سیاسی اور آئینی ادارے اتنے کمزور ہیں کہ باہر کی مداخلت کا سامنا نہیں کرسکتے

اگر سیاستدان شفاف الیکشن کا معاملہ حل نہ کرسکیں تو پھر کون سی جمہوریت؟ اگر میں پارٹی میں ہوں تو حکومت میں بھی ہوں، سیاسی بیانیئے کا جواب سیاست سے ہی دیا جاسکتا ہے۔ مرکزی رہنماء پی ایم ایل این رانا ثناء اللہ

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ بدھ 17 اپریل 2024 21:17

سیاسی اور آئینی ادارے اتنے کمزور ہیں کہ باہر کی مداخلت کا سامنا نہیں کرسکتے
لاہور ( اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔17 اپریل 2024ء) پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماء رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ سیاسی اور آئینی ادارے اتنے کمزور ہیں کہ باہر کی مداخلت کا سامنا نہیں کرسکتے، اگر سیاستدان مل بیٹھ کر شفاف الیکشن کا معاملہ حل نہیں کرسکے تو پھر کون سی جمہوریت؟ اگرمیں پارٹی میں ہوں تو حکومت میں بھی ہوں،سیاست کا جواب سیاست سے ہی دیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیض آباد دھرنے میں بنیادی طور پر تو سیاست دان ہی ذمہ دار ہیں، سیاست دان اپنی جماعت کے پیش نظر فیصلے کرتے ہیں، 2018 میں جب اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پارلیمانی لیڈر پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے اس کے وقت کے وزیراعظم عمران خان کو آفر کی کہ آپ کے ساتھ بیٹھنے اور سی اوڈی کرنے کو تیار ہیں لیکن عمران خا ن نے کہا کہ میں نے تو چھوڑنا نہیں ہے، جیل بھیجنا ہے، جب ایک سیاستدان ہی ایسا کرے گا تو پھر ہوگا، اداروں میں کوئی ایسا معاملہ میں نے نہیں دیکھا کہ اداروں میں چاہے کو حاضر سروس ہو یا کوئی ریٹائرڈ ہوچکا ہوں ، اداروں کا تحفظ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

مجھ پر مقدمہ عمران خان اور شہزاد اکبر نے بنوایا تھا، پہلے اسلام آباد پولیس سے رابطہ کیا جب وزن نہیں اٹھایا تو پھر اے این ایف کو کہا گیا، اے این ایف مقدمہ نہیں بنا سکتی تھی جب تک جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید اجازت نہ دیتے، میں نے جنرل باجوہ کوکہا تھا کہ میرے خلاف مقدمہ بنانے والے اور میرا فیصلہ اللہ کرے گا۔ جنرل باجوہ کے عمران خان کے ساتھ معاملات بڑے ٹھیک تھے، پھر ان کا جھگڑا عمران خان سے ہوا تھاکہ عمران خان چاہتے تھے اپوزیشن کو ختم کردیا جائے جبکہ میرا بھرپور ساتھ دیں، جب وہ آن بورڈ نہ ہوئے تو پھر انہیں میر جعفر اور میر صادق کہنا شروع کردیا ۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جمہوریت کی بنیاد فری اینڈ فیئر الیکشن ہے، 77ء سے لے کر 2014تک کونسا الیکشن ہے؟جس کو سب نے تسلیم کیا کہ شفاف الیکشن ہے۔ اگر سیاستدان آج تک یہ معاملہ سیٹ نہیں کرسکے تو پھر کون سی جمہوریت؟ میں تو آج بھی اپنی جماعت میں اس بات کا حامی ہوں، 2017میں ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی حکومت ختم کی گئی، ملک کو عدم استحکام کا شکار کیا گیا ، عمران خان کو لایا گیا، معاشی لحاظ سے پاکستان کو نقصان ہوا، آج وہی ہورہا ہے، 2018میں پی ٹی آئی ہمارا مذاق اڑا رہی تھی کہ عدالتوں اور ٹربیونل میں جائیں، آج پھر وہی باتیں ہورہی ہیں، جب تک ہم اس مسئلے کو حل نہیں کریں گے اس وقت تک کون سی جمہوریت اور کون سی سیاست؟انہوں نے کہا کہ ہمارے سیاسی اور آئینی ادارے اتنے کمزور ہیں کہ باہر کی مداخلت کا سامنا نہیں کرسکتے۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ میرے مشیر بننے یا نہ بننے سے کوئی بہتری میں اضافہ نہیں ہوجائے گا، حکومت میری جماعت کی ہے، میں ایک ذمہ دار پوزیشن پر ہوں، ایسا باکل نہیں کہ حکومت میری نہیں یا میں حکومت میں نہیں ہوں، اگرمیں پارٹی میں ہوں تو حکومت میں بھی ہوں۔ سیاست کا جواب سیاست سے ہی دیا جاسکتا ہے، روٹی سستی کرنا، سڑک بنانی اور ہسپتال بنانا ہر حکومت کی ذمہ داری ہے، یہ سب کام ہونے چاہئیں ، لیکن سیاست صرف سیاست سے ہی ہونی چاہیئے۔ میں اپنی جماعت میں ہی بات کروں گا کہ بیانیئے اور سیاست کا جواب انہی چیزوں سے دینا چاہیئے۔ 

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں