظم بھی رہے ہیں لیکن مسائل موجود ہیں ۔ حیدر آباد میں آج تک کسی لینڈ فل سائٹ کی نشاندہی نہیں کی گئی ۔ ہم نے جب سے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بنائی ہے ، وہاں صحت و صفائی کے معاملات بہتر ہوئے ہیں ۔ ہم نے حیدر آباد کے لیے پہلے بھی خصوصی پیکیج دیئے اور اب بھی وزیر اعلیٰ سندھ اس شہر کو ایک اور خصوصی پیکیج دینے پر کام کر رہے ہیں ۔ ہم نے کراچی اور حیدر آباد دونوں شہروں کو ” اون “ کیا ہے ۔ مسائل کو نیک نیتی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ حکومت کے پاس جو وسائل ہیں ، انہیں بہتر طریقے سے خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔