Episode 24 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 24 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

آخری کرن

موضع کھنڈھاڑ میں مختصر قیام اور شہید کشمیر نائیک سیف علی جنجوعہ ہلال کشمیر کی بیوہ، بیٹوں اور دیگر عزیز رشتہ داروں کے خیالات سے فیض یاب ہونے کے علاوہ مجھے علاقہ کے بڑے بوڑھوں سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا جنہوں نے اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور معرکہ بڑا کھنا سمیت دیگر کئی معرکوں میں بھی شامل رہے۔
ان لوگوں کے خیالات اور ان کی زبانی واقعات سنتے وقت یوں محسوس ہوا جیسے میں خود پیرکلیوا کی پہاڑی پر کھڑا سیف علی جنجوعہ کو میدان جنگ میں لڑتے دیکھ رہا ہوں۔ وہ ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر برق رفتاری سے دوڑتے اپنے جوانوں کو ہدایت دے رہے ہیں اور دشمن اپنی لاشوں کے ڈھیر چھوڑ کر جگہ جگہ پسپائی اختیار کررہا ہے۔ وادیوں میں دشمن کے ٹینک اور فتح پور کی نیلگوں فضا میں دشمن کے ہوائی جہاز مجاہدین کے مورچوں پر آگ برسا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

میدان جنگ کی یہ فلم میرے ذہن میں چلتی رہی اور میں شہید کی بیوہ کی قدم بوسی کے بعد شہید کے کچے مکان کی دہلیز چھوڑ کر کوٹلی کی جانب چل دیا۔ فتح پور کی پہاڑی پر پہنچا تو سورج دریا کے پارسہنسہ کی پہاڑیوں کے اوٹ میں آہستہ آہستہ غروب ہورہا تھا۔ کوٹلی کی وادی پر سورج کی آخری سنہری کرنیں کیپٹن اظہار الحسن شہید ستارہ جرأت کو سلام عقیدت پیش کر رہی تھیں۔
کچھ دیر اس بلند مقام پر کھڑا میں ہر سمت پھیلی سنہری کرنوں کو شہیدوں کے رنگ میں ڈھلتا دیکھتا رہا۔ اب کوٹلی کی وادی پر اندھیرا چھا رہا تھا اور فتح پور کی پہاڑیوں پر سبز چیڑ کے درختوں نے سیاہ لباس اوڑھ لیا تھا۔ میں صبح جب فتح پور کی جانب چلا تو پہلے اظہار الحسن کی قبر پر حاضری دی۔ قبر کی گیلی مٹی سے عجیب خوشبو آرہی تھی جو صرف کارگل کے شہیدوں کے خون سے آتی تھی۔
اب تو یہ خوشبو میرے خون، میرے خمیر اور میری روح میں بس چکی ہے۔ ایک ماہ بعد اسی خوشبو میں معطر کیپٹن جاوید شہید بھی کارگل سے واپس آیا اور وطن کی مٹی پر ایک قبر کا اضافہ کرکے سورج کی ایک اور سنہری کرن کو اپنے خون کی سرخی میں بدل گیا۔
صبح جب میں اظہار الحسن کو سلام پیش کرنے گیا تو وہاں صرف دو آدمی موجود تھے۔
ایک عمر رسیدہ باپ قبر پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور بار بار اپنے اظہار الحسن سے پیار بھری باتیں کرتا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے اور ایک ہی فقرہ اس کی زبان پر آتا۔ بیٹا جی اللہ کے حوالے۔ اظہار الحسن کے سرہانے اس کا چھوٹا بھائی خاموش بیٹھا تھا۔ کبھی وہ اظہار کی قبر اور کبھی بوڑھے باپ کی طرف دیکھتا۔ اس کے چہرے پر عجیب اداسی تھی۔
اس کے لبوں پر کئی سوال تھے جن کا جواب نہ تو کسی دانشور کے پاس ہے نہ کارگل کی جنگ کا منصوبہ بنانے والوں اور نہ ہی کشمیر کی پالیسی بنانے اور بگاڑنے والوں کے پاس۔ اس کے سوالوں کا جواب اس کا بھائی اپنے سینے میں لئے سامنے خاموش پڑا تھا۔
جو منظر میں صبح کوٹلی کے قبرستان میں دیکھ کر گیا تھا ویسا ہی منظر سیف علی شہید کے گھر میں بھی تھا۔
سیف علی کی بیوہ عمر رسیدہ ہوچکی تھی۔ بچے بھی اب جوانی کی حدود پار کرچکے تھے مگر جب محترمہ زہرہ بی بی نے اپنے شہید خاوند کی زندگی کے ایک ایک دن کی کہانی بیان کرنا شروع کی تو محمد صدیق اور محمد رفیق کی آنکھوں سے آنسووٴں کی بارش شروع ہوگئی۔ اظہار الحسن کے بھائی کی طرح دونوں بھائی بار بار ماں کے معصوم چہرے کی طرف دیکھتے اور آنکھیں بند کر لیتے۔
میرے دیکھتے ہی صدیق اور رفیق سالوں پر محیط اپنے ماضی میں چلے گئے۔ جب زہرہ بی بی نے بتایا کہ وہ مکئی کے کھیت میں فصل اکھٹی کر رہی تھی اور دونوں بچے ان کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک مجاہد نے آکر انہیں خبر دی کہ سیف علی شہید ہوگئے ہیں۔ زہرہ بی بی اچانک چپ ہوگئی اور پھر بولیں۔ صدیق اور رفیق خاموش رہے۔ میں نے کام چھوڑا اور دونوں کو اٹھا کر گھر چلی گئی۔
میرے پاس اور کچھ بھی تو نہیں تھا۔ میرا مالک کچھ دیر پہلے اس دھرتی کی رکھوالی کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا تھا۔ میرے کھیتوں کی فصل کھیتوں میں بکھری پڑی تھی اور میری گود کی فصل میرے سامنے تھی۔ ہر طرف توپوں اور جہازوں کے گولے اور بم برس رہے تھے اور ہم عین میدان جنگ میں بے آسرا اور بے سہارا تھے۔
زہرہ بی بی کی مصیبتوں اور پریشانیوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اسے بیان کرنے کے لئے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے۔
عمر رسیدہ زہرہ بی بی اپنی داستان غم بیان کر رہی تھیں اور ان کے سامنے ایک ٹانگ سے معذور محمد صدیق جسے ایک حادثہ میں زخمی ہونے کی وجہ سے فوج سے ریٹائیرکردیا گیا اور درویش صفت رفیق بیٹھے تھے۔ میں زہرہ بی بی کی باتیں سن رہا تھا مگر میرا دل و دماغ نشان حیدر پانے والے دیگر شہدأ کے گھرانوں کی زندگیوں کے متعلق سوچ رہا تھا۔ یوں تو دنیا کا دھن دولت کسی شہید کے خون کا نعم البدل نہیں اور نہ ہی ان عظیم لوگوں نے اپنی جان کا سوداکسی مادی خزانے اور صلے کی خاطر کیا مگر حکومت نے اپنا فرض سمجھتے ہوئے ان کے خاندانوں کی جو دیکھ بھال کی کیا زہرہ بی بی اور ان کے بچے اس کے مستحق نہیں تھے؟ ایک طرف تو نشان حیدر پانے والوں کے بچوں کو حکومت نے نہ صرف اعلیٰ تعلیم دلوائی بلکہ جو فوج میں آئے انہیں سینڈھرسٹ میں تربیت کے لئے بھی بھجوایا۔
مگر کسی حکومت کو زہرہ بی بی کی غربت اور پریشانی کا خیال نہ آیا۔ کسی حکومت نے محمد صدیق اور تصویر بی بی کی تعلیم کا بندوبست نہ کیا اور نہ ہی بیمار محمدرفیق کے علاج کا کسی کو خیال آیا جبکہ اسی ملک کے وزیر مشیر اور حکومتی اہلکار اپنے زکام اور کھانسی کا علاج بھی امریکہ میں کرواتے ہیں اور معمولی گرمی لگ جائے تو دوسرے روز یورپ کی سرد سیاحت گاہوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ المیہ آزادی کشمیر کا سب سے بڑا جنگی اعزاز پانے والے شہید کی بیوہ اور بچوں کا ہی نہیں بلکہ ہر اس شخص کا ہے جس نے اس ملک کی مٹی کے تقدس کے لئے قربانی دی اور غیرت ایمانی کا مظاہرہ کیا۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja