Episode 10 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 10 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

کشمیر ڈیفنس کونسل کا منصوبہ دیکھ کر ایک عام قاری اس کے منصوبہ سازوں کے متعلق اپنی رائے قائم کرنے میں غلطی نہیں کرسکتا۔ سردار ابراہیم صاحب نے 2001ءء کے اپنے اخباری انٹرویو میں اس منصوبے پر جو تنقید کی وہ نہ صرف حرف بہ حرف درست ہے بلکہ اس پر مزید بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم نے ماضی کی غلطیوں کو عام آد می سے چھپائے رکھا، عوام الناس کو صرف ووٹ مشین کے طورپر استعمال کرکے چند شعبدہ بازوں کی تجوریاں بھرنے کا وسیلہ بنائے رکھا، قوم کو طبقوں اور برادریوں میں تقسیم کرکے انہیں اصل دشمن اور اس کی چالوں سے بے خبر رکھا تو تحریک آزادی، تحریک غلامی میں بدل جائے گی اور موجودہ کشمیری نسل تقسیم شدہ غلامی کے اس دور سے غلامی کے چھٹے دور میں داخل ہوجائے گی۔

(جاری ہے)

کشمیر ڈیفنس کونسل کس نے بنائی ؟اور جو لوگ اس میں شامل ہوئے ان کی کارکردگی اور تجربہ کاری کو پرکھنے کا کیا طریقہ تھا؟ ان کی منصوبہ بندی میں پاکستانی سیاسی اور فوجی قیادت کس قدر ملوث تھی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ تاریخی حقائق کے مطابق گورنر جنرل قائداعظم آپریشن"گلمرگ" سے بے خبر تھے۔ اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ مہاراجہ کشمیر نے تقسیم ہند کے فوراً بعد پاکستان کے ساتھ معاہدہ قائمہ کیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ مہاراجہ کشمیر اپنی آزاد حیثیت بحال رکھنے کی بھرپور کوشش کررہا تھا۔
اس سے قبل ریاست میں دکھلاوے کے ہی سہی مگرپارلیمانی انتخابات بھی ہوچکے تھے اور کسی نہ کسی صورت ایک اسمبلی اور پارلیمنٹ کا تجربہ بھی ہوچکا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آج تقریباً پچاس سال گزرنے کے بعد مہاراجہ کے خیالات اور اصولی سیاسی موقف کو عملی جامہ پہنانے کی جو کوشش ہورہی ہے اس پر کوئی دانشمند کشمیری قیادت اور آزادی کے نعرہ بازوں سے نہیں پوچھتا کہ اگر آپ نے پچاس سالوں بعد مہاراجہ کے خیالات سے ہی ہم آہنگ ہونا تھا تو لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟مشہورکشمیری محقق اور مورخ محترم جی۔
ایم۔ میر کے مطابق کشمیری قوم پر گزشتہ چار صدیوں سے جتنی مصیبتیں آئیں سب ان کے لیڈروں کی لائی ہوئی تھیں۔ 1586ءء میں مغل بادشاہ اکبر کو تسخیر کشمیر کی دعوت دینے والے کشمیری لیڈر تھے۔ 1757ءء میں افغانوں کو ملتان اور کابل سے کشمیری لیڈر بلا لائے۔ 1818ءء میں کشمیر قائدین سکھوں کو دعوت دینے لاہور پہنچے۔ 1947ءء میں یہ لیڈر دو حصوں میں تقسیم ہوگئے اور اپنی اپنی مرضی کے حملہ آور لے کر سرینگر اور مظفر آباد پہنچ گئے۔
سردار ابراہیم صاحب کے حملہ آور چونکہ متحد نہ تھے اور ان کا مقصد جہاد نہیں بلکہ لوٹ مار تھا اس لئے ان کا جہاد کامیاب نہ ہوسکا جبکہ دہلی جانے والے اپنے حامیوں کو جہازوں میں بھر کر پوری طرح مسلح ہوکر آئے اور کامیاب ہوگئے۔
اس سے پہلے کہ آپریشن "گلمرگ"کا مختصراً جائزہ لیا جائے موجودہ کشمیری قیادت کے متعلق جناب جی۔
ایم۔ میر کا ایک تبصرہ نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس میں وہ فرماتے ہیں کہ "اسلام آباد اور راولپنڈی میں مقیم کشمیری قائدین کی ایک جماعت مکانوں کے کرائے اور ٹیلی فون کے بل حق الخدمت کے طورپر وصول کرتی رہتی ہے"۔ اس سلسلے کے ایک کڑی چند سال پہلے کا ایک اخباری تبصرہ ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ "ممبران کشمیر کونسل شہزادوں کی سی زندگیاں بسر کرتے ہیں۔
ان کو کڑوروں روپے بطور صوابدیدی فنڈ تو ملتے ہی ہیں جس کے علاوہ انہیں ایک پجاور جیپ بمعہ ڈرائیور اور پٹرول، گاڑی کیلئے فنڈ، کشمیر ہاوٴس میں ایک عدد عالیشان کمرہ جس میں دنیا کی ہر سہولت میسر ہے، ٹی اے ڈی اے، آرام دہ دفتر جس میں کوئی کام نہیں ہوتا کے علاوہ اتنی سہولیات میسر ہیں کہ ان گل چھروں کے بدلے میں یہ لوگ کئی کشمیر قربان کرسکتے ہیں"۔
کشمیر کونسل عیش و آرام اور کرپشن سے لبریز ادارہ ہے جو پاکستان کے ہر وزیر اور وزیر امور کشمیر اور صدر آزاد کشمیرکے لئے مہاراجہ جیسی سہولیات کا انتظام کرتا ہے۔
ذرا اندازہ کیجئے! جس قوم کے قائدین کی زندگیاں ایسی ہوں اور قوم ان مدہوش قائدین کی قیادت پر ہی راضی بہ رضا ہو تو اس کی تحریک کس طرح کامیاب ہوسکتی ہے۔
کشمیر وار کونسل کی جنگی حکمت عملی پر بات کرنے سے پہلے محترم جی۔ ایم۔ میر صاحب کے بیان کی وضاحت کرتا چلوں کہ آزادکشمیر کے سیاسی قائدین، وزراء، ممبران اسمبلی اور ممبران کشمیر کونسل کو ٹیلی فون بلوں اور مکانوں کے کرایوں کی اب ضرورت نہیں رہی۔ اسلام آباد میں ان کی کئی کئی کوٹھیاں، بیرون ملک فلیٹس اور وسیع کاروبار ہیں جن کا کشمیر احتساب بیورو اور حکومت پاکستان میں انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے سواساری دنیا کو پتہ ہے۔
حکومت پاکستان ان جائیدادوں سے بے خبر بھی رہنا چاہتی ہے چونکہ اس سے بہت سے پاکستانی افسروں اور سیاستدانوں کا مفاد منسلک ہے۔ اس ساری کہانی کا نچوڑ یہ ہے کہ ہمیں ماضی کی غلطیوں، حال کی خود غرضیوں اور خود فہمیوں کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم یونہی طبقات میں بٹے رہے اور ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دیتے رہے تو نہ ہمارا قومی وجود رہے گا اور نہ ہی یہ چند گز زمین کی حکومت بچے گی۔
اگر ہم نے اپنا قومی تشخص بچانا ہے تو وقت کی رفتار کا احساس کرتے ہوئے ہمیں نام نہاد قائدین اور فرضی آزادی کے ٹھیکیداروں کو بحثیت قوم مسترد کرنا ہوگا ورنہ ہم کبھی بھی آزادی کی روشن صبح نہیں دیکھ سکیں گے۔ اگر ہمیں شہدأ کے خون سے وفا کرنی ہے اور ان کی قربانیوں کا پھل حاصل کرنا ہے تو ضروری ہے کہ اُس مقصد کی تکمیل کریں جس کے لئے ان لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja