Episode 53 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 53 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

بہر حال یہ بحث چند سال پرانی ہے جبکہ بعد میں اے آروائی ٹیلی ویژن پر جو ٹیلی انٹرویوز چلے ان میں پاکستان کے سابق وزیر داخلہ نصیراللہ بابر اور ریٹائرڈ جنرل حمید گل کا نمبر اکثر آتا رہا اور اے آر وائی کے ڈاکٹر شاہد مسعود نے جنرل صاحبان سے خفیہ اداروں کے متعلق کچھ سوال کئے تو جنرل صاحبان کافرمان تھا کہ ان اداروں کا وہ کام نہیں جس کا ان پر الزام لگایا جاتا ہے بلکہ ان اداروں کا کام حالات و واقعات کی روشنی میں آنے والے حادثات سے بچاوٴ کی تدبیریں کرنا اور ملکی سلامتی کو در پیش خطرات سے حکومت کو آگاہ کرنا ہے تاکہ حکومت چلانے والے ذہین و فطین اشخاص خفیہ اداروں کی جانب سے دی جانے والی اطلاعات اور تجزیات کی روشنی میں ایسی پالیسیاں مرتب کریں کہ حادثات ٹل جائیں یا پھر ان سے بچاوٴ اور دفاع کا قبل از وقت انتظام کرلیا جائے۔

(جاری ہے)


حیرت کی بات یہ ہے کہ جب مہاراجہ کشمیر نے اپنی دوغلی پالیسی شروع کردی اور سرینگر میں پاکستان کے سپرنٹنڈنٹ آف ڈاک کو کام بند کرنے کا حکم دے دیا اور ہندوستان سے ڈاک اور تار کا معاہدہ کرلیا اور شیخ عبداللہ کو کانگریسی لیڈر شیشے میں اتارنے میں کامیاب ہوگئے۔ شیخ عبداللہ کو جیل سے رہا کردیا گیا، مسلم کانفرنس سے کانگریسیوں نے نیشنل کانفرس بنوا ڈالی، پنڈت کا ک جو مسلمانوں اور مسلم کانفرس سے نرم رویہ رکھتا تھا کو وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا گیا، انگریز چیف آف آرمی سٹاف اور انسپکٹر جنرل آف پولیس کو ہٹاکر ہندووٴں کو ان اعلیٰ عہدوں پر فائز کردیا گیا، راشٹریہ رائفل، سیوک سنگھ اور دوسری دہشت گرد ہندوتنظیموں کو کشمیر میں مسلم کش کاروائیوں کی آزادی مل گئی،سٹیٹ آرمی کے مسلمان کوارٹر ماسٹر جنرل کرنل عدالت کو ہٹا کر ہندو کوارٹر ماسٹر جنرل لگادیا گیاتو یہ سب حالات و واقعات پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت کو کیوں سمجھ میں نہ آئے اوران کی جانب سے کوئی خفیہ قدم کیوں نہ اٹھایا گیا۔
ایک عام آدمی کے سامنے اگر یہ واقعات نمودار ہوتے تو اس طرح کے حالات کو دیکھتے ہوئے وہ بھی اپنا بچاوٴ کرتا مگر وہ لیڈر اور قائد جو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی رکھوالی اور رہنمائی کا بیڑہ اٹھائے ہوئے تھے خواب غفلت سے چنداں بیدار نہ ہوئے۔ بانی پاکستان قائداعظم نے جب آرمی چیف کو کشمیر پر فوج کشی کا حکم دیا اور آرمی چیف نے قائداعظم کا حکم ماننے سے انکار کردیا تو پھر بھی فوجی قیادت میں ہلچل پیدا نہ ہوئی اور عسکری قیادت اپنے انگریز سینئر آفیسروں کی ماتحتی میں کشمیریوں کے قتل عام کی خبریں سنتی رہی۔
آزادی کشمیر کی اس جنگ میں جن پاکستانی فوجی افسروں نے اپنے طور پر حصہ لیا اور کشمیری مسلمانوں کی اس تحریک کیلئے اپنی جانوں اور عہدوں کی پرواہ کئے بغیر میدان جہاد میں شریک ہوئے انہیں بھی اس غلطی کی سزا بھگتنا پڑی۔ میجر جنرل اکبر خان اپنی کتاب ”ریڈرزان کشمیر“ کے صفحہ 80 پر لکھتے ہیں کہ یہ جان کر دکھ ہوا کہ مجھے تین ماہ کی تنخواہ سے محروم کردیا گیاہے۔
مجھ پر الزام تھا کہ میں تین ماہ تک اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر رہا ہوں۔ جنرل اکبر مزید لکھتے ہیں کہ اس پر بھی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ سلیکشن بورڈ نے میری اس غلطی پر کہ میں اپنے طور پر تحریک آزادی کشمیر میں کیوں شریک ہوا مجھے اگلے عہدے پر یعنی میجر جنرل نہ بنانے کی سفارش کی اور مجھ سے جونیئر دو افسروں کو میجر جنرل بنادیا گیا۔ میں نے اس پر باقاعدہ احتجاج کیا تو تب جا کر شنوائی ہوئی۔
میجر جنرل اکبر خان کا صرف ایک واقع نہیں بلکہ جن فوجی افسروں اور جوانوں نے اپنے طور پر تحریک میں حصہ لیا انہیں بھی اس کا مزہ چکھایا گیا تاکہ آئندہ کوئی ایسی جرأت نہ کرے۔
قائداعظم کا حکم نہ ماننے والوں میں صرف انگریز کمانڈر انچیف ہی نہیں تھا بلکہ پاکستانی کابینہ بھی اس جرم میں برابر کی شریک تھی۔ ڈاکٹر محمد سرور عباسی نے اپنی تصنیف تحریک پاکستان کے سیاسیات کشمیر پر اثرات کے صفحہ 134/135 پر چوہدری غلام عباس مرحوم کے کالم ”قائداعظم سے آخری ملاقات“ کے زیر عنوان ستمبر 1967ءء کے ہفت روزہ کشمیر راولپنڈی میں چھپنے والے بیان کو نقل کیا ہے۔
چوہدری غلام عباس لکھتے ہیں کہ قائداعظم نے فرمایا کہ" میں نے دہلی سے جنرل آکنلیک کو فون پر کہا کہ وہ اٹھائیس اکتوبر کو لاہور آکر مجھ سے ملے۔ آکنلیک لاہور آیا تو میں نے اس سے کشمیر کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا مگر آکنلیک نے واضح طور پر کہہ دیا کہ اگر پاکستان نے بھارت کے خلاف کشمیر پر فوج کشی کی تو وہ انگریز افسروں کو پاکستانی فوج سے واپس لے جائے گا۔
"
ایک دوسرے کالم میں چوہدری غلام عباس لکھتے ہیں کہ قائد نے میرے ساتھ گفتگو کے دوران بتلایا کہ میں نے کمانڈر انچیف کو جموں کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا اور کہا کہ کشمیر کی خاطر اگر بھارت سے جنگ چھڑ جاتی ہے تو مجھے اس کی پرواہ نہیں مگر اس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔
اس کے بعد میں نے کابینہ کا اجلاس طلب کرکے یہی تجویز اپنے رفقاء کے سامنے رکھی مگر مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ میری کابینہ نے متفقہ طور پر میری تجویز مسترد کردی۔ اس لئے کہ کشمیر کے معاملے میں ہم نہ صرف صحیح بس کھوبیٹھے بلکہ غلط بس پر بٹھا دیئے گئے۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja