تنقید کی جاتی ہے اپنے گھر کی بہتری کے لئے کچھ نہیں کر سکا یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا،چیف جسٹس

عدالتی نظام ہسپتال کے نظام کی طرح نہیں اس میں دونوں فریقین کو سنے بغیر انصاف نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں فرسودہ قوانین کو تبدیل نہیں کیا جا سکا پانی کے معاملے پر جذبے سے کام کر رہا ہوں،پاکستان میں پانی کا معاملہ بین الاقومی سازش ہے، ڈیم کی تعمیر کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالیں،پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں ٹرائل ججز کے لئے اورئینٹیشن پروگرام کی تقریب سے خطاب

ہفتہ 28 جولائی 2018 21:29

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ ہفتہ 28 جولائی 2018ء) چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ان پر ازخود نوٹس لینے پرتنقید کی جاتی ہے کہ میں اپنے گھر کی بہتری کے لئے کچھ نہیں کر سکا۔ گھر ٹھیک نہیں کر سکا تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا۔ عدالتی نظام ہسپتال کے نظام کی طرح نہیں اس میں دونوں فریقین کو سنے بغیر انصاف نہیں کیا جا سکتا۔

کیوں فرسودہ قوانین کو تبدیل نہیں کیا جا سکا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں ٹرائل ججز کے لئے اورئینٹیشن پروگرام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک قوانین کو موجودہ تقاضوں کے مطابق نہیں ڈھالا جاتا مقدمہ بازی ختم نہیں ختم ہو سکتی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آج بھی زمینوں کے انتقال کے لئے پٹواری کے مرہون منت ہیں۔

بنیادی قوانین میں تبدیلی کے بغیر ضابطے کے قوانین کو جتنا مرضی بدل لیں تیز ترین انصاف کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ بہت ساری مقدمہ بازی کو بڑھانے میں ججز کا ہاتھ ہے۔ کتنے ججز ہیں جو پڑھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ججز کو قانون پر عبور حاصل کرنا ہو گا۔ جس دن ججز کو قوانین پر عبور ہو گا تو اسی روز انصاف ہونا شروع ہو جائے گا۔

باتیں کھل کر ہونی چاہئیں۔ قوانین میں ٹکرائو سے متعلق ایک بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ میں پانی کے معاملے پر جذبے سے کام کر رہا ہوں۔ پاکستان میں پانی کا معاملہ بین الاقومی سازش ہے۔ ڈیم کی تعمیر کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالیں۔ آپ کے بچوں کا آپ پرقرض ہے ۔ پانی کے معاملے پر غفلت کا مظاہرہ کرنے والوں نے فوجداری جرم کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرے بزرگوں نے ہمارے لئے یہ ملک دیا مگر ہم آنے والے بچوں کے لئے کیا دے کے جا رہے ہیں۔

ہم نے اپنی ماں کی کیا خدمت کی ہے، کرپشن اوربددیانتی کے علاوہ کیا کیا۔ تاریخ آپ کیاور میرے بارے میں کیا لکھے گی۔ ہمیں آنے والے بچوں کے لئے قربانیاں دینی ہوں گی۔ پاکستانی بن کر سوچیں یہ سارے مسئلے حل ہوجائیں گے۔ لاہور ہائیکورٹ کی رولز کمیٹی کے ممبرمیاں ظفر اقبال کلانوری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1908سے آج تک ضابطہ دیوانی میں تبدیلی نہیں کی گئی۔

چیف جسٹس پاکستان کی ہدائت پر پہلی مرتبہ پرانے رولز کو موجودہ تقاضوں کے مطابق ڈھالا گیا۔ رولز میں تبدیلی کا مقصد انصاف کی فوری فراہمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان از خود نوٹس لے کر شہریوں کوفوری انصاف فراہم کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس اپنے گھر میں نہیں دیکھ رہے۔ بتانا چاہتا ہوں کہ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں عدلیہ میں حقیقی اصلاحات کا آغاز کر دیا گیا۔

نئے رولز کے تحت ایشو فریم ہونے تک کسی بھی مقدمے کو دوسرے جج کے پاس ٹرانسفر نہیں کیا جاسکے گا۔ میاں ظفراقبال کلانوری نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ایشو فریم ہونے کے بعد کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے گی، مقدمے کی باضابطہ سماعت کے موقع پر دونوں فریقین کو مصالحت کا ایک موقع دیا جائے گا۔فوجداری نوعیت کے تصفیہ طلب مقدمات کوترمیمی رولز میں شامل رکھا گیا ہے۔

ضلعی عدلیہ کی ججز کی تعیناتیوں کا معاملہ پنجاب سروس کمیشن کو واپس بھجوایا جانا ضروری ہے۔ ضلعی عدلیہ کے ججز کے فیصلوں کی بنیاد پرپرموشن کا طریقہ کار اخیار کیا جانا چاہئے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس یاور علی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ عدالتی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔ قوانین کے نفاذ کے طریقہ کار میں تبدیلی وقت کا تقاضا تھا۔ نئے رولز میں تبدیلی سے فوری انصاف کی فراہمی کے راستے کی رکاوٹ ختم ہوئی۔ رولزمیں تبدیلی سے سائلین کے لئے آسانیاں پیدا ہو گی۔ تقریب سے جسٹس شاہد کریم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نئے رولز میں ترامیم کے لئے بڑی محنت کی گئی۔ نئے رولز کے نفاذ سے عدالتی نظام میں مثبت تبدیلی آئے گی۔