Episode 18 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 18 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

اس سلسلہ میں راقم نے روزنامہ صحافت کے جناب خوشنود علی خان سے بات کی تو انہوں نے کچھ ایسا تاثر دیا جیسے وہ تحریک آزادی کشمیر کی ساری تاریخ سے بخوبی واقف ہیں۔ خوشنودعلی خان نے مجھے اپنے ایک ایڈیٹر ہاشمی صاحب سے ملنے کو کہا۔ میں مسودہ لے کر ہاشمی صاحب کے دفتر پہنچا تو ایسے لگا جیسے ہاشمی صاحب اور اخبار کے دیگر کارندوں کی سیف علی شہید سے کوئی پرانی دشمنی تھی۔
اس اخبار سے منسلک بہت سے رپورٹروں نے مجھے گھیر لیا اور سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ ہر کوئی پوچھ رہا تھا کہ یہ نائیک سیف علی شہید کون ہے؟ کب اور کیوں شہید ہوا؟اور یہ جھوٹا نشان حیدر کہاں سے آیا ہے؟ جب میں بہت سے سوالات کا جواب دے چکا تو ہاشمی صاحب نے ایک رپورٹر کو حکم دیا کہ وہ انڈسٹریل ایریا تھانہ کے انچارج کو فون کرے تاکہ راقم کو پولیس کے حوالے کیا جائے۔

(جاری ہے)

ابھی رپورٹر اپنی نشست سے اٹھنے ہی والا تھا کہ موصوف نے فرمایا مجھے بریگیڈئیر راشد قریشی سے ملاوٴ چونکہ یہ فوج کا معاملہ ہے اور اس لڑکے نے ایک جھوٹے نشان حیدر پر کتابچہ لکھا ہوا ہے اس لئے اسے فوج کے حوالے کیا جائے۔ ابھی رپورٹر بریگیڈئیر راشد قریشی کا فون ڈھونڈ ہی رہا تھا کہ راقم نے اس کا کام آسان کرنے کے لئے اسے محترم کرنل منصور رشید کا فون نمبر دیا تاکہ انہیں راشد قریشی کا نمبر مل جائے۔
کرنل منصور رشید کا نمبر لینے کے بعد ہاشمی صاحب کچھ بوکھلا گئے تو راقم نے فائل کور سے ہفت روزہ ہلال کی فوٹو کاپی نکال کر ان کے سامنے رکھی جو اسی مسودے کو مختصر کرکے ہلال نے شائع کی تھی۔
ہلال کی کاپی دیکھ کر ہاشمی صاحب اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے تو میں نے ان کے سامنے رکھی چائے کی پیالی اٹھالی جسے وہ غصے کے عالم میں پینا بھول گئے تھے۔
میں نے یہ ٹھنڈی چائے ہاشمی کی میزبانی کا تحفہ سمجھ کرپی اور واپس آگیا۔ پر یس کے اس رویے سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستانی پریس اور دانشور کشمیر کے متعلق اتنا ہی جانتے ہیں، لکھتے ہیں اور بولتے ہیں جتنا انہیں معاوضہ ملتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ کشمیر کے متعلق منظر عام پر ہوتا ہے اندرون خانہ پہیہ اس کے الٹ چل رہا ہوتا ہے اگر جدوجہد آزادی کشمیر 1947ء کے سب سے بڑے ہیرو اور سب سے بڑا اعزاز پانے والے سے اہل پاکستا ن و آزادکشمیر واقف ہی نہیں تو اس تحریک کی روح کا کسے احساس ہوسکتا ہے۔
روزنامہ صحافت کے صحافیوں سے ملنے کے بعد میں نے بار ہا کوشش کی کہ کوئی دوسرا اخبار شہید کشمیر نائیک سیف علی جنجوعہ ہلال کشمیر کے متعلق کچھ لکھے مگر مجھے کبھی بھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔
تحریک آزادی کشمیر کے متعلق جتنا بھی مواد کتابی صورت میں موجود ہے اس میں یکسانیت ہے۔ ہر لکھنے والے نے پنڈت کلہن اور محمد دین فوق کی شہرہ آفاق تحریروں کو ہی اپنی اپنی پسند کے رنگ دے کر انہیں کتب خانوں کی زینت بنایا اور وہ لوگ جو تحریک آزادی 1947ء کے فوراً بعد خود ساختہ عہدوں اور رتبوں پر فائز ہوئے کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔
آزادی کے وہ ہیرو جو بعد میں سیاست کے میدان میں آئے بھی کچھ کہنے کے قابل نہیں جب کہ 1947ء کے واقعات اور آزادی کشمیر کے متعلق دو سو سے زیادہ کتابوں کے ڈھیر سے مجھے ایک بھی تحریر ایسی نہیں ملی جس میں اس جنگ میں سب سے بڑا اعزاز پانے والے ہیرو کا مختصر سا ذکر موجود ہو۔ آزادکشمیر رجمنٹل سنٹر کے شعبہ تاریخ نے آزادکشمیر رجمنٹ کی تاریخ جو کہ 1947ء سے 1949ء تک کے واقعات پر مشتمل ہے میں بھی شہید کشمیر نائیک سیف علی جنجوعہ کے لئے صرف ایک صفحہ مختص کیا گیا ہے۔
جس طرح تحریک آزادی کشمیر دنیا میں رونما ہونے والی آزادی کی تحریکوں میں کئی لحاظ سے منفرد ہے اسی طرح اس تحریک کے لئے مسلح جدوجہد کرنے والی آزاد کشمیر رجمنٹ بھی اعزاز یافتہ ہے۔ یہ رجمنٹ دو دو اور تین تین کے گروپ سے لے کر دس بارہ غیر مسلح لوگوں کی کارروائیوں سے شروع ہوئی جنہوں نے انوکھے انداز میں دشمن سے ہتھیار چھین کر مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔
پھر یہ لوگ دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں مل کر دشمن کے ٹینکوں اور جہازوں کا مقابلہ کرنے لگے اور آخر کار ایک باقاعدہ فوج میں بدل گئے۔
آزادکشمیر رجمنٹ دنیا کی واحد فوج ہے جس نے پہلے جنگ لڑی اور بعد میں رجمنٹ بنی۔ امید ہے کہ آزادکشمیر رجمنٹل سنٹر کا شعبہ تاریخ و تحقیق اس ضمن میں مزید اور بہتر مواد اکھٹا کرکے اپنی تاریخ کو بہتر انداز میں پیش کر سکے گا۔
یوں تو ہمارے سارے ہی شہید اور غازی معتبر ہیں اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں۔ اس مادی دنیا میں جہاں انسان ایک پیسہ راہ خدا میں دینے سے پہلے سو مرتبہ نفع و نقصان کے متعلق سوچتا ہے اور شیطان قدم قدم پر اسے وسوسوں کے جال میں پھنسانے کی جستجو میں لگا ہوتا ہے وہاں بغیر کسی نفع و نقصان کی سوچ کے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا ہر کسی کا کام نہیں۔
جس طرح انبیاء کرام اور اولیأ اللہ رب کائنات کے چنے ہوئے اور مخصوص لوگ ہیں ویسے ہی شہادت بھی کسی کسی کا مقدر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جن کی روشن صبح کے لئے ان لوگوں نے قربانیاں دیں انہیں ان قربانیوں کا کتنا احساس ہے اور وہ ان قربان ہونے والوں کو کس طرح یاد کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ! جو قومیں اپنے اسلاف کے کارناموں کو بھول جائیں اور ان کی متعین کردہ راہوں پر گامزن نہ رہ سکیں وہ کبھی منزل مقصود تک نہیں پہنچتیں۔
ڈھائی اضلاع کی ریاست کے حکمران اگر یونہی مادی بتوں کی پوجا کرتے رہے اور جن لوگوں نے انہیں یہ ڈھائی گز زمین اپنا خون دے کر تفویض کی، انہیں قصہ ماضی سمجھ کر بھول گئے تو شائد کل یہ ڈھائی گز زمین بھی ان پر تنگ ہوجائے۔ آزاد کشمیر کی حکومتوں نے جس دریا دلی سے خیرات اور زکوٰة سے ملنے والی دولت خرچ کی ہے اور اپنے وزیروں، مشیروں اور ممبران پر خزانے لٹائے ہیں، اس سے لگتا ہی نہیں کہ یہ ایک غلام قوم ہے اور اس کے قائدین جدوجہد آزادی کا حصہ ہیں۔ تحریک آزادی کو جس طرح اس خطہ کے لیڈروں نے تاریک بنایا ہے اور اس جدوجہد کی خاطر خون دینے والوں کی عظمت کو داغدار کیا ہے، اگر یہ سلسلہ کچھ عرصہ اور جاری رہا تو عین ممکن ہے کہ ہم اس نام نہاد آزادی کی نعمت سے بھی محروم ہوجائیں۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja