Episode 34 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 34 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

سردار فتح محمد خان نے جتنے پیغامبر ہجیرہ، کہوٹہ اور راولاکوٹ بھجوائے سب کے سب مایوس لوٹے۔ ان پیغامبروں میں ایک نام شہید کشمیر نائیک سیف علی جنجوعہ کا بھی ہے جو اپنے قائد کی بے چینی اور بے بسی کو دیکھتے ہوئے دوردراز سفر کرتے اور لوگوں کو جہاد میں شمولیت کی دعوت دیتے۔ 
ریڈرزان کشمیر کے مصنف جنرل محمد اکبر خان نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے اور اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابتدائی کارروائیوں کے بعد جہادی لیڈر عہدے اور رتبے بانٹنے میں لگ گئے۔
درجنوں کپتانوں، میجروں اور کرنیلوں کے علاوہ دو فیلڈ مارشل اور آدھا درجن جرنیل اور دو عدد کیپٹن جنرل بھی بن بیٹھے۔ اس کے علاوہ دو آزاد جنرل ہیڈ کوارٹر بھی قائم ہوگئے جو روزانہ راولپنڈی میں قائم تیسرے آزاد جنرل ہیڈ کوارٹر کوا پنی اپنی کامیابیوں کی رپورٹیں بھجواتے۔

(جاری ہے)

جنرل صاحب لکھتے ہیں کہ یہ سب جرنیل باہم بھی لڑنے لگے اور جو جس کے ہاتھ آتا وہ اس پر قبضہ کرلیتا اوردوسرے کی ناکامی اور دشمن کے ہاتھوں شکست و ذلت دیکھ کر خوش ہوتا۔

بہت سا امدادی سامان راولپنڈی کے بازاروں میں فروخت ہوجاتا اور مجاہدین کھلے آسمان کے نیچے شدید موسمی حالات اور پوری طرح مسلح دشمن کا مقابلہ کرتے۔ کرنل ایم اے حق مرزا کی ڈائری پر مبنی کتاب ودرنگ چنار کے صفحہ 37پر لکھا ہے کہ اس بات پر توجہ دینا ضروری ہے کہ پونچھ کا محاصرہ کرنے والی مجاہد فورس شمالی علاقہ جات سے لے کر بھمبر تک نسبتاً بڑی فورس تھی جس کے پاس ہتھیاروں، گولہ بارود، خوراک اور دیگر اشیاء ضرورت کی بھی کوئی کمی نہیں تھی تو پھر یہ فورس پونچھ پر قبضہ کرنے میں کیوں ناکام رہی؟ اس کے برعکس گلگت، سکردو، مظفر آباد، کوٹلی، میر پور اور بھمبر کو محاصرے میں لینے والے مقامی مجاہدین کو نہ تو پاکستان سے کوئی امداد میسر تھی اور نہ ہی ان کے پاس اپنے وسائل تھے مگر چند روز میں ان مقامی مجاہد کمانڈروں نے جو کہ سابقہ فوجی تھے نے نہ صرف یہ محصور شہر فتح کرلیے بلکہ دشمن کو للکارتے ہوئے جموں نوشہرہ روڈ تک پہنچ گئے ۔
دوسری جانب وسائل سے مالامال پونچھ کا محاصرہ کرنے والوں نے اسے ذریعہ معاش بنالیا اور دشمن کو سستانے اور محاصرہ توڑنے کا موقع جان بوجھ کر فراہم کیا۔
سردار فتح محمد خان کریلوی کی محدود فورس جس کا نام حیدری فورس تھا کے حصے کی کمک بھی پونچھ جاتی تھی چونکہ ان کا علاقہ یعنی تحصیل مینڈھر پونچھ ضلع کی تحصیل تھی۔
پونچھ کے فتح کئے ہوئے علاقوں میں سدھنوں، سیدوں، ڈھونڈوں اور عباسیوں کے باہمی اختلافات کاخاطر خواہ اثر مینڈھر پر بھی پڑا اور سردار فتح محمد خان کو پونچھ کے فیلڈ مارشلوں نے کسی قسم کی امداد دینے سے انکار کردیا۔
ابتداء میں حیدری فورس کی تعداد 25 افراد پر مشتمل تھی جسے دو حصوں میں تقسیم کرکے دھرم شالہ تحصیل ہیڈکوارٹر پر قبضہ کیا گیا اور وہاں موجود ڈوگرہ پولیس اور دیگر ہندووٴں سے کچھ اسلحہ و ایمونیشن لے کر اس فورس کی تعداد بڑھا کر پچھتر کردی گئی۔
دھرم شالہ پر قبضے کے فوراً بعد سردار صاحب نے گلہڈ پر بھی قبضہ کیا اور دس مجاہدوں پر مشتمل ایک دستہ سیف علی جنجوعہ کی قیادت میں دے کر راجوری کی جانب سے آنے والی ڈوگرہ کمک کا راستہ روک دیا۔ کوٹلی پر راجہ سخی دلیر خان اور نوشہرہ سراہ روڈ پر لیفٹیننٹ راجہ مظفر خان شہید ستارہ جرأت (دوبار) کے کنٹرول کے بعد اس جانب سے پونچھ پہلے ہی محفوظ ہوگیا تھا۔
دھرم شالہ اور اردگرد کے علاقوں کا کنڑول سنبھالنے کے بعد سردار فتح محمد خان نے مجاہدین کا ایک دستہ وادی سورن میں روانہ کیا اور تھانہ سورن کوٹ پر قبضہ کرکے ڈوگرہ پولیس اوررا شڑیہ رائفل کی پلاٹون پر کنڑول حاصل کرلیا۔
سردار فتح محمد خان کی اس کارروائی کے بعد پونچھ کا دفاعی حصار اور مضبوط ہوگیا اور پونچھ شہر کا محاصرہ کرنے والی فوج کے کمانڈروں کا خیال تھا کہ جب جی چاہے گا پونچھ پر حملہ کرکے ڈوگرہ پولیس اور محصور فوج کا خاتمہ کردیں گے۔
مگر نیت کے فتور، تکبر اور ہوس نے یوں اثر دکھایا کہ شہیدوں کے لہو کا صلہ جو صوابدیدی اختیار قدرت نے پونچھ شہر کا محاصرہ کرنے والوں کو عنایت کیا اس کا استعمال محصور فوج نے کیا اور مال و اسباب بانٹنے والے جہادیوں کا محاصرہ توڑ کر ڈوگرہ فوج نے پونچھ کے ائرفیلڈ پر قبضہ کرلیا۔ کئی گھنٹوں کی تاخیر کے بعد جب مجاہدین نے ایئر فیلڈ پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش نہ کی تو بھارتی فوج نے پیراشوٹ کے ذریعے ہتھیار، ایمونیشن اور راشن گرایا اوربعد میں فوج بھی اتاردی۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja