قاہرہ ، اسلام پسند مظاہرین اور پولیس میں خونریز جھڑپیں،،3 مظاہرین اور بریگیڈئیر جنرل ہلاک،100کے قریب افراد گرفتار

ہفتہ 29 نومبر 2014 08:53

قاہرہ (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔29نومبر۔2014ء)مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں اسلام پسندوں کے حکومت کے خلاف مظاہرے کے دوران تشدد کے واقعات میں تین افراد مارے گئے ہیں جبکہ مسلح افراد نے فائرنگ کرکے فوج کے ایک بریگیڈئیر جنرل کو ہلاک کردیا ہے جبکہ کم ازکم 100افراد کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے ۔سلفی محاذ نے صدر عبدالفتاح السیسی کی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کی اپیل کی تھی اور ملک کی سب سے بڑی کالعدم مذہبی سیاسی جماعت اخوان المسلمون نے بھی اس کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

ان دونوں اسلامی جماعتوں نے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ وہ سروں پر قرآن مجید کے نسخے رکھ کر مظاہروں کے لیے سڑکوں پر نکلیں۔ان کی اس اپیل پر بعض مقامات پر ایسے مظاہرین نظر آئے ہیں جنھوں نے سروں پر قرآن مجید کے نسخے اٹھا رکھے تھے۔

(جاری ہے)

مصر کی وزارت داخلہ نے مظاہرین کے اس حربے کا توڑ کرنے کے لیے خصوصی سکیورٹی یونٹ تعینات کیے تھے۔سکیورٹی ذرائع کے مطابق قاہرہ کے نواحی علاقے المطریہ میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ ہوئی ہے جس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

العربیہ کے نمائندے کی اطلاع کے مطابق قاہرہ کے میدان التحریر میں فوج کو ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں کے ساتھ تعینات کیا گیا تھا۔مصر کے مختلف شہروں میں لوگوں کو حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں سے روکنے کے لیے فوج کے خصوصی دستے اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔قبل ازیں قاہرہ کے علاقے جسر السویز میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے فوج کے ایک بریگیڈئیر جنرل کو قتل کردیا ہے۔

حملہ آور ایک بغیر لائسنس گاڑی میں سوار تھے اور ان کی فائرنگ سے دو افراد زخمی ہوگئے ہیں۔حملہ آور جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئَے ہیں۔وزارت داخلہ نے جمعرات کو اخوان المسلمون سے وابستہ دہشت گردی کے ایک سیل کو ٹوڑنے کا بھی دعویٰ کیا تھا جو اس کے بہ قول جمعہ کو ملک بھر میں گڑ بڑ پھیلانے کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔بیان کے مطابق اس گروپ کے ارکان فوجی وردیاں پہن کر دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔

مصر کے سلامتی پر مامور ذرائع نے بتایا ہے کہ مظاہرین اور پولیس کے مابین یہ جھڑپیں قاہرہ کے ’متاریہ‘ کے مشرقی علاقے میں بھڑک اْٹھیں، جن سے قبل، اسلام نواز طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے راست اقدام کی اپیل کر رکھی تھی، تاکہ مصر میں فوج کی حمایت سے چلنے والی حکومت کو ہٹایا جاسکے۔کم از کم 100 افراد کو گرفتار کیا گیا۔سخت گیر، ’سلفی محاذ‘ نے، جو مصر میں اسلامی قانون نافذ کرنے کی مہم چلا رہا ہے، جمعے کے دِن ’مسلمان نوجوانان کی سرکشی‘ کے نام سے ملک بھر میں مظاہروں کی کال دی ہوئی تھی۔

’اخوان المسلمون‘ نے عوامی احتجاج کی کال کی توثیق کی تھی۔دو اعلیٰ فوجی اہل کاروں کی ہلاکت کے بارے میں زیادہ تفصیل دستیاب نہیں ہیں۔ وہ قاہرہ اور شہر کے شمالی علاقے میں ہونے والے دو مختلف واقعات کے دوران، گولیاں لگنے کے واقعے میں ہلاک ہوئے۔جمعے کے روز، ہونے والے یہ احتجاجی مظاہرے لگاتار کئی ماہ کی کوششوں کے بعد منظر پر آئے، جس کا مقصد صدر عبدالفتاح السیسی کی حکومت کے خلاف مخالفین کے اتحاد کا مظاہرہ کرنا تھا۔

اس سے قبل موصول ہونے والی اطلاع کے مطابق، مصر میں حکام مذہبی گروپ کی طرف سے مظاہرے کے اعلان میں کسی بھی ممکنہ تشدد سے نمٹنے کے لیے تیاری کر رہے ہیں جو ان کے بقول فوج کی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے۔قدامت پسند سلفی فرنٹ نے جمعہ کو ملک گیر مظاہروں کا اعلان کر رکھا ہے جسے وہ "مسلمان نوجوانوں کی تحریک" کا حصہ قرار دیتا ہے۔

ملک میں اسلامی قانون کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والے اس گروپ نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ مظاہروں کے دوران ہاتھوں میں قرآن اٹھا کر رکھیں۔حکام نے تمام اہم مقامات پر سکیورٹی کو بڑھاتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر مظاہرین نے پرتشدد صورت اختیار کی تو اس کا سختی سے جواب دیا جائے گا۔حالیہ مہینوں میں صدر عبدالفتاح السیسی کی حکومت کے خلاف ان مظاہروں کو سب سے اہم اور ٹھوس قرار دیا جا رہا ہے۔

السیسی فوج کے سابق سربراہ ہیں اور انھوں نے گزشتہ سال ملک کے پہلے جمہوری منتخب صدر محمد مرسی کو ہٹائے جانے کے عمل کی نگرانی کی تھی۔مرسی کا تعلق اخوان المسلمین سے ہے جس نے جمعہ کو ہونے والے مظاہروں کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔مرسی کی برطرفی کے بعد حکومت نے اخوان المسلمین کے ہزاروں ارکان اور حمایتیوں کو جیلوں میں ڈالا جب کہ مظاہروں میں ہونے والی جھڑپوں میں بھی سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں۔

متعلقہ عنوان :