بورس بیکر۔جرمن ٹینس چیمپئین | منفرد کھیل کے انداز کا مالک

Boris Baker

اُنھوں نے6 گرینڈ سلام ، 13 ماسٹرز سیریز ٹائٹل اور ڈبلز میں اولمپک گولڈ میڈل بھی جیتا ، اس کے علاوہ ٹینس کے متعدد ٹورنامنٹس کے چیمپئین بنے

Arif Jameel عارف‌جمیل جمعرات 27 جولائی 2023

Boris Baker
بورس بیکر ٹینس کی تاریخ کے بڑے کھلاڑی جنہیں 2003 ء میں انٹرنیشنل ٹینس ہال آف فیم میں شامل کیا گیا۔ وہ جنوری1991 ء میں ٹینس کی رینکنگ میں نمبر1 پر رہے۔ اس کے علاوہ ایک بڑا کھلاڑی ہو نے کی وجہ سے اُنھیں ایوارڈز، ٹینس سے متعلقہ ذمہداریاں اور القاب بھی ملے۔جن میں " بوم ،بوم" ،ڈیر بمبار'' اور ''بیرون وون سلام''اہم ہیں۔لیکن ذاتی زندگی میں اُنکے متنازعہ کردار نے اُنکے لیئے مسائل اور مشکلات بھی پیدا کیں جسکی وجہ سے اُنکی شہرت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ۔

بورس بیکر نے17ِ دسمبر 1993ء کو اداکارہ اور ڈیزائنر باربرا فیلٹس سے شادی کی۔ اس جوڑے کے دو بیٹے ہیں۔ دونوں میاں بیوی کے درمیان 15ِ جنوری 2001ء کو ذاتی اختلافات کی وجہ سے طلاق ہوگئی۔12ِجون2009 ء میں بورس بیکر نے دوسری شادی ڈچ ماڈل شارلی ''للی'' کرسنبرگ سے کی جسے بھی ایک بیٹا پیدا ہے۔

(جاری ہے)

بورس بیکر کی دو خودنوشت سوانح عمریاں سامنے آچکی ہیں جن میں سے پہلی 2003 ء والی سوانح عمری "بورس بیکر: دی پلیئر" میں ماڈل باربرا فیلٹس سے اپنی شادی اور طلاق اور نشہ آور چیزوں کے بارے میں لکھا ہے۔

دوسری2015ء میں " بورس بیکر ز ومبلڈن:مائی لائف اینڈ کیرئیر آل ایٹ دِی انگلینڈ کلب"شائع ہوئی۔ بورس فرانز بیکر 22ِ نومبر 1967ء میں جرمنی کی ریاست بیڈن ورٹمبرگ کے ٹاؤن" لیمن"میں پیدا ہوئے۔والدین نے اُنکا نام روسی شاعر اور ناول نگار بورس پاسٹرناک کے نام سے منسوب کیا۔بورس بیکر کے والد کانام کارل ہینز بیکر والدہ کا ایلویر پش ہے اور اکلوتی بہن کا نام سبین بیکر۔

شورپ ہے۔والد کارل بیکر ایک " آرکٹیکٹ" ہیں۔ لہذا اُنھوں نے اپنے ٹاؤن لیمن میں ایک ٹینس سینٹر بنایا جہاں بورس نے بھی بچپن میں جا کر کھیلنا شروع کر دیا۔اس دوران والدین نے اُنھیں ہیلم ہولٹز۔جمنازیم ہیڈلبرگ میں داخلہ کروا دیا جہاں سے اُنھیں نے سکینڈری تک تعلیم حاصل کی۔ بورس نے 8سال کی عمر میں ہی ٹینس کے کھیل میں دِلچسپی دِکھا کر مزید بہتر تربیت کیلئے والد کو فکر مند کر دیا ۔

اُنھوں نے بورس کیلئے رومانیہ کے کوچ گنتھر بوش سے رابطہ کیا۔جن سے تربیت کے دوران وہ 11 سال کی عمر تک علاقائی پھر قومی سطح پر جونیئر ٹینس کھلاڑی کے طور پر کامیاب ہونا شروع ہو گئے۔جسکے بعد 1981 ء میں اُنھیں جرمن فیڈریشن کی پہلی مردوں کی ٹیم شامل کر لیا گیا اور1982 ء میں اورنج باؤل انٹرنیشنل ٹینس چیمپئین شپ ڈبلز کا مقابلہ جیتا۔ بورس بیکر نے جب عمر کے 16ویں سال میں قدم رکھا تو1984ء میں رومانیہ کے ہی ایک اور مشہور کوچ و بزنس مین آئن آئیریاک اُنھیں ملے ۔

اُنھوں نے بحیثیت منیجر بورس بیکر کی حوصلہ افزائی کی ۔اُسی سال بورس نے میونخ میں اپنا پہلا ڈبلز ٹائٹل جیتا تھا۔اُس جیت سے پیشہ وارانہ کیرئیر کا اچھا آغاز ہو گیا ۔لہذا1985ء میں بورس بیکر نے برمنگھم میں این ای سی ٹینس ورلڈ ینگ ماسٹرز اور کوئنز کلب میں پہلا ٹاپ لیول سنگلز ٹائٹل بھی جیتا لیا۔ بورس بیکر نے ومبلڈن1985 ء میں اپنے سنگلز کے راؤنڈ جیتنے کے بعد کوارٹر فائنل اور سیمی فائنل میں بھی کامیابی حاصل کرلی۔

فائنل میں اُنکا مقابلہ جنوبی افریقہ کے 27 سالہ کھلاڑی کیون کرن سے ہونا تھا جو خود پہلی مرتبہ ومبلڈن کے فائنل میں پہنچے تھے اور دوسری دفعہ کسی گرینڈ سلام کے فائنل میں ۔پہلی دفعہ وہ 1984 ء کے آسٹریلین اوپن میں سویڈن کے میٹ ویلنڈر سے ہار گئے تھے ۔ اس مرتبہ بورس بیکر نے اُنکا 4سیٹوں میں مقابلہ کر اُنکو شکست دے دی ۔ساتھ ہی بورس بیکر نے اُس وقت 17 سال 227 دِن کی عمر میں مردوں کے سنگلز کا سب سے کم عمری میں گرینڈ سلام جیتنے کااعزاز حاصل کر لیا۔

وہ پہلے غیر سیڈڈ کھلاڑی تھے اور پہلے جرمن جنہیں گرینڈ سلام میں کامیابی ملی ۔ بورس بیکر کیلئے یہ وہ دور تھا جب والدین کی خواہش تھی کہ بور س اب اپنی اسکول کی تعلیم مکمل کر کے یونیورسٹی جائے اور ڈگری لیکر اپنی بہتر زندگی کا آغاز کرے ۔لیکن دِل میں کہیں یہ خواہش بھی تھی کہ بیٹا اس کھیل سے ہی عروج حاصل کر لے۔6فُٹ 3اِنچ قد کے مالک بورس بیکر وہی کر دِکھایا ۔

پھر دائیں ہاتھ اور ایک ہی ہاتھ سے بیک ہینڈ شارٹ لگانے میں مزید مہارت حاصل کی اور ٹینس میں کامیابیاں سمیٹنا شروع کردیں ۔ بورس نے جب بھی موقع ملا بہترین کوچز سے شارٹ لگانے، فرنٹ پر کھیلنے اور دباؤ کے دوران کھیلنے کے طریقے سیکھے۔ اپنی صلاحیت اور طاقت سے تیز ترین سروس کروا کر مخالف کو دباؤ میں رکھنا اُنکی کھیل کی انفرادی خصوصیت بن گئی۔

بلکہ ٹینس کے کھیل میں اُنکے انداز کو جدید ٹینس میں میں فوقیت دی گئی اور آنے والے کئی نئے کھلاڑیوں نے بورس بیکر کا کھیل کا انداز اپنا کر کامیابیاں بھی حاصل کیں ۔ جن میں موجودہ 23گرینڈ اسلام جیتنے والے چیمپئین نوواک چوکووچ بھی شامل ہیں جنہوں نے دسمبر2013 ء تا دسمبر2016 ء تک بورس بیکر کی کوچنگ کی خدمات حاصل کیں۔ بورس بیکر نے اپنا پہلا گرینڈ سلام ومبلڈن جیتنے کے بعد اگلے سال1986ء میں چیک -امریکن ٹینس کھلاڑی ایوان لینڈل کو اسٹیٹ سیٹ میں ہرا کر ومبلڈن میں اپنے ٹائٹل کا دفاع کیا۔

تیسری مرتبہ بور س بیکر ومبلڈن89ء میں سویڈن کے اسٹیفن ایڈبرگ کو بھی اسٹیٹ سیٹ میں شکست دے کر گرینڈ سلام چیمپئین بنے ۔اس سال اُنھوں نے پہلی دفعہ یو ایس اوپن کا ٹائٹل بھی جیت لیا ۔ایک بار پھر مد ِمقابل شکست کھانے والے ایوان لینڈل تھے۔ 1990 ء کا سال بورس بیکر کیلئے مایوس کن تھا کیونکہ وہ ومبلڈن کے فائنل میں وہ اپنے ٹائٹل کا دفاع نہ کرسکے اور اپنے گزشتہ کے فائنل میں مخالف اسٹیفن برگ سے ہار گئے ۔

ساتھ ہی اپنے یو ایس اوپن ٹائٹل کا دفاع کرنے میں بھی ناکام رہے۔ بورس بیکر نے اسکے بعد مزید دو دفعہ صرف آسٹریلین اوپن گرینڈ سلام جیتا۔پہلا1991ء میں دو دفعہ کے لگاتار دفاعی چیمپئین ایوان لینڈل کو ہرا کر اور آخری بار1996ء میں امریکن کھلاڑی مائیکل چین کو شکست دے کر ۔مائیکل چین اُنکے وہ مخالف کھلاڑی تھے جنہوں نے بورس بیکر کا سب سے کم عمری میں گرینڈ سلام جیتنے کا ریکاڑد فرنچ اوپن89ء میں توڑ دیا تھا۔

مائیکل چین نے اپنے ٹینس کیرئیر میں یہ واحد گرینڈ سلام جیتا تھا اور اُس وقت اُنکی عمر 17 سال 110 دِن تھی۔ بورس بیکر نے اپنے پیشہ وارانہ کیرئیر کا آخری گرینڈ سلام ومبلڈن 99 ء کھیلا اورچوتھے راؤنڈ میںآ سٹریلین پیٹرک رافٹر سے ہار گئے۔ 25 ِجون 1999ء کو وہ ریٹائر ہوگئے۔ اُنھوں نے6 گرینڈ سلام ، 13 ماسٹرز سیریز ٹائٹل،اور ڈبلز میں اولمپک گولڈ میڈل بھی جیتا ۔

اسکے علاوہ ٹینس کے متعدد ٹورنامنٹس کے چیمپئین بنے۔ لیکن وہ اپنے ٹینس کیرئیر میں فر نچ اوپن ایک دفعہ بھی جیت نہ پائے۔ بورس بیکر ٹینس سے ریٹائر منٹ کے بعد اپنے کاروبار کے سلسلے کو بڑھانے میں مصروف ہوگئے کیونکہ اُنکی سوچ تھی کھیل سے آگے کچھ اور مزید بہتر ۔ لیکن ساتھ ہی اُن کی ذاتی زندگی تنازعات کا شکار ہو نا شروع ہوگئی۔ اُن پر ٹیکس چوری کا الزام لگا۔

قید سے بچ گئے لیکن مجرمانہ ریکارڈ سے بچ نہ سکے۔ بورس بیکر کا یہ جرم ثابت ہو گیا تھا کہ اُنھوں نے اپنے تقریباً 2.5 ملین پاؤنڈ (3.14 ملین یورو) مالیت کے اثاثے اور قرضے اس لیے چھپائے تھے کہ اُنھیں 2017ء میں اپنے دیوالیہ پن کے بعد اپنے ذمے واجب الادا قرضے واپس نہ کرنا پڑیں جس کی وجہ سے اپریل 22ء تا دسمبر22ء تک اُنھیں اِنگلینڈ کی جیل میں بھی رہنا پڑا پھر رہا ہونے پر اُنکے اپنے ملک جرمنی بھیج دیا گیا۔ "آگے کھیلتے ہیں دیکھتے ہیں اور ملتے ہیں "

مزید مضامین :