سینیٹ قائمہ کمیٹی کیبنٹ سیکرٹریٹ کی چیئرمین نیپرا کو بجلی معاہدوں کی تفصیلات ایک ہفتے میں جمع کرانے کی ہدایت ، ایل این جی معاہدے اور اقتصادی راہداری سمیت پیپرا قواعد کی خلاف ورزیوں کی رپورٹ طلب،پی آئی اے جہازوں میں سیٹیں نہ ملنے،ا یل این جی قیمتوں کے عدم تعین و پارلیمنٹ لاجز کی خستہ حالی دور کرنے کیلئے بھی متعلقہ حکام کو ہدایات جاری، بیت المال کی کمزور مالی حالت سے تنخواہ کے بغیر کام کر رہے ہیں، ایم ڈی بیت المال کا انکشاف

جمعرات 28 مئی 2015 06:11

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔28 مئی۔2015ء)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ نے ایل این جی معاہدے اور اقتصادی راہداری سمیت پیپرا قواعد کی خلاف ورزیوں کی رپورٹ طلب کرلی ہے،چےئرمین نیپرا کو بجلی معاہدوں کی تفصیلات ایک ہفتے میں جمع کرانے کی ہدایت کردی ہے،پی آئی اے کے جہازوں میں سیٹیں نہ ملنے،ا یل این جی قیمتوں کا تعین نہ ہونے اور پارلیمنٹ لاجز کی خستہ حالی دور کرنے کیلئے متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کردی گئیں۔

بدھ کے روز کمیٹی کا پہلا اجلاس چےئرمین محمد طلحہ محمود کی زیر صدارت ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہا جس میں تمام کمیٹی ممبران سمیت کابینہ سیکرٹریٹ میں شامل ہونے والے اداروں کے چےئرمینوں اور عہدیداروں نے شرکت کی،کابینہ سیکرٹری ڈویژن راجہ حسن عباس نے کابینہ سیکرٹریٹ میں آنے والے تمام اداروں پر کمیٹی کو مفصل بریفنگ دی جس میں سینیٹر کلثوم پروین نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹی کو بتایا پریزرویشن آف سٹیٹ ڈاکومینٹ سے کچھ دستاویزات مانگے تھے لیکن فراہم نہیں کئے گئے جو کہ بہت ضروری تھے،ایمرجنسی ریلیف ڈیپارٹمنٹ پر سینیٹر کلثوم پروین نے کمیٹی کو بتایا کہ بالاکوٹ میں زلزلے کے دوران ریلیف کیلئے کوئی تسلی بخش اقدامات نہیں ہوئے جبکہ ادارے کے پاس فوری ریلیف کیلئے اپنے جہاز بھی موجود نہیں ہیں،ادارے کو مضبوط اور فعال کیا جائے۔

(جاری ہے)

سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن راجہ حسن عباس نے سول ایوارڈز کے حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کیا،حالیہ سال2014ء میں307ایوارڈز دئیے گئے جن میں سے155تمغہ شجاعت،سانحہ آرمی کے شہداء کو دئیے گئے کمیٹی میں بیت المال کے ایم ڈی سرسید عابد وحید نے انکشاف کیا ہے کہ بیت المال کی مالی حالت کمزور ہونے کی وجہ سے وہ تنخواہ کے بغیر کام کر رہے ہیں۔سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ بیت المال میں نائب قاصد کی بھرتی کیلئے بھی وفاقی عہدیدار انٹرویو کرتے ہیں،آخر صوبائی نائب قاصد کی بھرتی کیلئے بھی وفاقی عہدیدار انٹرویو کرتے ہیں ،آخر صوبائی خودمختاری کہاں ہے جس پر بیت المال ایم ڈی نے کہا کہ اس معاملے کو تین ممبر کمیٹی دیکھتی ہے،پرنٹنگ کارپوریشن ادارے پر بھی کلثوم پروین نے کہا کہ ادارے کے پاس ابھی تک 1966ء کا میشن ہے جو کہ خستہ حال ہے،ادارے میں بہتری کی ضرورت ہے جبکہ کلثوم پروین اور شاہی سید نے ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کی اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایسے خوبصورت شہر موجود ہیں جہاں پر ٹورزم کو پروموٹ کرکے ملک کی ترقی میں حصہ ڈالا جاسکتا ہے۔

وفاقی ترقیاتی ادارے(سی ڈی اے) کے چےئرمین معروف افضل نے ادارے کے حوالے کمیٹی کو بتایا کہ سی ڈی اے کو اسلام آباد کی خوبصورتی کیلئے تشکیل کیا گیا تھا لیکن اب وفاق کے بڑے بڑے اداروں کی عمارتوں کو مرمت بھی سی ڈی اے پر ڈال دیا گیا جسکی وجہ سے سی ڈی اے تجاوزات کو کنٹرول نہیں کرسکتا ہے،اسلام آباد میں اب شہری اوردیہاتی علاقوں کا فرق بھی ختم ہوگیا ہے۔

چےئرمین کمیٹی کے سوال پر چےئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ سی ڈی اے میں 18ہزار ملازمین ہیں جو کہ بھرتی کے مطابق کام نہیں کرتے ہیں۔سینیٹر خوشبخت شجاعت کے سوال پر معروف افضل نے کہا کہ پارلیمنٹ لاجز کی بری حالت ہے صوفوں اوردیواروں کی خستہ حال حالت ہے لیکن اسکا بجٹ وزارت خزانہ ملے گا تو پھر اسکی مرمت ہوگی۔سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ پارلیمنٹ لاجز کے باغیچے میں سی ڈی اے کے ملازمین کرکٹ اور فٹبال کھیلتے ہیں لیکن جب ڈائریکٹر سی ڈی اے جو کہ دیکھ بھال کرتا ہے اسے بتایا جائے تو وہ پولیس سے رابطہ کرنے کی تجویز دیتا ہے،پارلیمنٹ لاجز میں کولیگز کے رشتہ داروں نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے،راتوں کو چرس کی بھینی بھینی خوشبو آتی ہے جس پر چےئرمین کمیٹی نے معروف افضل سے معاملے پر سختی سے نوٹس اور اسلام آباد کے محتلف سیکٹر میں چھوٹی گلیوں کی کارپینٹنگ کا سروے حوالے سے سیکرٹریٹ میں جواب داخل کرانے کی ہدایت کردی گئی،پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی(پیپرا)کی ایم ڈی نضرت بشیر نے کمیٹی کو ادارے کے ڈھانچے حوالے سے آگاہ کیا جس پر کمیٹی چےئرمین محمد طلحہ محمود نے کہا کہ 74ہزار شکایات پیپرا کو موصول ہوئیں اس پر کیا ایکشن لئے گئے،ادارے کی ایم ڈی نے بتایا کہ پیپرا خود تحقیقات نہیں کرتا بلکہ نیب اور ایف آئی اے کو ضروری کیس بھیج دیتا ہے۔

سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ حکومت ایل این جی برآمد کر رہی ہے تو اس پر پیپرا قواعد وضوابط لاگو ہوتے ہیں جس پر ایم ڈی نضرت بشیر نے کہا کہ پیپرا رولز ان پر لاگو ہوتے ہیں جس پر وفاق کے پیسے خرچ ہوتے ہوں لیکن ایل این جی پر ہم سے کوئی تجویز طلب نہیں کی گئی،کامل علی آغا نے کہا کہ پیپرا ملک کا بڑا اور اہم ادارہ ہے حکومت نے ایل این جی کی تحقیقات کا منع کیا ہے یا پھر ادارے کے پر جلتے ہیں جس پر چےئرمین کمیٹی نے پیپرا کی جانب سے ایک سال میں بھیجے جانے والے کیس اور خلاف ورزیاں سمیت ایل این جی معاہدے کی پڑتال کے بعد تفصیلات 10دن میں سیکرٹریٹ میں تفصیلات،جمع کرانے کی ہدایت کردی جبکہ اقتصادی راہداری روٹ کے منصوبے کے حوالے سے بھی پیپرا سے تفصیلات طلب کرلی گئی ہیں۔

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیشنز اتھارٹی(نیپرا) کے چےئرمین طارق سدوزئی نے کمیٹی کو بتایا کہ بجلی کی قیمت فیول کی وجہ سے بڑھائی اور کم کی جاتی ہے،نیپرا نے اپنے صارفین کو پچھلے مہینے بھی چار روپے کا ریلیف دیا اسکے علاوہ نیپرا نے248 لائسز امیدواروں کو جاری کئے ہیں جبکہ سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ کراچی میں کے الیکٹرک صارفین کے ساتھ مسئلہ پیدا کر رہی ہے اور پارٹیوں کو ٹھیکے بجلی کی مد میں دئیے جارہے ہیں جسے میں نے نامنظور کرلیا جس پر چےئرمین کمیٹی نے ایک ہفتے میں تمام تر تفصیلات سیکرٹریٹ میں جمع کرانے کی ہدایت طارق سدوزئی کو کردی۔

اوگرا چےئرمین اور ڈپٹی چےئرمین نہ ہونے کی وجہ سے ممبر گیس عامر عزیز نے کمیٹی کو بتایا کہ اینگرو کا جہاز میں ایل این جی کی تاحال قیمتوں کا تعین نہیں ہوا جس پر سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ جہاز خالی ہوگیا ہے اور ابھی تک قیمتیں فکس کیوں نہیں ہوئی ہیں جس پر ممبر گیس نے کہا کہ ای سی سی جی کی میٹنگ میں قیمتوں کا تعین ہوگا ۔چےئرمین کمیٹی کے سوال پر عامرعزیز نے کمیٹی کو بتایا کہ ملک میں3547سی این جی اسٹیشن ہیں جن کو لائسنز جاری کئے گئے۔

محمد علی سیکرٹری ایوی ایشن نے ادارے کے حوالے سے بتایا کہ چار محکمے ہیں اور242ائیرپورٹس ہیں۔اسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ 2016ء کے آخر تک آپریشنلائز ہو جائے گا اور اب تک تعمیر کیلئے400.7ملین خرچ ہوچکے ہیں جبکہ سینیٹر سعید غنی کا سینیٹ میں اٹھایا جانے والے توجہ دلاؤ نوٹس پر ایوی ایشن ڈیپارٹمنٹ کا تسلی بخش جواب نہ دینے پر تین سوالوں کو مؤخر کردیاگیا اور اگلے اجلاس میں مکمل تیاری کی ہدایت کردی۔

سینیٹر نجمہ حمید نے کہا کہ پی آئی اے آپریٹر جھوٹ بولتے ہیں اور8گھنٹے تک انتظار کراتے ہیں۔سینیٹر محمد یوسف بدینی نے کہا کہ بلوچستان میں ایک ہی فلائٹ پی آئی اے کی جاتی ہے اور اسے بھی کبھی مؤخر کردیا جاتا ہے،کمیٹی کی جانب سے توجہ نہ ملنے پر یوسف بدینی کمیٹی سے احتجاجی واک آؤٹ کیا۔سینیٹرکامل علی آغا نے بھی تحفظات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جس پائلٹ کے رشتہ داروں کو بغیر ٹکٹ جہاز میں سوار کیا گیا اور کوئٹہ کی فلائٹ جس میں بورڈنگ کارڈ تو جاری ہوا لیکن اس سواری کی فلائٹ میں سیٹ نہیں تھی،ان تمام پہلوؤں پر چےئرمین نے اگلے اجلاس تک تفصیلات طلب کرلیں