پہاڑوں سے بلند ہمت لڑکی

Samina Baig

ثمینہ بیگ 7 براعظموں کی 7بلند ترین چوٹیاں سر کرنیوالی پہلی، اکلوتی پاکستانی، مسلمان لڑکی ہیں، انکا، انکے بھائی کا یہ ریکارڈ بھی ہے کہ پوری دنیا میں کسی اور بہن بھائی نے ملکر یہ چوٹیاں سر نہیں کیں

جمعہ 24 اپریل 2015

Samina Baig

ضوہا عمران
    بلند ہمت ثمینہ بیگ کی کامیابی ہر اس سوچ کی نفی ہے کہ جو عورت کو کمزور سمجھ کر اسے معاشرے کا عضوِ معطل بنا کر رکھنے کی حامی ہے ایک عالم گواہ ہے کہ پہاڑوں کی اس کم عمر بیٹی نے چند برسوں میں جس طرح چٹانوں جیسے حوصلے سے دنیا کی بلند ترین چوٹیاں سر کی ہیں اس کی مثال پاکستان کیا عالمِ اسلام کی تاریخ میں بھی کہیں نہیں ملتی۔ ثمینہ نے اپنے بھائی مرزا علی کے ساتھ مل کر بغیر کسی سرکاری وغیر سرکاری ادارے یا کسی فرد کی سر پرستی کے ، اپنی محنت اور اﷲ کے بھروسے پر دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹیوں پر پاکستان کا پرچم لہرایا ہے اور اپنی ہر کامیابی کے بعد دنیا کو یہ مثبت پیغام دینے میں کامیاب رہی ہیں کہ پاکستانی عورت اپنی ہمت، ذہانت اور محنت کے بل بوتے پر کچھ بھی کر سکتی ہے۔

(جاری ہے)

ثمینہ بیگ ایسی خوش قسمت بہن ہیں کہ جن کے بھائی نے عورت کی بالادستی کی مثال قائم کرنے کیلئے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سے چند سومیٹر پہلے کامیابی کی طرف اپنے بڑھتے قدم صرف یہ سوچ کر روک لئے کہ بھائی کی بجائے بہن کی کامیابی سے پوری دنیا کویہ پیغام جائے گا کہ اگر پاکستانی عورت پر اعتماد کیا جائے تو وہ دنیا کی بلند ترین چوٹی پر بھی تن تنہا اپنے وطن کا جھنڈا لگا سکتی ہے۔
    اپنے بچپن کے بارے میں بتاتے ہوئے ثمینہ کہتی ہیں کہ انکی 1990 ء میں گلگت بلتستان کی وادی شمشال میں میری پیدائش ہوئی۔ وہ چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہیں۔ چونکہ انکا علاقہ سطح سمندر سے 3300میٹر بلند ہے اسلئے اس علاقے کے متعلق یہ کہاوت مشہور ہے کہ شمشال کے لوگ پیدائشی کوہ پیما ہوتے ہیں۔ انکے اندر بھی یقینا یہ خدا داد صلاحیت موجود تھی مگر میں اس سے لا علم تھی۔ بچپن میں لکڑیاں اکٹھی کرنے،بکریاں چرانے یا دریا سے پانی بھر کے لانے کے لئے اونچائی پر جانے کا اتفاق ضرور ہوتا لیکن علاقے کی دیگر لڑکیوں کی طرح انہوں نے بھی اونچے پہاڑوں پر چڑھنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔
    ثمینہ بیگ نے اپنا تعلیمی سفر بھی آبائی علاقے سے شروع کیا یہاں سے آٹھویں تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی سے میٹرک کیا اور پھر وادی میں لوٹ آئی۔ کوہ پیمائی میں دلچسپی اور اپنی پہلی کامیاب مہم کے حوالے سے ثمینہ نے بتایا کہ انکا بھائی مرزا علی16 برس سے کوہ پیمائی کر رہا تھا جبکہ انکے انکل یوسف خان اور محمد اﷲ بھی پاکستان آرمی کے لئے کوہ پیمائی کرتے تھے اوروہ انکے کا م سے بہت متاثر تھی۔ ویسے بھی پہاڑوں سے انکا فطری تعلق بھی ہے لہٰذا2010 ء میں پہلی مرتبہ انہوں نے چشکیشاں کی چوٹی سر کرنیکا پروگرام بنایا۔ انکی ٹیم میں کک، ہیلپر، 2غیر ملکی کوہ پیماؤں کے علاوہ میرے چند رشتہ دار اور مزا بھائی شامل تھے۔ وہ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ ایک بڑے مشن پر جا رہی تھی اس لئے بڑی پر جوش تھی لیکن انہیں بخوبی اندازہ تھا کہ یہ خطرناک سفر ہے۔ ایک مقام پر تو انکی ٹانگ ایسی سن ہوئی کہ لگا اب وہ مزید آگے نہیں جا سکیں گی اور یہیں سے ناکام واپس جانا پڑے گا لیکن انکے بھائی اور دیگر ساتھیوں نے ٹانگ کا مساج کیا اور اس کے بعد انہوں نے بھی ہمت نہ ہاری اور پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر دہی دم لیا۔ یہ انکی پہلی کامیابی تھی اور پھر ان پہاڑوں کو سر کرنے کا ایک سلسلہ چل نکلا جو آج تک جاری ہے۔
    برفیلے پہاڑوں پر چڑھنا یقینا خطر ناک ہوتا ہے لیکن ثمینہ اور ان کے بھائی نے یہ فن مسلسل محنت اور لگن کے ذریعے اپنی ہی کوتاہیوں اور کامیابیوں سے سیکھا ہے۔ پہاڑوں کے حوالے سے مرزا علی کے پاس خاصی معلومات ہیں اس کے علاوہ غیر ملکی کوہ پیماؤں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بھی تھا۔ یہی تجربہ اور معلومات ثمینہ کے بہت کام آئیں۔
    پہاڑوں کو سر کرنے کے حوالے سے اپنی منصوبہ بندی کے بارے میں ثمینہ کہتی ہیں کہ ہر پہاڑ کی اپنی فزیکل کنڈیشن ہوتی ہے جسکا ہم مکمل طور پر جائزہ لیتے ہیں ۔ اسکے علاوہ موسم کا مزاج بھی بہت اہم ہے۔ تیسری چیز متعلقہ ضروری سامان اور کوہ پیما کی ذہنی و جسمانی حالت کا 100 فیصد صحیح ہونا ہے۔ پہاڑوں پر زندگی رسک میں ہوتی اسلئے ذہنی و جسمانی طور پر مکمل تیار ہونا انتہائی ضروری ہے میں بھی ہر مہم سے پہلے اپنا میڈیکل چیک اپ ضرور کرواتی ہوں ۔ کوہ پیمائی کے دوران خوراک اور پانی کم سے کم استعمال کیا جاتا ہے اور نیند بھی کم سے کم لی جاتی ہے۔ اسی طرح اکیلے کوہ پیمائی خطر ناک کام ہے لہٰذا پہاڑوں پر جانے کے لئے گروپ ہی محفوظ ہوتا ہے۔
    ثمینہ بیگ کے ذہن میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا خیال کیسے آیا۔؟ اس بار ے میں انکا کہنا تھا کہ ماؤنٹ ایورسٹ کی مہم جوئی سے پہلے ہم نے تربیتی پروگرام اس طرح ترتیب دیا کہ ہم نے پاکستان کی 6ہزار میٹر سے بلند چوٹیاں سر کیں۔ پاکستان کی دشوار گزار پہاڑیاں سر کرنا کسی بھی بڑی مہم کیلئے بڑی اچھی تیاری ہو سکتی ہے۔ جسمانی طور پر تیار ہونے کے باوجود سب سے اہم مسئلہ’’ فنڈنگ‘‘ کا تھا کیوں ماؤنٹ ایورسٹ کے لیے ہمیں عالمی معیار کے آلات کی ضرورت تھی اور یہ اس قدر مہنگے تھے کہ خریدنے کی سکت نہ تھی۔ اس مقصد کیلئے علی بھائی پرپوزل بنا کر مختلف اداروں کے پاس گئے لیکن کہیں شنوائی نہ ہوئی اور بھر نیوزی لینڈ کے چند لوگوں نے ہماری مدد کی اور یوں ماؤنٹ ایورسٹ کی مہم جوئی کے لئے فنڈز کا مسئلہ حل ہوا۔
    ماؤنٹ ایورسٹ نہ صرف دنیا کا بلند ترین بلکہ انتہائی خطر ناک پہاڑ ہے اور یہاں تکنیکی مسائل بھی ہیں۔ اس مہم جوئی کے دوران ہر سال کئی افراد لقمہ اجل بھی بنتے ہیں۔یہاں پر کوہ پیماؤں کی شرح اموات 10 فیصد سالانہ ہے لیکن سہولیات کی فراہمی کی بدولت اب مشکلات کم ہو رہی ہیں۔ ثمینہ کو ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے میں دوبارہ لگے۔ اس سفر میں ان کے ساتھ دو بھارتی جڑواں بہنوں کے علاوہ دیگر ممالک کی خواتین بھی تھیں تاہم پاکستان کی نمائندگی ثمینہ بیگ کر رہی تھی۔ ثمینہ نے 5300 میٹر کی بلند سطح پر 42دن بیس کیمپ میں گزارے ۔ زیادہ تریہ لوگ دن کو پہاڑ پر چڑھائی کرتے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ رات کے 12 بجے سفر شروع کرتے جوا اگلی رات تک جاری رہتا ۔ ماؤنٹ ایورسٹ پر کھمبوآئس فال انتہائی خطر ناک مقام ہے جہاں ذرا سی غلطی موت کی وادی میں لے جا سکتی ہے یہاں ثمینہ اپنے گروپ کے ساتھ مسلسل 24 گھنٹے بغیر قیام کے چلتی رہیں۔
    ماؤنٹ ایورست پر اس مہم جوئی کے دوران ثمہنہ کو ایک بار موت بالکل قریب سے چھو کر گزری۔انکا کہنا تھا کہ کوہ پیمائی کے دوران سبھی الرٹ ہوتے ہیں کیونکہ ایک غلط قدم آپ کو موت کے قریب کر سکتا ہے جیسا انکے ساتھ ہوا۔ ماؤنٹ ایورسٹ کے سفر کے دوران انکا پاؤں پھسلا اور وہ 7600 میٹر کی بلندی سے نیچے آگری۔ رسی بندھی ہونیکی وجہ سے وہ چوٹ لگنے سے محفوظ رہی اور پھر ساتھیوں نے انہیں ریسکیوکیاجسکے بعدانہوں نے ہمت اور حوصلے کیساتھ پیش قدمی جاری رکھی اور ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچنے کے بعد جذبات کا اظہار انکے لئے مشکل تھا۔ انہوں نے وہاں بمشکل 10 منٹ گزارے کیونکہ روئے زمین کے اس بلند ترین مقام پر زیادہ دیر ٹھہر نا خودکشی کے مترادف ہے۔ معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ یہاں چلنے والی ہوا چند لمحوں میں آپ کو کہاں سے کہاں پہنچا دے۔
    پاکستان واپسی پر ثمینہ بیگ اور انکے بھائی مرزا علی کا پرتپاک استقبال ہوا۔ خاص طور پر ہنزہ میں بہن بھائی کی اس جوڑی کا استقبال ان کی اپنی توقعات سے کہیں بڑھ کر تھا۔ اس موقعہ پر ثمینہ نے دنیا کے تمام سات براعظموں کی سات بلند ترین چوٹیاں آئندہ آٹھ مہینوں میں سر کرنیکا اعلان کیا تو سب حیران رہ گئے۔ ماہرین کے نزدیک اس مہم کو مکمل کرنے کے لئے کم از کم چار سے پانچ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ ثمینہ کے مطابق انہوں نے یہ مشکل کام بھی کر دکھایا۔ براعظم انٹارکٹیکا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ وینسن پر درجہ حرات منفی 40ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے لیکن وہ اﷲ کے خصوصی کرم اور اپنے والدین کی دعاؤں سے یہ معرکہ بھی سر کر چکی ہیں۔ آج پوری دنیا میں یہ منفرد ریکارڈ صرف انکے نام ہے اور وہ 7 براعظموں کی 7بلند ترین چوٹیاں سر کرنیوالی پہلی اور اکلوتی پاکستانی اور مسلمان لڑکی ہیں۔ انکے اور انکے بھائی کا یہ ریکارڈ بھی ہے کہ پوری دنیا میں کسی اور بہن بھائی نے مل کر یہ چوٹیاں سر نہیں کیں۔
    ثمینہ بیگ نے دنیا کے تمام مشہور پہاڑی سلسلے دیکھے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ پہاڑوں کا تقابلی جائزہ ممکن نہیں اور نہ ہی ان کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ثمینہ کے مطابق دنیا کی سب سے زیادہ مشکل اور دشوار گزار پہاڑیاں پاکستان میں ہیں ہمارے پاس کے ٹو کی صورت میں8611 میٹر بلندی والی دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی موجود ہے لیکن اس کے مقابلے میں ماؤنٹ ایورسٹ پر کہیں زیادہ انسانی وسائل میسر ہیں اور انہی سہولیات کی وجہ سے وہاں کوہ پیمائی نسبتاََ آسان ہے کوہ قراقرم کا موسم بھی اکثر غیر متوقع ہوتا ہے تاہم اگر کے ٹو پر بھی سہولیات میسر ہوں تو اسے سر کرنا تھوڑا آسان ہو جائے گا۔

مزید مضامین :