Episode 32 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 32 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

استعارہ ، کنایہ اور تمثیل کی تعریف اور ان کی قسمیں علم بیان کی کتابوں میں دیکھنی چاہئیں یہاں ہم صرف اس قدر کہنا چاہتے ہیں کہ استعارہ بلاغت کا ایک رکن اعظم ہے اور شاعری کو اس کے ساتھ وہی نسبت ہے جو قالب کو روح کے ساتھ کنایہ اور تمثیل کا حال بھی استعارہ ہی کے قریب قریب ہے یہ سب چیزیں شعر میں جان ڈالنے والی ہیں جہاں اصل زبان کا قافیہ تنگ ہو جاتا ہے۔
وہاں شاعر انہیں کی مدد سے اپنے دل کے جذبات اور دقیق خیالات عمدگی کے ساتھ ادا کر جاتا ہے اور جہاں اس کا اپنا منتر کارگر ہوتا نظر نہیں آتا۔ وہاں انہیں کے زور سے وہ لوگوں کے دلوں کو تسخیر کر لیتا ہے۔
بعض مضامین فی نفسہ ایسے دلچسپ اور دلکش ہوتے ہیں کہ ان کو محض صفائی اور سادگی سے بیان کر دینا کافی ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

مگر بہت سے خیالات ایسے ہوتے ہیں کہ معمولی زبان ان کو ادا کرتے وقت رو دیتی ہے اور معمولی اسلوب ان میں اکثر پیدا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

ایسے مقام پر اگر استعارہ اور کنایہ یا تمثیل وغیرہ سے مدد نہ لی جائے تو شعر شعر نہیں رہتا بلکہ معمولی بات چیت ہو جاتی ہے مثلاً داغ# کہتے ہیں:
گیا تھا کہہ کے اب آتا ہوں قاصد کو تو موت آئی
دل بیتاب واں جا کر کہیں تو بھی نہ مر رہنا
اس شعر میں دیر لگانے کو موت آنے اور مر رہنے سے تعبیر کیا ہے اگر یہ دونوں لفظ نہ ہوں۔ بلکہ اس طرح بیان کیا جائے کہ قاصد نے تو بہت دیر لگائی۔
اے دل کہیں تو بھی دیر نہ لگائیو تو شعر میں کچھ جان باقی نہیں رہتی یا مثلاً مرزاً غالب# کہتے ہیں:
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زور پشیماں کا پشیماں ہونا
دوسرے مصرع میں طنزاً بطور استعارہ کے ”دیر پشیماں“ کی جگہ زود پشیماں کہا گیا ہے جس سے شعر میں جان پڑ گئی ہے۔ اسی طرح میر تقی کہتے ہیں:
کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
ہاں کہو‘ اعتماد ہے ہم کو
یہاں بھی ”اعتماد نہیں ہے“ کی جگہ طنزاً ”اعتماد ہے“ کہا گیا ہے۔
مرزا غالب# کہتے ہیں:
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانہ میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو
دوسرے مصرع کا اصل مدعا یہ تھا کہ وفاداری ایسی عمدہ صفت ہے اگر برہمن وفاداری کے ساتھ ساری عمر بت خانہ میں نباہ دے تو اس کے ساتھ وہ برتاؤ کرنا چاہئے جو اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کے مسلمان کے ساتھ کرنا زیبا ہے۔ اس مطلب کو یوں ادا کیا گیا ہے کہ اگر وہ بت خانہ میں مرے تو اس کو کعبہ میں دفن کرنا چاہئے۔
جو خوبی اس عنوان میں بیان ہے۔ وہ ظاہر ہے۔ دوسری جگہ مرزا غالب کہتے ہیں:
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
دوسرے مصرع میں بطور کنایہ کے ”خوف معلوم ہوا“ کی جگہ ”گھر یاد آیا“ کہا گیا ہے کیونکہ جنگل میں خوف معلوم ہونے کو گھر یاد آنا لازم ہے اور چونکہ اس میں صنعت ایہام بھی ملحوظ رکھی گئی ہے۔ اس لئے شعر میں اور زیادہ لطف پیدا ہو گیا ہے یعنی اس میں یہ معنی بھی نکلتے ہیں کہ ہمارا گھر اس قدر ویران ہے کہ دشت کو دیکھ کر گھر یاد آتا ہے۔
مرزاً غالب# کا فارسی شعر ہے:
ہوا مخالف و شب تار و بحر طوفاں خیز
گستہ لنگر کشی و ناخدا خفت ست
اس شعر میں اپنی مشکلات اور سختیوں کو بطور تمثیل کے بیان کیا گیا ہے۔ جس حالت کو شاعر نے اس عنوان سے بیان کیا ہے ، وہ کچھ ہی کیوں نہ ہو اگر اس کو صاف اور سیدھی طور پر جیسی کہ وہ ہے بیان کیا جائے تو وہ ہرگز دو مصرعوں میں نہیں سما سکتی اور باوجود اس کے جس ہیبت ناک صورت میں اس کو یہ تمثیل کا پیرایہ ظاہر کرتا ہے یہ بات ہرگز پیدا نہیں ہوسکتی۔
مرزا غالب# کا اردو شعر ہے:
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیانہ کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
اس شعر میں بھی اس وقت کو کہ آدمی نے جہاں ہوش سنبھالا اور تعلقات دنیوی میں پھنسا بطور تمثیل کے بیان کیا ہے اور اس عنوان سے بیان کی خوبی ظاہر ہے۔
بہرحال شاعر کا یہ ضروری فرض ہے کہ مجاز و استعارہ و کنایہ و تمثیل وغیرہ کے استعمال پر قدرت حاصل کرے تاکہ ہر روکھے پھیکے مضمون کو آب و تاب کے ساتھ بیان کر سکے لیکن استعارہ وغیرہ میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مجازی معنی فہم سے بعید نہ ہوں ورنہ شعر چیستاں اور معما بن جائے گا۔
مثلاً شاہ نصیر# کہتے ہیں:
چرائی چادر متہاب شب میکش نے جیحوں پر
کٹورا صبح دوڑانے لگا خورشید گردوں پر
چادر مہتاب چرانے سے چاندنی کا لطف اٹھانا اور اس سے متمتع ہونا مراد رکھا ہے جو نہایت بعید الفہم ہے جن لوگوں نے استعارہ وغیرہ کے استعمال میں مذکورہ اصول ملحوظ نہیں رکھا۔ ان کا کلام ہمیشہ نامقبول اور متروک رہا ہے۔ جیسے بدر# چاجی کے قصائد جن میں نہایت بعید الفہم استعارے استعمال کئے گئے ہیں کہیں آہوئے مادہ سے آفتاب مراد لی ہے کہیں اشک زلیخا سے کواکب کہیں اعمیٰ سے برج عقرب کہیں برگ بنفشہ سے حروف کہیں آب خشک سے پیالہ کہیں پنج دریا سے پانچ انگلیاں اور اسی طرح کہیں زمین سے آسمان اور کہیں آسمان سے زمین۔
اردو میں شعراء نے استعارہ کا استعمال زیادہ تر محاورات کے ضمن میں کیا ہے۔ کیونکہ اکثر محاورات کی بنیاد اگر غور کرکے دیکھا جائے تو استعارہ پر ہوتی ہے مثلاً جی اچٹنا اس میں جی کو ان چیزوں سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ جو سخت چیز پر لگ گر اچٹ جاتی ہیں۔ جیسے کنکر ، پتھر ، گیند وغیرہ یا مثلاً جی بٹنا اس میں جی کو ایسی چیز سے تشبیہہ دی گئی ہے جو منقسم اور متفرق ہو سکے۔
آنکھ کھلنا  دل کملانا ، غصہ بھڑکنا اور کام چلنا اور اسی طرح ہزار ہا محاورے استعارہ پر مبنی ہیں اور یہ وہ استعارے ہیں جن میں شعرا کی کارستانی کو کچھ دخل نہیں بلکہ نیچرل طور پر بغیر فکر اور تصنع کے اہل زبان کے منہ سے وقتاًفوقتاً نکل کر زبان کا جزو بن گئے ہیں۔ کنایہ بھی زیادہ تر محاورات ہی کی ضمن میں استعمال ہوا ہے مگر اردو کے شعراء نے تمثیل کو بہت کم برتا ہے البتہ نئی طرز کی شاعری میں اس کا کچھ کچھ رواج ہو چلا ہے اور ضرورت نے لوگوں کو اس کے برتنے پر مجبور کیا ہے چونکہ اس موقع پر استعارہ کی تقریب سے محاورہ کا ذکر آ گیا ہے۔
اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ محاورہ کے متعلق چند ضروری باتیں بیان کی جائیں۔
محاورہ لغت میں مطلقاً بات چیت کرنے کو کہتے ہیں۔ خواہ وہ بات چیت اہل زبان کے روزمرہ کے موافق ہو خواہ مخالف۔ لیکن اصطلاح میں خاص اہل زبان کے روزمرہ یا بول چال یا اسلوب بیان کا نام محاورہ ہے۔ پس ضرور ہے محاورہ تقریباً ہمیشہ دو یا دو سے زیادہ الفاظ میں پایا جائے۔
کیونکہ منفرد الفاظ کو روزمرہ یا بول چال یا اسلوب بیان نہیں کہا جاتا۔ بخلاف لغت کے کہ اس کا اطلاق ہمیشہ مفرد الفاظ پر یا ایسے الفاظ پر جو بہ منزلہ مفرد کے ہیں کیا جاتا ہے۔
 مثلاً پانچ اور سات دو لفظ ہیں جن پر الگ الگ لغت کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ مگر ان میں سے ہر ایک کو محاورہ نہیں کہا جائے گا۔ بلکہ دونوں کو ملا کر پان سات بولیں گے تب محاورہ کہا جائے گا۔
یہ بھی ضرور ہے کہ وہ ترکیب جس پر محاورہ کا اطلاق کیا جائے۔ قیاسی نہ ہو بلکہ معلوم ہو کہ اہل زبان اس کو اس طرح استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً اگر پان سات یا سات آٹھ یا آٹھ سات قیاس کرتے چھ آٹھ یا آٹھ چھ یا سات نو بولا جائے گا۔ تو اس کو محاورہ نہیں کہتے۔ کیونکہ اہل زبان کبھی اس طرح نہیں بولتے یا مثلاً بلاناغہ پر قیاس کرکے اس کی جگہ بے ناغہ  ہر روز کی جگہ ہر دن ، روز روز کی جگہ دن دن یا آئے دن کی جگہ آئے روز بولنا۔
ان میں سے کسی کو محاورہ نہیں کہا جائے گا۔ کیونکہ یہ الفاظ اس طرح اہل زبان کی بول چال میں کبھی نہیں آتے۔
کبھی محارہ کا اطلاق خاص کر ان فعال پر کیا جاتا ہے جو کسی اسم کے ساتھ مل کر اپنے حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ مجازی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے اتارنا: اس کے حقیقی معنی کسی جسم کو اوپر سے نیچے لانے کے ہیں۔ مثلاً گھوڑے سے سوار کو اتارنا۔
کھونٹی سے کپڑا اتارنا ، کوٹھے پر سے پلنگ اتارنا۔ لیکن ان میں سے کسی پر محاورہ کے یہ دوسرے معنی صادق نہیں آتے ، کیونکہ ان سب مثالوں میں اتارنا اپنے حقیقی معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ ہاں نقشہ اتارنا ، دل سے اتارنا۔ دل میں اتارنا ، ہاتھ اتارنا ، پہنچا اتارنا یہ سب محاورے کہلائیں گے۔ کیونکہ ان سب مثالوں میں اتارنے کا اطلاق مجازی معنوں پر کیا گیا ہے یا مثلاً کھانا: اس کے حقیقی معنی کسی چیز کو دانتوں سے چبا کر یا بغیر چبائے حلق سے اتارنے کے ہیں۔
مثلاً روٹی کھانا ، دوا کھانا ، افیم کھانا وغیرہ ، لیکن ان میں سے کسی کو دوسرے معنی کے لحاظ سے محاورہ نہیں کہا جائے گا۔ کیونکہ ان سب مثالوں میں کھانا اپنے حقیقی معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ ہاں غم کھانا ، قسم کھانا ، دھوکا کھانا پچھاڑیں کھانا ، ٹھوکر کھانا وغیرہ یہ سب محاورے کہلائیں گے۔
محاورہ کے جو معنی ہم نے اول بیان کئے ہیں وہ عام یعنی دوسرے معنوں میں بھی شامل ہیں لیکن دوسرے معنی پہلے معنی سے خاص ہیں۔ پس جس ترکیب کو پہلے معنوں کے لحاظ سے محاورہ کہا جائے گا۔ اس کو دوسرے معنوں کے لحاظ سے بھی محاوہ کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ ضرور نہیں کہ جس ترکیب کو پہلے معنوں کے لحاظ سے محاورہ کہا جائے اس کو دوسرے معنوں کے لحاظ سے بھی محاورہ کہا جائے۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali