Episode 40 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 40 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

اس بیان کی بے ربطی بھی ظاہر ہے کہ وزیر نے جس بادشاہ کی طرف سے نسبت کا پیغام دیا ہے اور جس کا منصب عجز و انکسار کرنے کا ہے۔ اس کی طرف سے ایسی نامعقول گیڈر بھبکیاں دیتا ہے اس کے بعد جب وزیر حسن آباد شیدا کی تقریر سن کر اپنے بادشاہ کے پاس واپس گیا ہے اور وہاں جا کر اس نے شیدا کی تقریر کا اعادہ کیا ہے تو بادشاہ حسن آباد اس کے جواب میں کہتا ہے:
ہاں کہوں جلد فوج ہو تیار
مابدولت کے لاؤ تو ہتھیار
دیکھیں تو کتنا حوصلہ ہے اسے
ہم سے عزم مقابلہ ہے اسے
لوہا دکھلانے کو یہ آیا ہے
ہم کو کیا موم کا بنایا ہے
بادشہ اس کا کیا ہے یہ کیا ہے
کثرت فوج پر یہ پھولا ہے
یہ تمام تقریر ایسی سبک اور کم وزن ہے کہ ہرگز کسی بادشاہ کے منہ سے زیب نہیں دیتی بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے کسی بادشاہ کی حمایت ظاہر کرنے کیلئے کوئی شخص اس کی نقل اتار رہا ہے۔

(جاری ہے)

پھر جب امیروں نے بادشاہ کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا ہے تو وزیر بادشاہ کی طرف شیدا کے پاس یہ مصالحت آمیز پیغام لے کر چلا ہے۔
یہ تعلیٰ جو آپ کرتے ہیں
اتنا جرات کا دم جو بھرتے ہیں
سابقہ ہو تو حال کھل جائے
ادھر آؤ تو حال کھل جائے
گو کہ میں تم سا خود پسند نہیں
سینکڑوں سے بھی پر میں بند نہیں
سر بھی جائے تو یہ قدم نہ ہٹیں
ٹل بھی جائے زمین تو ہم نہ ہٹیں
یاں تو رستم سے بھی نہیں ڈرتے
شیر سے بھی جری نہیں ڈرتے
کیا کروں یاس ہے شریعت کا
دھیان ہے دوستی و الفت کا
شرم ہے میہماں کے آنے کی
رسم بھی ہے یہی زمانے کی
ورنہ سیر آپ کو دکھا دیتا
سب گھمنڈ آپ کا مٹا دیتا
یہاں تک خود بادشاہ کا پیغام بادشاہ کی طرف ہے ان تمام اشعار میں الفاظ و محاورات کی لغزشوں سے ہم کچھ بحث نہیں کرتے البتہ ہم کو یہ دکھانا منظور ہے کہ کلام بالکل متقضائے حال کے برخلاف ایزاد کیا گیا ہے اسی داستان پر کچھ موقوف نہیں ہے اس مثنوی میں کہیں بھی اس بات کا خیال نہیں کیا گیا کہ جیسا موقع ہو ویسی گفتگو کی جائے۔
اس داستان سے پہلے جہاں بادشاہ حسن آباد اور اس کی بڑھیا ملکہ بیٹیوں کے عقد کے باب میں باہم مشورے کر رہے ہیں۔ شاعر اس طرح بیان کرتا ہے:
ایک دن بادشاہ حسن آباد
اندرون محل تھا با دل شاد
اپنی بی بی سے گرم خلوت تھا
محوراحت تھا مست عشرت تھا
اس پری رو نے تخلیہ پا کر
عرض کی اختلاط میں آکر
لڑکیوں کا نہیں کچھ آپ کو دھیان
ہو چکی ہیں سلامتی سے جوان
اور باتوں کا تو نہیں کچھ غم
ہاں مگر یہ خیال ہے ہر دم
کہ میں بیٹھی ہوئی ہوں پابر رکاب
طاقت جسم دے چکی ہے جواب
سب مہیا ہیں کوچ کے ساماں
اور دو چار دن کی ہوں مہماں
کچھ ہی دن اب سفر میں باقی ہیں
ان کا سہرا تو دیکھ لیتی میں
سن کے کہنے لگا وہ عالی جاہ
تیرے کہنے ہی تک ہے کیا اے ماہ
بخدا خود خیال ہے مجھ کو!
جستجو بھی کمال ہے مجھ کو
مجھ کو غیروں میں تو قبول نہیں
ان سے جزرنج کچھ حصول نہیں
یہ بھی بالفرض اگر کروں منظور
تو یہ مجھ سے کبھی نہ ہو اے حور
اس تقریر میں بھی کچھ الفاظ بے محل اور بے موقع استعمال ہوتے ہیں بادشاہ خود شیخ فانی ہے اور اس کی ملکہ بھی عجوزہ سال خورد ہے وہ خود جا بجا کہتی ہے کہ میں پادر رکاب بیٹھی ہوں اور چناں ہوں اور چنیں ہوں۔
باوجود اس کے ایسے الفاظ استعمال کرنے کہ اپنی بی بی سے گرم خلوت تھا یا محو راحت اور مست عشرت تھا یا اس پری کی رو یعنی بڑھیا نے اختلاط میں آکر عرض کیا یا بادشاہ کا اپنی بڑھیا ملکہ کو کہیں اسے ماہ اور کہیں اسے حور کہنا یہ سب باتیں مقتضائے حال کے خلاف ہیں۔
ایک جگہ جب کہ شہزادہ کو غش آ گیا ہے اور یہی بڑھیا ملکہ جو اس کی ماں ہے محل کے اندر گھبرا رہی ہے اور بار بار اس کی خبر باہر سے منگواتی ہے۔
ایک خواص باہر سے یہ کہتی آئی ہے:
لوگوں بتلاؤ تو کہاں ہیں حضور
کہہ دو کیا بیٹھی کرتی ہو اے حور
پھر تھوڑی دیر بعد اور نوکریں آکر یہ کہتی ہے:
دوڑ سی دوڑ ہو رہی ہے حضور
باہر اندر یہی ہے ذکر اے حور
دونوں جگہ ایک مصرع میں ملکہ سال خورود کو حضور اور دوسرے مصرع میں اسے حور کہنا اور پھر نوکروں کا اور وہ بھی نہایت تشویش کی حالت میں کہنا بالکل مقتضائے حال کے خلاف ہے۔
نواب مرزا شوق لکھنوی نے جو چار مثنویاں یعنی بہار عشق ، زہر عشق ، لذت عشق اور فریب عشق لکھی ہیں۔ اگرچہ ان کو روزمرہ اور محاورہ کی صفائی ، قافیوں کی نشست ، ترکیبوں کی چستی اور مصرعوں کی برجستگی کے لحاظ سے میں تمام اردو کی موجودہ مثنویوں سے بہتر سمجھتا ہوں لیکن قطع نظر اس کے وہ حد سے زیادہ غیر اخلاقی اور خلاف تہذیب ہیں ان میں مقتضائے حال کے موافق ایزاد کلام کا بہت کم لحاظ کیا گیا ہے۔
مثلاً لذت عشق اس موقع پر جہاں بادشاہ زادہ اور وزیر زادہ اپنے ساتھ والوں سے بچھڑ کر کسی باغ میں دم لینے کو ٹھہرتے ہیں اور رستے کی تکان سے ایک چبوترہ پر پڑ کے سو رہے ہیں وہاں اس شہر کی شہزادی جو باغ کی مالک ہے اور اس کے ساتھ وزیر زادی دونوں باغ کی سیر کو آئیں ہیں اور ان دونوں شہزادوں کے سر پر جا کر کھڑی ہوئی ہیں اور ایسے قہقہے لگائے ہیں کہ وہ جاگ اٹھے ہیں اس وقت شہزادے نے جو دیکھا کہ شام ہو گئی ہے وہ وہاں سے چلنے کا ارادہ کرتا ہے اور بادشاہ زادی اس طرح گفتگو کرتی ہے:
کہا ہنس کے ملکہ نے اے مہ جبیں
مجھے تیری فرقت گوارا نہیں
مرا کہنا اس وقت کا مان لے
نہیں جان دے دے دوں گی یہ جان لے
خدارا نہ ٹالو مری بات کو
یہیں آج رہ جاؤ اب رات کو
اس کے بعد وزیر زادہ ملکہ سے کہتا ہے کہ اگر آپ میری ایک عرض قبول کر لیں تو میں نہ قدموں سے جدا ہوں گا اور نہ شاہزادہ یہاں سے جائے گا اس کے بعد کہتا ہے:
کھڑی ہے جو یہ پاس دخت وزیر
حقیقت میں ہے یہ نہایت شریر
انیلا پن اس کا مجھے بھا گیا
کروں کیا دل اس پر مرا آ گیا
مجھے اس کو دے دیجئے گر حضور
تو ساری حرامزادگی ہو جائے دور
یہ سن کر دخت وزیر ، وزیر زادہ سے کہتی ہے:
سمجھنا نہ دل میں ذرا مجھ کو نیک
سناؤ گی سو گر کہے گا تو ایک
نہ ملکہ کی باتوں پہ مغرور ہو!
ہوا کھا ذرا چل چخے دور ہو!
ذرا ہوش کی لے تو اپنے خبر
میں جوتی نہ ماروں تیرے نام پر

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali