افغانستان میں کئی ماہ کی تاخیر کے بعد کابینہ تقریباً مکمل،حلف اٹھانے والے وزراء نئے چہرے، پہلی بار چار وزراء خواتین شامل

بدھ 22 اپریل 2015 04:34

کابل(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔22 اپریل۔2015ء) افغانستان میں کئی ماہ کی تاخیر کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے 16 نئے وزراء سے حلف لیا ہے جس کے بعد پچیس رکنی کابینہ تقریباً مکمل ہوگئی ہے۔ مخلوط حکومت میں اختلاف کی وجہ سے وزیر دفاع کا اہم عہدہ اب بھی خالی ہے۔ گزشتہ سال کے انتخابات میں اشرف غنی کے حریف عبداللہ عبداللہ ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں جس وجہ سے کابینہ کی تشکیل میں مشکلات کا سامنا تھا۔

حلف اٹھانے والے وزراء میں زیادہ تر چہرے نئے ہیں اور پہلی بار چار خواتین کو بھی کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔ افغانستان کی کابینہ میں 25 میں سے 24 وزراء نے حلف اٹھا لیا ہے اور اس طرح تقریباً سات ماہ کی سیاسی کشمکش کے بعد ملک میں ایک مکمل حکومت آ چکی ہے۔ نئے وزراء جوان، پڑھے لکھے اور پروفیشنل ہیں۔

(جاری ہے)

پہلی بار 24 ممبران میں چار خواتین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

یہ سب صدر غنی کے اس وعدے کے مطابق ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ سرداروں اور سابق جنگجووٴں کی بجائے ٹیکنوکریٹس کو حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنے دیں گے لیکن نئی کابینہ کو کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ افغانستان کی معیشت بحران کا شکار ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں شدت پسند گروہ دولت اسلامیہ کا سر اٹھانا اور طالبان کا امن مذاکرات سے انکار کرنے کی وجہ سے سکیورٹی کے خدشاتں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

چار خواتین وزراء میں سے اعلیٰ تعلیم کی وزارت فریدہ مومند کو، وزارت محنت کی وزیر نسرین اوریاخیل ہیں، خواتین کے امور کی وزارت دلبر نذری کے پاس ہے جبکہ انسداد منشیات کی وزارت سلامت عظیمی کو ملی ہے۔ اشرف غنی نے جنوری میں کابینہ مکمل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت وہ بپت سے مسائل میں گھر گئے تھے۔ افغانستان میں وزیر دفاع کے نام پر اب تک اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔

وزارت زراعت کے امیدوار یعقوب حیدری ٹیکس چوری اور دھوکہ دہی کے الزام میں انٹرپول کو مطلوب ہونے کی وجہ سے دشتبردار ہوگئے تھے اور انہوں نے اسے اپنے سیاسی دشمنوں کی چال قرار دیا تھا۔ وزارت خزانہ کے امیدوار غلام جیلانی پوپل بھی ذاتی وجوہات کا حوالہ دے کر دستبردار ہوگئے تھے۔ پانی اور توانائی کی وزارت کے لیے محمود سیکال جا نام سامنے آیا تھا لیکن بھی آخری لمحات میں دستبرادر ہوگئے تھے۔

ان کی جگہ مغربی افغانستان سے ایک امیدوار کو منتخب کیا گیا تھا جس کی بظاہر وجہ یہ تھی کہ ووٹروں کی اس شکایت کو دور کیا جا سکے کہ ان کے خطے کو نظر انداز کیا جا رہا تھا لیکن سب سے بڑا مسئلہ دوہری شہریت کا رہا ہے۔ پارلیمنٹ نے صدر کے کچھ نامزد افراد کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ دوہری شہریت رکھتے تھے۔ افغان آئین میں دوپری شہریت رکھنے والے امیدواروں پر کو واضح پابندی نہیں ہے لیکن پارلیمنٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ دوہری شہریت رکھنے والے افراد کو منظور یا مسترد کر سکی ہے۔

متعلقہ عنوان :