Episode 54 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 54 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

قائداعظم کے اس بیان کی سردار محمد ابراہیم خان نے بھی تائید کی ہے۔ وہ" متاع زندگی" میں لکھتے ہیں کہ ”قائداعظم  نے سخت الفاظ میں کہا کہ کشمیر حکومت کے ممبران کی کم ہمتی کی وجہ سے بھارت کے قبضہ میں گیا“ آج وہ لوگ جو ان سیاستدانوں اور فوجی افسروں سے متعلق من گھڑت قصے کہانیوں سے اہل کشمیر کو بے وقوف بنائے ہوئے ہیں وہ نہ صرف اہل کشمیر کے بلکہ اپنے ضمیر کے بھی مجرم ہیں۔
ہمارے ہاں روایت بن گئی ہے کہ ہم ہر بات دوسروں کے سر تھوپنے اور خود فریبی کا برقعہ اوڑھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہم اپنے گریبان میں نہیں دیکھتے بلکہ دوسروں کی خامیاں ڈھونڈتے ہیں اور واویلا کرتے ہیں کہ ہماری ہر خامی، بے وقوفی اور کم عقلی کا ذمہ دار انگریز اور امریکہ ہے۔ آج قوم ان سیاستدانوں اور فوجی قائدین سے کیوں نہیں پوچھتی کہ اگرانگریز کمانڈر انچیف نے انکار کردیا تھا تو کابینہ توآپ کی اپنی تھی۔

(جاری ہے)

انگریز جرنیل کرنیل تھے کوئی سٹور کیپر تو نہیں تھے۔ پچھلے صفحات پر بیان کردہ واقعات ان قائدین کے سامنے تھے جن کی روشنی میں آئندہ کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جاسکتا تھا۔ اگر یہ لوگ کشمیر اور کشمیریوں سے مخلص ہوتے تو سردار ابراہیم اور دوسرے کشمیری قائدین کو یکجا کرکے میر پور اور پونچھ کے ساٹھ ہزار ریٹائرڈ فوجیوں پرمشتمل ایک فوج تیار کرتے اور اسے مسلح کرکے کسی حکمت عملی کے تحت لڑاتے اور بھارت کو کشمیر میں داخل ہونے کا موقع ہی نہ ملتا۔
آج اگر پاکستانی سیاستدان اپنی برادریوں، دوستوں یاروں اور خدمت گاروں کے لئے مفروروں کی فوجیں بھجوا کر انہیں الیکشن میں دھاندلی، زمینوں پر قبضے اور کرپشن میں معاونت کے لئے بھر پور مدد دیتے ہیں تو کشمیرکی آزادی اور کشمیری قوم کی مدد کے لئے کوئی کیوں نہ آیا۔ بھارت تو ازلی دشمن ہے ہی اور ہندو ہمیں مسلمان سمجھ کر ظلم کرتا ہے مگر جو رویہ اپنوں کا ہے اس کی طرف کوئی کیوں نہیں دیکھتا؟
حقیقت تو یہ ہے کہ کشمیر کا فیصلہ 1947 ءء میں ہوگیا تھا جس کا اعلان ہونا باقی ہے۔
کشمیر مجاہدین نے اپنے طور پر بغیر کسی مرکزی کنٹرول اور قائد کے اپنے اپنے علاقوں میں آزادی کی جنگ لڑی جسے بعد میں کچھ شاطروں نے کیش کرانے کے لئے آزاد علاقوں میں اپنے چہیتے بھجوا کر انہیں ایک بار پھر فتح کیا اور اپنے نام کے جھنڈے لگا کر مادی مفادات حاصل کئے۔
اگر بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتارنے سے پہلے بارہ مولہ اور نوشہرہ میں پٹیالہ رائفلز کی بٹالین بھجوا رکھیں تھیں تو پاکستانی فوج کے جوان، افسر اور ہتھیار بھی خفیہ طور پر کشمیر بھیجے جاسکتے تھے۔
مگر کسی کو کشمیر سے دلچسپی نہیں تھی اس لئے ایسا نہیں ہوا۔ بھارت کو انگریز نے جتنا علاقہ دینا تھا اس پر قبضہ ہونے دیا اور جو اس وقت بھارت کے لئے ضروری نہیں تھا اسے آزادکشمیر کے طور پر آئندہ کے لئے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک مستقل تناؤ برقرار رکھنے کی وجوع بنا دیا گیا تاکہ خطے میں بڑی قوتوں کی گریٹ گیم جاری رہے اور ان قوتوں کی بے جا مداخلت کا جواز بھی برقرار رہے۔
1948 ءء‘ 1947ءء کی مسلح جدوجہد کا آغاز جموں سے ہوا جہاں ایک ہی ہفتہ کے اندر بیس ہزار مسلمان شہید کردیئے گئے اور پچیس ہزار عورتوں کو اغواء کرکے پنجاب کے مختلف اضلاع میں بھیج دیا گیا۔ اس خونی واردات کی خبر سنتے ہی پونچھ کے غیور عوام نے مسلح بغاوت کا آغاز کیا جس کی بازگشت پورے کشمیر میں سنی گئی۔ پونچھ میں مسلح کاروائیوں کا آغاز ہوتے ہی میر پور، کوٹلی، اور بھمبر میں بھی مقامی لوگوں نے حکومت کے خلاف بغاوت کی اور مسلح جدوجہد شروع کردی۔
اسی دوران قبائلی لشکر بھی جہاد آزادی میں شامل ہوئے اور سرینگر تک پہنچ گئے ”عوامی مسلح جنگ اور کشمیر“ کے مصنف میجر جہانگیر چوہدری اپنی کتاب کے صفحہ 138 پر لکھتے ہیں کہ 1948 ءء میں مجاہدین دفاعی جنگ لڑتے رہے اور پسپائی اختیار کرتے رہے جبکہ قبائلی لشکریوں نے 25 نومبر 1947ءء کو ہی کشمیر سے راہ فرار اختیار کرلی۔ اس دوران بھارتی فوجیں جنہیں فضائیہ کی بھر پور مدد حاصل تھی مقامی کمانڈروں پر برتری حاصل کرچکی تھیں۔
اسی صفحہ پر مصنف نے مزید لکھا ہے کہ 1948 ءء کے وسط میں پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے حکومت کو تجویز پیش کی کہ اگر مجاہدین اسی طرح پسپائی اختیار کرتے رہے تو پاکستان کی اپنی سرحد یں اور سا لمیت بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ لہٰذا پاکستانی سرحدوں کی حفاظت کے لئے کشمیر میں مداخلت کی جائے اور دشمن کو اوڑی، پونچھ اور نوشہرہ لائن پر روکا جائے۔
عقل والوں کے لئے سوچ کا مقام ہے کہ چند ماہ پہلے تک جو کمانڈر انچیف بانی پاکستان کے حکم کو ٹال گیا اسے چند ماہ بعد پاکستان کی سا لمیت کا کیسے خیال آگیا اور وہ خود ہی ایک تجویز لیکر کیسے میدان میں آگیا۔ ایک طرف پاکستانی فوج ایک مجوزہ دفاعی لائن پر پہنچی اور دوسری جانب بھارت مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے گیا اور آئندہ کے لئے اپنی فوجی اور سیاسی پوزیشن مضبوط کرتا گیا۔
دونوں ممالک کے درمیان ایک لائحہ عمل پر اتفاق ہوا اور اقوام متحدہ کے نمائندوں نے سیز فائر لائن کی دیکھ بھال شروع کردی۔ اس سیز فائر کے بعد بھی بھارت نے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور جب بھی موقع ملا سیز فائر لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اہم پہاڑی مورچوں اور دفاعی لحاظ سے بہتر مقامات پر قابض ہوتا رہا جس کی بڑی مثال سیاہ چین گلیشیر پر بھارت کا قبضہ ہے۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja