أنس جبیر۔افریقن عرب مسلمان ٹینس کھلاڑی "منسٹر آف ہپی نیس"

Ons Jabeur

أنس جبیر نے بحیثیت پہلی افریقن عرب مسلمان خاتون کے گرینڈ سلامز کے سنگلز کے فائنل تک بھی رسائی حاصل کر کے اپنا نام ریکاڑد کروایا لیکن 3 مرتبہ فائنلز میں پہنچ کر شکست کا سامنا کرنا پڑا

Arif Jameel عارف‌جمیل جمعرات 27 جولائی 2023

Ons Jabeur
أنس جبیر تیونس سے تعلق رکھنے والی ایک پیشہ ور ٹینس کھلاڑی ہیں جنہیں اب دُنیا کی ٹاپ خواتین کھلاڑیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ 2021 ء میں ٹاپ 10 کی رینکنگ تک پہنچی تھیں ا ور 2022ء میں نمبر 1 بننا چاہتی ہے۔جبکہ 27ِ جون 2022ء کو زیادہ سے زیادہ نمبر 2 رینکنگ پرآگئیں۔وہ دائیں ہاتھ سے کھیلتی ہیں اور دونوں ہاتھوں سے بیک ہینڈ شارٹ لگاتی ہیں۔ اپنے عجیب و غریب کھیل کے انداز سے اور ڈراپ شاٹس کے ساتھ ساتھ کورٹ میں اپنے مناسب رویئے کی وجہ سے دُنیا بھر کے ٹینس کے شائقین، میڈیا اور دیگر کھلاڑیوں میں میں پسند کی جاتی ہے۔

اُنھیں ''منسٹر آف ہپی نیس'' بھی کہا جاتا ہے۔ أنس جبیر ایک مسلمان خاتون ہیں جو تیونس کے ایک چھوٹے سے قصبے قصر ھلال میں 28ِاگست1994ء کو پیدا ہوئیں۔تیونس بر ِاعظم افریقہ کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔

(جاری ہے)

جس کی سرحد مغرب اور جنوب مغرب میں الجزائر، جنوب مشرق میں لیبیا اور شمال اور مشرق میں بحیرہ روم سے ملتی ہے۔ أنس جبیر کے والد کا نام ردا جابر اور والدہ کا نام سمیرا ہے۔

اُسکے دو بڑے بھائی حاتم اور مروین اور ایک بڑی بہن یاسمین ہے۔ أنس جابر شادی شُدہ ہیں ۔خاوند کانا کریم کامون ہے جو ایک روسی-تیونس فٹنس ٹرینرہیں اور 2017 ء کے وسط سے أنس جابر کے فٹنس کوچ کے طور پر بھی ذمہداریاں نبھا رہے ہیں۔أنس جبیر عربی، انگریزی اور فرانسیسی میں روانی سے بولتی ہیں اور روسی زبان بھی سیکھنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ خاوند یہ زبان بولتا ہے۔

بچپن میں پسندیدہ ٹینس کھلاڑی اینڈی روڈک تھے۔ وہ تفریحی طور پر فٹ بال بھی کھیلتی ہیں۔جسکی وجہ سے اُنھیں اپنی جسمانی چُستی برقرار رکھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ تیونس میں أنس جبیر کی والدہ سمیرا تفریحی طور پر ٹینس کھیلتی تھیں۔لہذاتین سال کی عمر میں بچوں کے کھیلوں کے شوق میں أنس جبیر نے ٹینس کو زیادہ دِلچسپی لیکر کر کھیلنا شروع کر دیا۔

قصر ِھلال سے 32 کلومیٹر پر واقع سوس شہر میں جب أنس جابر کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہو اتو 12 سال کی عمر تک کوچ نبیل ملیکا سے ٹینس کھیلنے کی تربیت حاصل کی۔کوچ نے اولین تربیت اسکول کے ٹینس پروموشن سینٹر میں دینی شروع کی کیونکہ وہاں پر کلب کی سطح پر گراؤنڈ نہیں تھے اور کھلاڑی صرف قریبی ہوٹلوں کے ٹینس کورٹس میں تربیت حاصل کرتے تھے۔ أنس جبیر وہاں سے مزید تربیت حاصل کرنے کیلئے تیونس کے دارلخلافہ تیونس میں نئے آنے والے کھلاڑیوں کیلئے قائم قومی کھیل کے ہائی اسکول "لیسیہ سبورتیف المنزہ" چلی گئیں اور وہاں سے اُنھیں13 سال کی عمر میں انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن جونیئر ٹورمنٹ کھیلنے کا موقع مل گیااور اگلے دوسال سنگلز اور ڈبلز کے میچ بھی جیتے۔

2009ء میں یو ایس اوپن جونیئر گرینڈ سلام میں بھی اپنا ڈبیو کر لیا گو کہ میچ ہار گئیں۔ اُنس جبیر جونیئر گرینڈ سلامز میں اپنی صلاحتیں دِکھانا شروع ہو چکی تھیں جس میں سب سے بڑی کامیابی اُنھیں فرنچ اوپن جونیئر 2011ء کے فائنل میں اپنی مد ِمقابل مونیکا پیوگ کو ہرا کر ملی ۔ ساتھ ہی جبیر کومغرب کے اس کھیل میں پہلی شمالی افریقہ کی عرب لڑکی کی حیثیت میں جونیئر گرینڈ سلام ٹائٹل جیتنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

جونیئر رینکنگ میں نمبر4 پر بھی آگئیں۔ اس جیت سے پہلے جبیر کو کلائی کی سرجری سے بھی گزرنا پڑا تھا۔ أنس جبیر کا جونیئر سفر 17 سال کی عمر میں" ڈبلیو ٹی اے " میں ڈبیو کے ساتھ ختم ہوا جہاں وہ قطر اوپن میں اپنا پہلا میچ تو ہار گئیں لیکن اُنکے جذبے اور حوصلے نے اُن کے قدم ڈگمگانے نہ دیئے ۔پھر5فُٹ 6اِنچ قد کی جابر کو پیشہ وارانہ کھلاڑ ی کے طور پر ایسے مواقعے ملے جن میں اُنھوں نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھتے ہی دیکھتے ٹاپ ٹینس خواتین سیمونا ہالیپ، کیرولینا پلسکووا، صوفیہ کینن،ماریہ ساکاری،وینس ولیمزاور ماگوروزہ جیسے ناموں سمیت دوسری ٹینس خواتین کھلاڑیوں کو گرینڈ سلامز اور دوسرے ٹینس ٹورنامنٹس کے راؤنڈ میچوں میں ہرا کر دُنیا ٹینس کی نظروں میں اپنی پہچان بنا لی۔

أنس جبیر کیلئے 2017 ء وہ پہلا سال تھا جس میں چاروں گرینڈ سلامز میں حصہ لیا ۔2021 ء وہ سال تھا جس میں أونس جبیر نے اپنا پہلا ڈبلیو ٹی اے ٹور ٹائٹل ماہ ِجون میں انگلینڈ کے" برمنگھم کلاسک" فائنل میں روس کی ڈاریا کساتکینا کو ہرا کر جیتا تھا۔ دوسری فتح مئی 2022 ء میں" میڈرڈ اوپن" میں ہوئی ا اور جون 2022 ء میں برلن گراس کورٹ پر تیسرا ٹائٹل جیتا ۔

جبیر نے چوتھا اور ابھی تک آخری ٹائٹل اپریل 2023ء میں" چارلسٹن اوپن" میں اپنی سوئس حریف بیلنڈا بینسککو فائنل میں ہرا کر جیتا ۔ آسٹریلین اوپن20ء اور فرنچ اوپن23کے کواٹر فائنلز تک بھی پہنچنے میں کا میاب رہیں ۔ أ نس جبیر نے بحیثیت پہلی افریقن عرب مسلمان خاتون کے گرینڈ سلامز کے سنگلز کے فائنل تک بھی رسائی حاصل کر کے اپنا نام ریکاڑد کروایا لیکن 3 مرتبہ فائنلز میں پہنچ کر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

پہلی دفعہ وملبڈن 22ء اور یو ایس اوپن22ء میں بالترتیب قازقستان کی ایلینا رائباکینااور پولینڈ کی مشہور کھلاڑی ایگا شفیٹیک سے ہار گئیں اور ومبلڈن23ء کے فائنل میں چیک کی کھلاڑی مارکٹا وندر وسووا نے أنس جابر کو شکست دے کر ٹائٹل جیت لیا۔ أنس جبیر کی آسٹریلین اوپن23ء کے فوراً بعد ہی ایک معمولی سی گھٹنے کی سرجری ہوئی تھی ۔ اُسکے بعد وہ اپنی بہترین کارکردگی دِکھاتے ہو ئے ومبلڈن23ء کے فائنل تک رسائی حاصل کرنے کیلئے تیسرے راؤنڈ میں سابقہ یو ایس اوپن چیمپئن بیانکا اینڈریسکو، چوتھے راؤنڈ میں دو مرتبہ ومبلڈن چیمپئن پیٹرا کویٹووا ، کوارٹر فائنل میں دفاعی چیمپئن رائباکینا اور 2023 ء کی آسٹریلین اوپن چیمپئن آرینا سبالینکا کو ہرا کرچیمپئن شپ راؤنڈ میں پہنچ تھیں۔

فائنل سے پہلے ایک پریس کانفرنس میں أنس جبیر کے چہرے پر ایک تھکان سی تھی اور باڈی لیگنویج ذہنی دباؤ کا اشارہ دے رہی تھی۔ لیکن بحیثیت مسلمان کھلاڑی سب کو اُمید تھی کہ دوسری دفعہ ومبلڈن23ء کے فائنل میں پہنچنے کا بعد نتیجہ أنس جبیر کی فتح میں نکلے گا لیکن برعکس اُن سے 4 سال چھوٹی کھلاڑی مارکٹا وندر وسووا نے اپنی پُھرتی سے اپنے ٹینس کیرئیر کا پہلا گرینڈ سلام ومبلڈن23ء ٹائٹل جیت لیا۔اسکے باوجود بھی أنس جبیر مستقبل میں گرینڈ سلام جیت لینے کیلئے پُر اُمید ہیں۔

مزید مضامین :