Episode 46 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 46 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

19 اکتوبر کی رات وادی سورن میں موسم کی پہلی شدید برف باری نے مجاہدین کے لئے پیرپنجال اور وادی سورن میں رہنا مشکل کردیا جبکہ دشمن نے موسم کی شدت سے فائدہ اٹھا کر ڈھوری ماحل جو کہ تھانہ سے مغرب یعنی مینڈھر کی جانب دوسری دفاعی لائن تھی پر قبضے کے لئے حملہ کردیا۔ اسی دوران پونچھ شہر کا محاصرہ کرنے والوں نے بھی بوریا بستر لپیٹا اور چاند ٹیکری اورچڑی کوٹ کی بلندیوں پر بیٹھ کر پونچھ شہر کا نظارہ کرنے لگے۔

نوشہرہ سیکٹر میں بھی حالات بدل گئے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے بھجوائے گئے لشکریوں اور مقامی سدھن بریگیڈ کمانڈر میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ وزیری اور افغان لشکری کمانڈر اپنے آپ کو جرنیل سمجھتے تھے اور ہر چیز کو غنیمت سمجھ کر اس پر اپنا حق جتلاتے تھے۔

(جاری ہے)

نوشہرہ سیکٹر کے مجاہد کمانڈر لیفٹیننٹ راجہ مظفر خان شہیداور دیری لشکر کمانڈر حضرت عالی کے لئے دونوں دھڑوں کی لڑائی نے بہت سی مشکلات پیدا کردیں چونکہ سدھن بریگیڈ اوروزیری لشکری انہیں اپنے زیر کمان رکھنا چاہتے تھے۔

یہی حال اسلحہ و ایمونیشن کا تھا جبکہ دونوں دھڑوں کی خوراک کا بندوبست مقامی ذیلدار خود کرتے تھے۔
لشکریوں کا رویہ مقامی آبادی سے انتہائی سخت اور حکمرانہ تھا ۔ وہ خواتین کی بے حرمتی کرتے اور لوگوں سے مال مویشی زبردستی چھین لیتے۔ لشکریوں کے اس رویے سے پیر بڈیسر اور ملحقہ دیہاتوں کی گجر آبادی سب سے زیادہ متاثر ہوئی تو گجر قبیلہ لشکریوں کے خلاف ہوگیا۔
کہتے ہیں کہ ایک گوجری مائی نے اپنے بیل کا بدلہ لینے کے لئے بھارتی فوجی کمانڈر سے رابطہ کیا اور لشکریوں کے ٹھکانوں سے بھارتی فوج کو آگاہ کرکے علاقہ میں بیٹھے لشکریوں کا خاتمہ کروادیا۔ نوشہرہ پر سوات سکاؤٹ نے حملہ کیا مگر ناکام رہے۔اس حملے کے بعد سوات سکاؤٹ کسی کو بتلائے بغیر واپس چلے گے اور سارا علاقہ دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑدیا۔
نوشہرہ کے بعد بھارتی فوج کیری تک پہنچی مگر لیفٹیننٹ راجہ مظفر خان شہید نے مقامی سازشوں کی پرواہ کئے بغیر دشمن کا مقابلہ جاری رکھا اور آخر کار اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے مقام شہادت پایا۔ اکتوبر کے آخری ہفتے میں مینڈھر سیکٹر کی حالت مزید ابتر ہوگئی۔ دشمن نے ہوائی جہازوں اور ہلکے ٹینکوں کا استعمال شروع کردیا چونکہ دسمبر سے پہلے وہ مجاہدین کا صفایا کرنا چاہتا تھا۔
دس اکتوبر کو دشمن نے بڑا حملہ کرکے دھری ماہل پر قبضہ کیا تو اس کا اگلا حدف پیر کلیوا، بھمبر گلی اور پیر سید فاضل تھے جو کہ مینڈھر پر قبضے کے لئے دشمن کا آخری حدف تھا۔
مظفر آباد سیکٹر میں جان بوجھ کر مقامی آبادی کو جہاد میں شامل نہیں کیا گیا چونکہ ابتداء ہی میں یہاں لشکریوں نے قبضہ کیا اور شہر کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔
یہی حال اوڑی کا ہوا تو لوگ ڈوگرہ مظالم بھول گئے۔لشکری گاڑیوں پر بیٹھ کر مظفر آباد آئے اور مظفر آباد پر قبضے کے بعد گاڑیوں پر بیٹھ کر بارہ مولا اور پھر سری نگر کے قرب و جوار تک پہنچ کر بھارتی فوج کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔ یہاں پر بھی لشکریوں اور مقامی آبادی میں بدمزگی پیدا ہوئی جس کا بنیادی عنصر خواتین کی بے حرمتی اور غنیمت کا حصول تھا۔
یہ لشکری آزاد منش لوگ تھے جو کسی کی کمان میں رہنا پسند نہیں کرتے تھے۔ جب لشکریوں پر دشمن کا دباوٴ بڑھا تو وہ جن گاڑیوں میں بیٹھ کر آئے تھے انہیں میں بیٹھ کر واپس چلے گئے۔ اگر ہمارے قائدین اور آزادی کے چمپیئن کوئی بہتر منصوبہ بندی کرتے تو وہ بمبے اور کھکھے راجپوتوں کو جو سال ہا سال تک اس علاقہ میں ڈوگروں کے خلاف نبرد آزما رہے تھے انہیں جہاد میں شامل کرتے نہ کہ ان کی تذلیل کے لئے لشکری بلالاتے۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja