Episode 17 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 17 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

شہید کشمیر کون ہے؟

شہید کشمیر کا ابتدائی مسودہ لے کر میں نائیک سیف علی جنجوعہ شہید (ہلال کشمیر) کے بیٹے اور بیگم سے ملنے ان کے گھر موضع کھنڈھاڑ (فتح پور) پہنچا تو اہل محلہ نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ باتوں باتوں میں مجھے نہ صرف اپنی غلطیوں کا احساس ہوا بلکہ مجھے اپنی تحریر کو ازسرنو ترتیب دینے کا خیال بھی آیا چونکہ شہید سیف علی جنجوعہ ُاس تحریک کا ایک حصہ تھے جس کے لئے سردار شمس اور سردار سبز علی شہید کی کھالیں کھینچی گئیں۔
کرناہ کے راجہ شیر خان نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے اہل و عیال کو ذبح ہوتے دیکھا اور لاکھوں نوجوانوں نے اپنی جوانیوں کا نذرانہ پیش کرکے تحریک آزادی کشمیر کو چنگاری سے شعلہ بنایا۔

(جاری ہے)

کھنڈھاڑ میں مختصر قیام کے دوران مجھے عمر رسیدہ خواتین و حضرات سے بھی ملنے کا شرف حاصل ہوا جنہوں نے اپنی جوانی میں یہ سب کچھ دیکھا جسے میں لکھنے کے سعی کر رہا تھا۔

کھنڈھاڑ کے بزرگوں سے ملنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ میری تحقیق ادھوری ہے۔ مجھے اِن جیسے عام مگر تاریخی لوگوں سے ملنا چاہیے جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ جو اسمبلی کے ٹکٹ، نوکری کے لئے چٹ اور غبن کے لئے کسی پرمٹ کے خواہاں نہیں۔ جن کی برادری اہلیان کشمیر ہیں اور جن کے جسم سے بلیک لیبل کی بدبو نہیں بلکہ مٹی کی خوشبو آتی ہے۔
جو مجاہدین کی مرہم پٹی کرتے تھے، ان کا سامان سروں پر اٹھائے کبھی ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر کبھی ایک وادی سے دوسری وادی میں اور کبھی کوسوں دور ایک سیکٹر سے دوسرے سیکٹر میں جاتے تھے۔ یہ لوگ تاریخ کا سچا باب ہیں۔اِن کے ناموں کے ساتھ کوئی لقب نہیں، ان کے سینوں پر کوئی حکومتی تمغہ نہیں مگر ان کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن ہے۔ وہ کشمیر کی سرزمین اور کشمیری قوم کو آزاد دیکھنے کے خواہاں ہیں۔
اپنی ادھوری کوشش کو مکمل کرنے سے پہلے میں نے بازار میں دستیاب کتابوں اور کچھ محسنوں کی ذاتی لائبریریوں سے فیض یاب ہونے کی کوشش کی اور اپنی استطاعت کے مطابق بھمبر سے کیل تک ان جگہوں کو بھی دیکھا جہاں یہ معرکے لڑے گئے۔ اس مطالعے اور مشاہدے کا مقصد مجاہدین کی ہمت، حوصلے اور تکالیف کا جائزہ لینا تھا جنہوں نے نامساعد حالات میں ناممکن کو ممکن بنایا اور اپنی جانوں پر کھیل کر ہماری آزادی کی راہ متعین کی۔
میری اس کوشش میں دوچار نہیں بلکہ درجنوں خیالات کا اظہار موجود ہے جن کی سادگی اور سچائی ان کے چہروں پر عیاں تھی۔ کیری (چڑہوئی) اور تنگیری (کہوٹہ) کے قریب جب میں ایسے ہی دو بزرگوں سے ان محاذوں پر ہونے والے معرکوں کے بارے میں پوچھ رہا تھا تو دونوں بزرگ بار بار مجھے بتاتے کہ اس جگہ یہ ہوا یہاں ہم رات کو آتے اور اس طرف سے دشمن نے ہم پر حملہ کیا۔
ان سادہ لوح مگر سچائی کے پیکروں کی داستانیں سن کر میرا بہت سے مصنفین سے اعتبار اٹھ گیا۔ بہرحال کتاب ایک دستاویز ہوتی ہے اور جھوٹ پر مبنی تحریر بے اثر رہتی ہے۔
میں نے بہت سے لوگوں کی ذاتی ڈائیریاں بھی دیکھیں مگر یہ جان کر دکھ ہوا کہ یہ ڈائیریاں جن سے منسوب ہیں وہ شائد لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان عظیم لوگوں کی شہادت اور رحلت کے بعد بہت سے لوگوں نے ان سے اپنے تعلقات پر مبنی مفروضے گھڑے اور ان کی قبروں کو سیاست کے لئے استعمال کیا۔
 
محترم خالد حسن نے مرحوم کے ایچ خورشید کی تحریروں پر مبنی" قائد کی یادیں" ترتیب دی ہے۔ اس کتاب کے شروع ہی میں کے ایچ خورشید سے منسوب ایک دلچسپ واقعہ درج ہے کہ مرحوم صدر ضیاء الحق نے ایک بار دعویٰ کیا کہ ان کے پاس قائداعظم کی ایک ڈائری ہے اور قائداعظم پارلیمانی جمہوریت کے خلاف تھے۔ مرحوم صدر کو چونکہ پارلیمانی نظام پسند نہیں تھا اس لئے انہوں نے بھی شائد کسی رائیٹر کو قائداعظم سے منسوب ایک ڈائیری تیار کرنے کا حکم جاری کیا ہو۔
ضیاء الحق کے اس بیان کا جناب کے ایچ خورشید نے یہ کہہ کر بھانڈہ پھوڑ دیا کہ قائداعظم نے کبھی ڈائیری رکھی ہی نہیں تھی۔
کے ایچ خورشید کے اس بیان کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے کتابوں اور ڈائیریوں کو دیکھنے کے بعد آزادکشمیر کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے جیتے جاگتے انسانوں سے ملنے کا فیصلہ کیا جنہوں نے نہ صرف اس تحریک کا مشاہدہ کیا بلکہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس میں عملاً حصہ بھی لیا۔
مسودہ (ہلال کشمیر) ترتیب دیکر میں نے اس کی کاپیاں 1999ء میں تب کے وزیراعظم سلطان محمود چوہدری، صدر آزادکشمیر سردار محمد ابراہیم خان، شہید کی یونٹ، آزادکشمیر رجمنٹل سنٹر کے شعبہ تاریخ کے انچارج، ڈائیریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشن، جی ایچ کیو راولپنڈی، سابق سنٹر کمانڈنٹ جناب بریگیڈئیر ریٹائیرڈ محمد اکبر خان کے علاوہ آزادکشمیر کے سیاسی قائدین اور اہل علم و قلم کو بھجوائیں مگر سوائے بریگیڈئیر محمد اکبر خان کے کسی نے بھی مجھے جواب نہ دیا۔
اس بات کا مجھے ہمیشہ ہی احساس رہتا ہے کہ اگر تحریک آزادی کشمیر تحریک تکمیل پاکستان ہے تو اسے کئی پہلووٴں سے نظر انداز کیوں کیا جاتا ہے۔ آزادکشمیر کے عوام پر روا رکھی جانے والی بے انصافی سے پاکستان کا حکمران طبقہ منہ کیوں موڑ لیتا ہے اور نام نہاد قائدین کو پاکستانی حکمران اپنی خوشنودی اور مطلب براری کے لئے اہلیان کشمیر پر کیوں مسلط کرتے ہیں۔
کشمیر اگر واقعی پاکستان کی شہ رگ ہے تو اس کے عوام کے حقوق مساوی کیوں نہیں؟ اگر سیف علی جنجوعہ شہید نشان حیدر ہے تو اس کے نام کے سامنے نشان حیدر کیوں نہیں لکھا جاتا؟ جو مراعات نشان حیدر پانے والوں کو دی گئی ہیں وہ سیف علی شہید کے خاندان کو دینے میں کیا حرج ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر جب نشان حیدر پانے والوں کی تصاویر دکھائی جاتی ہیں تو سیف علی شہید کو کیوں نہیں دکھایا جاتا۔
پاکستان میں بعض مقامات پر جہاں نشان حیدر پانے والوں کے پورٹریٹ نسب ہیں وہاں سیف علی شہید کے لئے جگہ کیوں نہیں۔ اگر میرپور میں بھٹو پارک بن سکتا ہے تو سیف علی شہید گیٹ تعمیر کرنے میں کیا شرمندگی ہے۔ چونکہ ان سوالات کا جواب پریس اور اہل قلم حضرات سے بہتر کوئی نہیں دے سکتا اس لئے میں نے پاکستان کے تمام موقر جریدوں کے مالکان، ایڈیٹروں اور چیف ایڈیٹروں کو بھی ہلال کشمیر کا مسودہ ارسال کیا مگر کسی کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ اس پر ایک نظر ڈالتا اور اسے اپنے اخبار کے صفحات پر جگہ دیتا۔ البتہ آئی ایس پی آر نے مسودے کے کچھ حصے ہفت روزہ ہلال میں شائع کئے۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja