Episode 33 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 33 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

 مثلاً تین پانچ کرنا (یعنی لڑنا جھگڑنا) اس کو دونوں معنوں کے لحاظ سے محاورہ کہہ سکتے ہیں کیوں کہ یہ ترکیب اہل زبان کی بول چال کے بھی موافق ہے اور نیز اس میں ”تین پانچ“ کا لفظ اپنے حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ مجازی معنوں میں بولا گیا ہے لیکن روٹی کھانا یا میوہ کھانا یا پان سات یادیں بارہ وغیرہ پہلے معنوں کے لحاظ سے محاورہ قرار پا سکتے ہیں نہ دوسرے معنوں کے لحاظ سے۔
کیوں کہ یہ تمام ترکیبیں اہل زبان کی بول چال کے موافق تو ضرور ہیں مگر ان میں کوئی لفظ مجازی معنوں میں مستعمل نہیں ہوا۔ آئندہ ہم ان دونوں معنوں میں تمیز کرنے کیلئے پہلی قسم کے محاورہ پر روزمرہ کا اور دوسری قسم پر محاورہ کا اطلاق کریں گے۔
روزمرہ اور محاورہ میں من حیثیت الاستعمال ایک اور بھی فرق ہے روزمرہ کی پابندی جہاں تک ممکن ہو تقریر و تحریر اور نظم و نثر میں ضروری سمجھی گئی ہے۔

(جاری ہے)

یہاں تک کہ کلام میں جس قدر روزمرہ کی پابندی کم ہو گی۔ اسی قدر وہ فصاحت کے درجہ سے ساقط ، سمجھا جائے گا ”مثلاً: ”کلکتہ سے پشاور تک سات آٹھ کوس پر ایک پختہ سرا اور ایک کوس پر مینار بنا ہوا تھا۔“ یہ جملہ روزمرہ کے موافق نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ یوں ہونا چاہئے۔“ کلکتہ سے پشاور تک سات سات ، آٹھ آٹھ کوس پر ایک ایک پختہ سرا اور کوس کوس بھر پر ایک ایک مینار بنا ہوا تھا۔
”یا مثلاً ”آج تک ان سے ملنے کا موقع نہ ملا۔“ یہاں نہ ملا کی جگہ نہیں ملا چاہئے۔ یا ”وہ خاوند کے مرنے سے سے درگور ہوئی۔“ یہاں زندہ درگور ہو گئی چاہئے۔ یا
”سو گئے جب بخت تب بیدار انکھیں ہو گئیں“
یہاں ہو گئیں کی جگہ ہوئیں چاہئے۔ یا
”دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیا ہوا“
یہاں کیا ہو گیا چاہئے۔
الغرض نظم ہو یا نثر دونوں میں روزمرہ کی پابندی جہاں تک ممکن ہو نہایت ضروری ہے مگر محاورہ کا ایسا حال نہیں ہے۔
محاورہ اگر عمدہ طور سے باندھا جائے تو بلاشبہ پست شعر کو بلند تر کر دیتا ہے۔ لیکن ہر شعر میں محاورہ باندھنا ضروری نہیں بلکہ ممکن ہے کہ شعر بغیر محاورہ کے بھی فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ درجہ پر واقع ہو اور ممکن ہے کہ ایک پست اور ادنیٰ درجہ کے شعر میں بے تمیزی سے کوئی لطیف و پاکیزہ محاورہ رکھ دیا گیا ہو۔ ایک مشہور شاعر کا شعر ہے:
گوہر اشک سے لبریز ہے سارا دامن
آج کل دامن دولت ہے ہمارا دامن
اس شعر میں کوئی محاورہ نہیں باندھا گیا۔
باوجود اس کے شعر تعریف کے قابل ہے۔ دوسری جگہ یہی شاعر کہتا ہے:
اس کا خط دیکھتے ہیں جب صیاد
طوطے ہاتھوں کے اڑا کرتے ہیں
اس شعر میں کوئی خوبی ہے نہ مضمون ہے صرف ایک محاورہ بندھا ہوا ہے اور وہ بھی روزمرہ کے خلاف یعنی اڑ جاتے ہیں کی جگہ اڑا کرتے ہیں۔ محاورہ کو شعر میں ایسا سمجھنا چاہئے۔ جیسے کوئی خوبصورت عضو بدن انسان میں اور روزمرہ کو ایسا جاننا چاہئے جیسے تناسب اعضا بدن انسان میں جس طرح بغیر تناسب اعضا کے کسی خاص عضو کی خوبصورتی سے حسن بشری کامل نہیں سمجھا جا سکتا اسی طرح بغیر روزمرہ کی پابندی کے محض محاورات کے جاوبے جا رکھ دینے سے شعر میں کچھ خوبی پیدا نہیں ہو سکتی۔
شعر کی معنوی خوبی کا اندازہ اہل زبان اور غیر اہل زبان دونوں کر سکتے ہیں لیکن لفظی خوبیوں کا اندازہ کرنا صرف اہل زبان کا حصہ ہے۔ اہل زبان عموماً اس شعر کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ جس میں روزمرہ کا لحاظ کیا گیا ہو اور اگر روزمرہ کے ساتھ محاورہ کی چاشنی بھی ہو تو وہ ان کو اور زیادہ مزا دیتی ہے مگر عوام اور خواص کی پسند میں بہت بڑا فرق ہے۔
 عوام محاورہ یا روزمرہ کے ہر شعر کو سن کر سر دھننے لگتے ہیں شعر کا مضمون کیسا ہی متبذل یا رکیک اور سبک ہو اور اگرچہ محاورہ کیسا ہی بے سلیقگی سے باندھا گیا ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ جن اسلوبوں میں وہ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں جب انہیں اسلوبوں میں وزن کی کھچاوٹ اور قافیوں کا تناسب دیکھتے ہیں اور معمولی بات چیت کو شعر کے سانچے میں ڈھلا ہوا پاتے ہیں تو ان کو ایک نوع کا تعجب اور تعجب کے ساتھ خوشی پیدا ہوتی ہے مگر خواص کی پسند اور تعجب کیلئے صرف روزمرہ کا وزن کے سانچے میں ڈھال دینا کافی نہیں ہے ان کے نزدیک محض تک بندی اور معمولی بات چیت کو موزوں کر دینا کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے ہاں اگر وہ دیکھتے ہیں کہ ایک سنجیدہ مضمون معمولی روزمرہ میں کمال خوبی اور صفائی اور بے تکلفی سے ادا کیا گیا ہے۔
 تو بلاشبہ ان کو بے انتہا تعجب اور حیرت ہوتی ہے کیونکہ فن شعر میں اور خاص کر اردو زبان میں کوئی بات اس سے زیادہ مشکل نہیں ہے کہ عمدہ مضمون معمولی بول چال اور روزمرہ میں پورا پورا ادا ہو جائے۔ جن لوگوں نے روزمرہ کی پابندی کو سب چیزوں سے مقدم سمجھا ہے ان کے کلام کو بھی نکتہ چینی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو جابجا فروگزاشتیں اور کسریں نظر آتی ہیں۔
پس جب کوئی شعر باوجود مضمون کی متانت اور سنجیدگی کے روزمرہ اور محاورہ میں بھی پورا اتر جائے تو لامحالہ اس سے ہر صاحب ذوق کو تعجب ہوتا ہے مثلاً میر انشاء# اللہ خان اس بات کو کہ افسردگی کے عالم میں خوشی اور عیش و عشرت کی چھیڑ چھاڑ سخت ناگوار گزرتی ہے اسی طرح بیان کرتے ہیں:
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں!
یا مثلاً مرزا غالب# اتنے بڑے مضمون کو (کہ میں جو معشوق کے مکان پر پہنچا تو اول خاموش کھڑا رہا۔
پاسبان نے سائل سمجھ کر کچھ نہ کہا جب معشوق کو دیکھنے کا حد سے زیادہ شوق ہوا اور صبر کی طاقت نہ رہی تو پاسبان کے قدموں پر گر پڑا اب اس نے جانا کہ اس کا مطلب کچھ اور ہے اس نے میرے ساتھ وہ سلوک کیا کہ ناگفتہ بھی ہے) دو مصرعوں میں اس طرح بیان کرتے ہیں:
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئی
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کیلئے
یا مرزا غالب# کہتے ہیں:
رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے
دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے
قاعدہ ہے کہ جب تک انسان عشق و محبت کو چھپاتا ہے اس کو ہر ایک بات کا پاس و لحاظ رہتا ہے۔
لیکن جب راز فاش ہو جاتا ہے تو پھر اس کو کسی کی شرم اور حجاب نہیں رہتا اس شعر میں یہی مضمون ادا کیا گیا ہے۔ دھویا جانا۔ بے حیا اور بے لحاظ ہو جانے کو کہتے ہیں اور پاک آزاد اور شہدے کو کہتے ہیں۔ رونے کیلئے دھویا جانا اور دھوئے جانے کیلئے پاک ہونا۔ باوجود اتنی لفظی مناسبتوں کے اور محاورہ کی نشست اور روزمرہ کی صفائی کے مضمون پورا پورا ادا ہو گیا ہے اور کوئی بات ان نیچرل نہیں ہے۔
یا مثلاً مومن خاں کہتے ہیں:
کل تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے
کھوئے گئے ہم ایسے کہ اغیار پا گئے
آنکھیں چرانا اغماض و بے توجہی کرنا ہے۔ کھویا جانا۔ شرمندہ اور کھسیانا ہونا۔ یا جانا: سمجھ جانا یا تاڑ جانا۔ معنی ظاہر ہیں۔ اس شعر کا مضمون بھی بالکل نیچرل ہے اور محاورات کی نشست اور روزمرہ کی صفائی قابل تعریف ہے اگرچہ اس کا ماخذ مرزا غالب# کا یہ شعر ہے:
گرچہ ہے طرز تغافل پردہ دار راز عشق
پر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ وہ پا جائے ہے
مگر مومن کے ہاں زیادہ صفائی سے بندھا ہے اسی قبیل کے یہ اشعار ہیں:
رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
(ذوق#)
چال ہے مجھ ناتواں مرغ بسمل کی تڑپ
ہر قدم پر ہے یقین یاں رہ گیا واں رہ گیا
(آتش)
جو بے اختیاری یہی ہے تو قاصد
ہمیں آکے اس کے قدم دیکھتے ہیں
(میر#)
شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ
اک آگ سی ہے سینہ کے اندر لگی ہوئی
(شیفتہ#)
یوں وفا اٹھ گئی زمانے سے
کبھی گویا جہاں میں تھی ہی نہیں
(داغ#)

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali