Episode 10 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 10 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

آمد اور آورد میں فرق:
اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ جو شعر شاعر کی زبان یا قلم سے فوراً بے ساختہ ٹپک پڑتا ہے وہ اس شعر سے زیادہ لطیف اور بامزہ ہوتا ہے جو بہت دیر میں غور و فکر کے بعد مرتب کیا گیا ہو پہلی صورت کا نام انہوں نے آمد رکھا ہے اور دوسری کا آورد۔ بعض اس موقع پر یہ مثال دیتے ہیں کہ جو شیرہ انگور سے خود بخود ٹپکتا ہے وہ اس شیرہ سے زیادہ لطیف و بامزہ ہوتا ہے جو انگور سے نچوڑ کر نکالا جائے مگر ہم اس رائے کو تسلیم نہیں کرتے۔
اوّل تو یہ مثال جو اس موقع پر لکھی جاتی ہے اسی سے اس رائے کے خلاف ثابت ہوتا ہے جو شیرہ انگور سے خود بخود اس کے پک جانے کے بعد ٹپکتا ہے وہ یقینا اس شیرہ کی نسبت بہت دیر میں تیار ہوتا ہے جو کچے یا ادھ کچے انگور سے نچوڑ کر نکالا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

مستثنیٰ حالتوں کے سوا ہمیشہ وہی شعر زیادہ مقبول ، زیادہ لطیف ، زیادہ بامزہ ، زیادہ سنجیدہ اور زیادہ موثر ہوتا ہے۔

جو کمال غور و فکر کے بعد مرتب ہو۔ یہ ممکن ہے کہ شاعر کسی موقع پر پاکیزہ خیالات جو اس کے حافظہ میں پہلے سے ترتیب وار محفوظ ہوں مناسب الفاظ میں جو حسن اتفاق سے فی الفور اس کے ذہن میں آ جائیں ادا کر دے لیکن اوّل تو ایسے اتفاقات شازو نادر ظہور میں آتے ہیں والنادر کالعدوم۔ دوسرے ان خیالات کو جو مدت سے انگور کے شیرہ کی طرح اس کے ذہن میں پک رہے تھے کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ جھٹ پٹ بغیر غور و فکر کے سر انجام ہو گئے ہیں۔
شعر میں دو چیزیں ہوتی ہیں، ایک خیال ، دوسرے الفاظ۔ خیال تو ممکن ہے کہ شاعر کے ذہن میں فوراً ترتیب پا جائے مگر اس کیلئے الفاظ مناسب کا لباس تیار کرنے میں ضرور دیر لگے گی یہ ممکن ہے کہ ایک مستری مکان کا نہایت عمدہ اور نرالا نقشہ ذہن میں تجویز کر لے مگر یہ ممکن نہیں کہ اس نقشہ پر مکان بھی ایک چشم زدن میں تیار ہو جائے وزن اور قافیہ کی اوگھٹ گھاٹی سے صحیح سلامت نکل جانا اور مناسب الفاظ کے تفحص سے عہدہ برآ ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
اگر ایک دن کا کام ایک گھنٹے میں تیار کیا جائے تو وہ کام نہ ہوگا بلکہ بیگار ہو گی۔
روما کے مشہور شاعر و رجل کے حال میں لکھا ہے کہ صبح کو اپنے اشعار لکھواتا تھا اور دن بھر اس پر غور کرتا تھا اور ان کو چھانٹتا تھا اور یہ بات کہا کرتا تھا کہ ”ریچھنی بھی اسی طرح اپنے بدصورت بچوں کو چاٹ چاٹ کر خوبصورت بناتی ہے۔“
ایرسٹو شاعر جس کے کلام میں مشہور ہے کہ کمال بے ساختگی اور آمد معلوم ہوتی ہے اس کے مسودے اب تک فریرا علاقہ  اٹلی میں محفوظ ہیں۔
ان مسودوں کے دیکھنے والے کہتے ہیں کہ جو اشعار اس کے نہایت صاف اور سادے معلوم ہوتے ہیں وہ آٹھ آٹھ دفعہ کاٹ چھانٹ کرنے کے بعد لکھے گئے ہیں۔
ملٹن بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ نہایت سخت محنت اور جانفشانی سے نظم لکھی جاتی ہے اور نظم کی ایک ایک بیت میں اس کے سڈول ہونے سے پہلے کتنی ہی تبدیلیاں پے در پے کرنی پڑتی ہیں۔
ایک فارسی گوشاعر بھی فکر شعر کی حالت اس طرح بیان کرتا ہے:
برائے پاکی لفظے شبے بروز آرد
کہ مرغ و ماہی باشند خفتہ او بیدار
سچ یہ ہے کہ کوئی نظم جس نے کہ استقلال کے ساتھ جمہور کے دل پر اثر کیا ہو۔
خواہ طویل ہو خواہ مختصر ایسی نہیں ہے جو بے تکلف لکھ کر پھینک دی گئی ہو۔ جس قدر کسی نظم میں زیادہ بے ساختگی اور آمد معلوم ہو اسی قدر جاننا چاہئے کہ اس پر زیادہ محنت زیادہ غور اور زیادہ چمک و اصلاح کی گئی ہو۔
ابنِ رشیق اپنی کتاب عمدہ میں لکھتے ہیں کہ ”جب شعر سر انجام ہو جائے تو اس پر بار بار نظر ڈالنی چاہئے اور جہاں تک ہو سکے اس میں خوب تنقیح و تہذیب کرنی چاہئے۔
پھر بھی اگر شعر میں جو دت اور خوبی نہ پیدا ہو تو اس کے دور کرنے میں پش و پیش نہ کرنا چاہئے جیسا کہ اکثر شعراء کیا کرتے ہیں۔ انسان اپنے کلام پر اس لئے کہ وہ اس کی مجازی اولاد ہوتی ہے۔ مفتون اور فریفتہ ہوتا ہے۔ پس اگر اس کے دور کرنے میں مضائقہ کیا جائے گا تو ایک برے شعر کے سبب سارا کلام درجہ بلاغت سے گر جائے۔“
انشاء پردازی کا مدار زیاہ تر الفاظ پر ہے نہ معانی پر۔
ابن خلدون اسی الفاظ کی بحث کے متعلق کہتے ہیں کہ ”انشا پردازی کی ہنر نظم میں ہو یا نثر میں محض الفاظ میں سے معانی میں ہرگز نہیں۔ معانی صرف الفاظ کے تابع ہیں اور اصل الفاظ ہیں۔ معانی ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں۔ پس ان کیلئے کسی ہنر کے اکتساب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ضرورت ہے تو صرف اس بات کی ہے کہ ان معانی کو کس طرح کے الفاظ میں ادا کیا جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ الفاظ کو ایسا سمجھو جیسے پیالہ اور معانی کو ایسا سمجھو جیسے پانی۔ پانی کو چاہو سونے کے پیالہ میں بھر لو اور چاہو چاندی کے پیالہ میں اور چاہو کانچ یا بلور یا سیپ کے پیالہ میں اور چاہو مٹی کے پیالہ میں۔ پانی کی ذات میں کچھ فرق نہیں آتا۔ مگر سونے یا چاندی وغیرہ کے پیالہ میں اس کی قدر بڑھ جاتی ہے اور مٹی کے پیالہ میں کم ہو جاتی ہے۔
اسی طرح معانی کی قدر ایک فصیح اور ماہر کے بیان میں زیادہ ہو جاتی ہے اور غیر فصیح کے بیان میں گھٹ جاتی ہے۔“
مگر ہم ان کی جناب میں عرض کرتے ہیں کہ حضرت اگر پانی کھاری یا گدلا یا بوجھل یا ادھن ہو گا یا ایسی حالت میں پلایا جائے گا جب کہ اس کی پیاس مطلق نہ ہو تو خواہ سونے یا چاندی کے پیالہ میں پلایئے خواہ بلور اور پھٹک کے پیالہ میں وہ ہرگز خوشگوار نہیں ہو سکتا اور ہرگز اس کی قدر نہیں بڑھ سکتی۔
ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ شاعری کا مدار جس قدر الفاظ پر ہے اسی قدر معانی پر نہیں معانی کیسے ہی بلند اور لطیف ہوں اگر عمدہ الفاظ میں بیان نہ کئے جائیں گے تو ہرگز دلوں میں گھر نہیں کر سکتے اور ایک متبذل مضمون پاکیزہ الفاظ میں ادا ہونے کے قابل تحسین ہو سکتا ہے لیکن معانی سے یہ سمجھ کر کہ وہ ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں اور ان کیلئے کسی ہنر کے اکتساب کی ضرورت نہیں بالکل قطع نظر کرنا ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔
اگر شاعر کے ذہن میں صرف وہی چند محدود خیالات جمع ہیں جن کو اگلے شعراء باندھ گئے ہیں یا صرف وہی معمولی باتیں اس کو بھی معلوم ہیں جیسی کہ عام لوگوں کو معلوم ہوتی ہیں اور اس نے شاعری کی تکمیل کیلئے اپنی معلومات کو وسعت نہیں دی اور صحیفہ فطرت کے مطالعہ کی عادت نہیں ڈالی اور قوت متخیلہ کیلئے زیادہ مصالح جمع نہیں کیا گو زبان پر اس کو کیسی ہی قدرت اور الفاظ پر کیسا ہی قبضہ حاصل ہو اس کو دو مشکلوں میں سے ایک مشکل ضرور پیش آئے گی یا تو اس کو وہی خیالات جو اگلے شعراء باندھ چکے ہیں تھوڑے تھوڑے تغیر کے ساتھ انہیں کے اسلوب پر بار بار باندھنے پڑیں گے یا ایک ایک مبتندل اور پامال مضمون کیلئے نئے نئے اسلوب بیان ڈھونڈنے پڑیں گے جن کا مقبول ہونا نہایت مشتبہ ہے اور نامقبول ہونا قرین قیاس۔
شعر میں کس قسم کی باتیں بیان کرنی چاہئیں۔
اس کے سوا معنی کے متعلق ایک اور کمال حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس کو الفاظ سے کچھ تعلق نہیں صرف نیچر کا مطالعہ اور معلومات کا ذخیرہ جمع کر لینا ہی شاعر کا کام نہیں ہے بلکہ ہر ایک شے کی روح میں جو خاصیتیں ہیں ان کا انتخاب کرنا اور ان کی تصویر کھینچنا شاعر کا کام ہے۔ شاعر مثلاً نباتات اور پھول اور پھل کو اس نظر سے نہیں دیکھتا جس نظر سے کہ ایک محقق علم نباتات کا دیکھتا ہے یا وہ ایک واقعہ تاریخی پر اس حیثیت سے نظر نہیں ڈالتا جس حیثیت سے کہ ایک مورخ نظر ڈالتا ہے۔
وہ ہر ایک شے میں سے صرف وہ خاصیتیں چن لیتا ہے جن پر قوت متخیلہ کا عمل چل سکے اور جو عام نظروں سے مخفی ہوں۔ جس طرح ایک نیا ریا ریت میں سے چاندی کے ذرے نکال لیتا ہے جو کسی کو نہیں سوجھتے اسی طرح شاعر ہر ایک چیز اور ہر ایک واقعہ میں سے صرف ذوقیات لے لیتا ہے جن میں اس کے سوا کسی کا حصہ نہیں اور باقی کو چھوڑ دیتا ہے مثلاً سکندر کے مرنے کا حال اور اس کے اخیر وقت کے واقعات مورخین نے جو کچھ لکھے ہوں سو لکھے ہوں مگر ایک مور لسٹ شاعر ان سے صرف یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ:
سکندر کہ بر عاملے حکم داشت
درآں دم کہ بگذشت و عالم گذشت
میسر نبودش کزد عالمے
متانندو و مہلت ہندش دمے
یا فصل بہار میں بلبل ہزار داستان کے غیر معمولی چہچہے دیکھ کر ایک خواص حیوانات کا محقق اس کے جو کچھ اسباب قرار دے سو دے مگر ایک متصوف شاعر اس کے یہ معنی بناتا ہے:
بلبلے برگ گل خش رنگ در منقار داشت
وندر آن برگ و نوا خوش نالہ ہائے زار داشت
گفتمش درعین وصل این نالہ و فریاد چیست
گفت مارا جلوہ معشوق برایں کار داشت
پس یہ کہنا کہ شاعری کا کمال محض الفاظ میں ہے معانی میں ہرگز نہیں ، کسی طرح ٹھیک نہیں سمجھا جا سکتا۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali