Episode 55 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 55 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد شملہ معاہدہ ہوا تو سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن میں بدل دیا گیا جس کی وجہ سے تحریک آزادی کشمیر کو ایک نیا دھچکا لگا۔ شملہ معاہدہ ایک ایسی چال ہے جسے دونوں ممالک اپنی اپنی فتح سمجھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف بھارت ہی کی فتح تھی چونکہ پاکستان کو صرف جنگی قیدی واپس ملے جس کے صلے میں کشمیر کا مسئلہ بھارت اقوام متحدہ سے واپس دہلی لے آیا اور آئندہ کے لئے اسے اپنی مرضی سے حل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

تحریک آزادی کشمیر کو ایک مشکوک صورت حال سے دوچار کرنے کے صلے میں ہی شاید بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے میر پور میں بھٹو پارک بنایا ورنہ تحریک آزادی کے لئے خون دینے والوں کو بھول کر محض سیاسی اور مادی مفادات کے حصول کی خاطر ایسی فضول خرچیاں اور کوئی جواز پیش نہیں کرسکتیں۔

(جاری ہے)

بھٹو صاحب ایک انقلابی شخصیت تھے اگر وہ چاہتے تو سچے انقلابیوں کو آگے لاکر ان سے کام لیتے مگر کشمیر کے معاملے میں سوائے اقوام متحدہ میں کی جانے والی جذباتی تقریر کے اور کوئی ایسی چیز نہیں جسے ایک واضح حقیقت کے طور پر پیش کیا جاسکے۔

یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ بھٹو کی وزارت خارجہ کے دور میں جناب کے ایچ خورشید کو دلائی کیمپ میں قید کرکے دلائی کیمپ کو تاریخ میں ایک اہم مقام دیا گیا اور اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں ہونا چاہئے کہ شمالی علاقہ جات کو کشمیر سے الگ کرنے اور پاکستان کا صوبہ بنانے پر شمالی علاقوں سے ڈوگرہ حکومت کا خاتمہ کرنے والے ایک مرد مجاہد کرنل حسن مرزا اور جناب ذوالفقار علی بھٹو میں شدید اختلافات پیدا ہوئے جس کی پاداش میں کرنل حسن مرزا مرحوم کو بھی پابند سلاسل کردیا گیا۔
اسی سلسلہ کی ایک کڑی آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کا قیام ہے جو کہ تحریک آزادی کشمیر کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی اور کشمیر کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ گو کہ مسلم کانفرنس والے اپنے آپ کو مسلم لیگ کی شاخ سمجھتے ہیں مگر حقیقت میں یہ ایک سیاسی بیان بازی ہے۔ تاریخی لحاظ سے مسلم کانفرنس کی بنیاد مسلم لیگ سے سالوں پہلے رکھی گئی تھی جبکہ مسلم لیگ والوں نے سوائے قائداعظم اور علامہ اقبال کے کبھی مسلم کانفرنس والوں سے سیدھے منہ بات نہیں کی۔
اس میں شک نہیں کہ قائداعظم نے ہمیشہ کشمیری قوم کے حقوق اور جذبات کا احترام کیا۔ وہ کشمیری قائدین سے صرف کشمیر اور کشمیریوں کی بات کرتے تھے اور کشمیری قیادت کو سیاست کے بنیادی اصولوں اور وطن پرستی کا درس دیتے تھے۔ قائداعظم کی سیاسی بصیرت اور اعلیٰ ظرفی کے مقابلے میں پنڈت نہرو کشمیری لیڈروں کو نجی تعلقات کے جال میں پھنسانے کے درپے رہتے اور گاندھی انہیں چاپلوسی اور سیکولرازم کے گرداب میں گھیرتے رہتے۔
کانگرسی لیڈروں نے شیخ عبداللہ کی نفسیات کا جائزہ لیا اور ان کے احساس کمتری کو دیکھتے ہوئے سب سے پہلے ان کی شادی ایک نو مسلم کی طلاق یافتہ بیٹی سے کروائی تاکہ کشمیر کا یہ فصیح و بلیغ نعت خوان، قاری اور ابھرتا ہوا سیاسی لیڈر اپنی غربت کو جھاڑ کر نیڈو ہوٹل کی سہولیات کا عادی ہوجائے۔ شیخ صاحب جو اپنی جوانی میں عاشق رسول ﷺ تھے۔ نہرو، گاندھی اور حکومت برطانیہ کے مریدین میں شمار ہونے لگے۔
شادی کے بعد وہ غریبوں کے لیڈر نہیں بلکہ کانگریس کے ماوٴتھ پیس بن گئے۔ ان کی شادی اور کانگریسی صحبت کا اثر ان کے دل و دماغ پر اتنا حاوی ہوا کہ انہیں قائداعظم اور مسلم لیگ سے شدید نفرت ہوگئی۔ شیخ نے اپنے دل کا بغض اپنی خود نوشت (آتش چنار) کے صفحات پر قلم بند کیا اور اپنے آپ کو قائداعظم کا ہم پلہ سیاسی قائد منوانے کی ادھوری کوشش کی۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کشمیریوں کی غلامی میں عبدالغفار خان،عبدالصمد اچکزئی، مولانا آذاد ، جماعت احمدیہ ،اکابرین دیوبند ، شیخ عبداللہ اور دیگر برابر کے حصہ دار ہیں۔ شیخ عبداللہ شادی کے بعد اکثر لاہور آتے چونکہ ان کے سسرالی رشتہ دارلاہور میں مقیم تھے۔ اگر مسلم لیگی قیادت چاہتی تو شیخ عبداللہ کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے ان کی پسند کا راگ، ساگ اور روٹی مہیا کرتی اور انہیں چاپلوسی کا حلوہ کھلا کر مسلم کانفرنس ہی میں رکھتی۔
شیخ کو چونکہ مسلم لیگ والے لفٹ نہیں کرواتے تھے اور انہیں ایک بڑے کشمیری لیڈر اور قائد کا درجہ نہیں دیتے تھے جس وجہ سے شیخ بددل ہو کر کانگریس کی طرف مائل ہواجہاں یہ سارے لوازمات اس کے منتظر تھے۔
شیخ نے کانگریس کے اشارے پر مسلم کانفرنس کو دوٹکڑے کیا اور نیشنل کانفرنس بنا کر تحریک آزادی کشمیر پر چرکا لگایا۔
بعد کے حالات بھی ایسے ہی تھے کہ مسلم لیگ نے کبھی مسلم کانفرنس کو اپنا حصہ نہیں بلکہ باجگزار بنا کر رکھا۔ مسلم لیگی قیادت کی حکومت آزاد کشمیر میں مداخلت بیجا اور ڈکٹیشن سے تنگ آکر چوہدری غلام عباس مرحوم نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور میر واعظ بددل ہو کر گوشہ نشین ہو گئے۔ رہی سہی کسر مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے نکالی اور مسلئہ کشمیر کو کنفیوژن کا شکار کر دیا۔
بھٹو نے نہ صرف جنگی قیدیوں کے بدلے میں سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن میں بدل دیا بلکہ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کو منظم کرکے اسے آزاد حکومت بھی سونپ دی۔ آزاد کشمیر پیپلز پارٹی چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ ہے اوراس کی قیادت پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت اور چیئرمین کی حکم عدولی کا تصور بھی نہیں کرسکتی اور ان کے ہر حکم اور اشارے پر لبیک کہنے کی پابند ہے۔
اس لئے اس کی کوئی کشمیر پالیسی اور تحریک میں حصہ ہو ہی نہیں سکتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور میں تحریک آزادی کشمیر کا کوئی ذکر نہیں اور نہ ہی یہ جماعت کشمیریوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ اس لئے اس کا آزادی کے بیس کیمپ میں حکومت کرنا اور الیکشن لڑنا تحریک آزادی کی نفی اور تحریک کے بنیادی اصولوں سے انحراف ہے۔
چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی کوئی مقبوضہ کشمیر شاخ نہیں اور نہ ہی اس جماعت کا جہاد آزادی میں کوئی عملی حصہ ہے اس لئے ایک جماعت کو زبردستی ایک قوم پر مسلط کرنا اور ایک محکوم اور غلام طبقے کی برین واشنگ کرکے انہیں ان کے حقیقی مقصد یعنی آزادی کی جنگ لڑنے کے بجائے ڈھائی گز زمین کی حکمرانی کے لئے باہم لڑانا انسانی حقوق اور انسانی اخلاقی اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja