Episode 9 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 9 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

دوسری شرط کائنات کا مطالعہ کرنا:
اگرچہ قوت متخیلہ اس حالت میں بھی جب کہ شاعر کی معلومات کا دائرہ نہایت تنگ اور محدود ہو اسی معمولی ذخیرہ سے کچھ نہ کچھ نتائج نکال سکتی ہے لیکن شاعری میں کمال حاصل کرنے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ نسخہ کائنات اور اس میں خاص کر نسخہء فطرت انسانی کا مطالعہ نہایت غور سے کیا جائے۔ انسان کی مختلف حالتیں جو زندگی میں اس کو پیش آتی ہیں ان کو تعمق کی نگاہ سے دیکھنا۔
وہ امور مشاہدہ کرنے جو عام آنکھوں سے مخفی ہوں اور فکر میں مشق و مہارت سے یہ طاقت پیدا کرنی کہ وہ مختلف چیزوں سے متحد اور متحد چیزوں سے مختلف خاصیتیں فوراً اخذ کر سکے اور اس سرمایہ کو اپنی یاد کے خزانہ میں محفوظ رکھے۔
مختلف چیزوں سے متحد خاصیت اخذ کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے مرزا غالب# کہتے ہیں#
بوئے گل‘ نالہ دل‘ دود چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا
دوسری مثال:
بگدرز سعادت و نحوست کہ مرا
ناہید بہ غمزہ کشت و مریخ بہ قہر
ناہید یعنی زہرہ کو سعد اور مریخ کو نحس مانا گیا ہے۔

(جاری ہے)

پس دونوں باعتبار ذات اور صفات کے مختلف ہیں۔ مگر شاعر کہتا ہے کہ ان کی سعادت و نحوست کے اختلاف کو رہنے دو۔ مجھ پر تو ان کا اثر یکساں ہی ہوتا ہے مریخ قہر سے قتل کرتا ہے تو زہرہ غمزہ سے اور متحد اشیاء سے مختلف استنباط کرنے کی مثال میر ممنون کا یہ شعر ہے:
تفاوت قامت یار و قیامت میں ہے کیا ممنون
وہی فتنہ ہے لیکن یاں ذرا سا نچے میں ڈھلتا ہے
یعنی قامت معشوق اور قیامت فتنہ ہونے میں تو دونوں متحد ہیں مگر فرق یہ ہے کہ فتنہ قیامت سانچے میں ڈھلا ہوا نہیں ہے اور قامت معشوق سانچے میں ڈھلا ہوا ہے غرضیکہ یہ تمام باتیں جو اوپر ذکر کی گئیں ایسی ضروری ہیں کہ کوئی شاعر ان سے استغنا کا دعویٰ نہیں کر سکتا کیونکہ ان کے بغیر قوت متخیلہ کو اپنی اصلی غذا جس سے وہ نشوونما پاتی ہے نہیں پہنچتی بلکہ اس کی طاقت آدھی سے بھی کم رہ جاتی ہے۔
قوت متخیلہ کوئی شے بغیر مادہ کے پیدا نہیں کر سکتی بلکہ جو مصالح اس کو خارج سے ملتا ہے اس میں وہ اپنا تصرف کرکے ایک نئی شکل تراش لیتی ہے جتنے بڑے بڑے نامور شاعر دنیا میں گزرے ہیں وہ کائنات یا فطرت انسانی کے مطالعہ میں ضرور مستغرق رہے ہیں جب رفتہ رفتہ اس مطالعہ کی عادت ہو جاتی ہے تو ہر ایک چیز کو غور سے دیکھنے کا ملکہ ہو جاتا ہے اور مشاہدوں کے خزانے گنجینہ خیال میں خود بخود جمع ہونے لگتے ہیں۔
سروالٹر سکاٹ کی شاعری
سروالٹر سکاٹ جو انگلستان کا ایک مشہور شاعر ہے۔ اس کی نسبت لکھا ہے کہ اس کی خاص خاص نظموں میں دو خاصتیں ایسی ہیں جن کو سب نے تسلیم کیا ہے۔ ایک اصلیت سے تجاوز نہ کرنا۔ دوسرے ایک ایک مطلب کو نئے نئے اسلوب سے ادا کرنا جہاں کہیں اس نے کسی باغ یا جنگل یا پہاڑ کی فضا کا بیان کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع کی روح میں جو خاصیتیں تھیں سروالٹر نے وہ سب انتخاب کر لی تھیں۔
سروالٹر کی نظم پڑھ کر آنکھوں کے سامنے بالکل وہی سماں بندھ جاتا ہے جو پہلے خود اس موقع کے دیکھنے سے معلوم ہوا تھا اور اب دھیان سے اتر گیا تھا۔ ظاہراً اس نے ان بیانات میں قوت متخیلہ پر ایسا بھروسہ نہیں کیا کہ اصلیت کو چھوڑ کر محض تخیل ہی پر قناعت کر لیتا۔ کہتے ہیں کہ جب وہ رو کئی کا قصہ لکھ رہا تھا ایک شخص نے اس کو دیکھا کہ پاکٹ بک میں چھوٹے چھوٹے خود رو پھول پتے اور میوے جو وہاں اگ رہے تھے ان کو نوٹ کر رہا ہے۔
ایک دوست نے اس سے کہا کہ اس درد سر سے کیا فائدہ؟ کیا عام پھول کافی نہ تھے جو چھوٹے چھوٹے پھولوں کو ملاحظہ کرنے کی ضرورت پڑی۔ سروالٹر نے کہا کہ تمام کائنات میں دو چیزیں بھی ایسی نہیں جو بالکل یکساں ہوں۔ پس جو شخص محض اپنے تخیل پر بھروسہ کرکے مذکورہ بالا مطالعہ سے چشم پوشی یا غفلت کرے گا اس کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ اس کے دماغ میں چند معمولی تشبیہوں یا تمثیلوں کا ایک نہایت محدود ذخیرہ ہے جن کو برتتے برتتے خود اس کا جی اکتا جائے گا اور سامعین کو سنتے سنتے نفرت ہو جائے گی۔
جو شخص شعر کی ترتیب میں اصلیت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور محض ہوا پر اپنی عمارت کی بنیاد نہیں رکھتا وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ ایک مطلب کو جتنے اسلوبوں میں چاہے بیان کرے اس کا تخیل اسی قدر وسیع ہوگا جس قدر کہ اس کا مطالعہ وسیع ہے۔
تیسری شرط تفحص الفاظ
کائنات کے مطالعہ کی عادت ڈالنے کے بعد دوسرا نہایت ضروری مطالعہ یا تفحص ان الفاظ کا ہے جن کے ذریعہ سے شاعر کو اپنے خیالات مخاطب کے روبرو پیش کرنے ہیں۔
یہ دوسرا مطالعہ بھی ویسا ہی ضروری اور اہم ہے جیسا کہ پہلا۔ شعر کی ترتیب کے وقت اول متناسب الفاظ کا انتخاب کرنا اور پھر ان کو ایسے طور پر ترتیب دینا کہ شعر سے معنی مقصود کے سمجھنے میں مخاطب کو کچھ تردد باقی نہ رہے۔ اس خیال کی تصویر ہو بہو آنکھوں کے سامنے پھر جائے اور باوجود اس کے ترتیب میں ایک جادو مخفی ہو جو مخاطب کر مسخر کرے۔ اس مرحلہ کا طے کرنا جس قدر دشوار ہے اسی قدر ضروری بھی ہے۔
کیونکہ اگر شعر میں یہ بات نہیں ہے تو اس کے کہنے سے نہ کہنا بہتر ہے۔ اگرچہ شاعر کے متخیلہ کو الفاظ کی ترتیب میں بھی ویسا ہی دخل ہے جیسا کہ خیالات کی ترتیب میں۔ لیکن اگر شاعر زبان کے ضروری حصہ پر حاوی نہیں ہے اور ترتیب شعر کے وقت صبر و استقلال کے ساتھ ساتھ الفاظ کا تتبع اور تفحص نہیں کرتا تو محض قوت متخیلہ کچھ کام نہیں آ سکتی۔ جن لوگوں کو یہ قدرت ہوتی ہے کہ شعر کے ذریعہ سے اپنے ہم جنسوں کے دل میں اثر پیدا کر سکتے ہیں۔
ان کو ایک ایک لفظ کی قدر و قیمت معلوم ہوتی ہے، وہ خوب جانتے ہیں کہ فلاں لفظ جمہور کے جذبات پر کیا اثر رکھتا ہے اور اس کے اختیار کرنے پر ترک کرنے سے کیا خاصیت بیان میں پیدا ہوتی ہے۔ نظم الفاظ میں اگر بال برابر بھی کمی رہ جاتی ہے تو وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ ہمارے شعر میں کونسی بات کی کسر ہے جس طرح ناقص سانچے میں ڈھلی ہوئی چیز فوراً چغلی کھاتی ہے۔
اسی طرح ان کے شعر میں اگر تاؤ بھاؤ میں بھی فرق رہ جاتا ہے۔ معاً ان کی نظر میں کھٹک جاتا ہے۔ اگرچہ وزن اور قافیہ کی قید ناقص اور کامل دونوں قسم کے شاعروں کو اکثر اوقات ایسے لفظ کے استعمال پر مجبور کرتی ہے جو خیال کو بخوبی ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں مگر فرق صرف اس قدر ہے کہ ناقص شاعر تھوڑی سی جستجو کے بعد اسی لفظ پر قناعت کر لیتا ہے اور کامل جب تک زبان کے تمام کنوئیں نہیں جھانک لیتا تب تک اس لفظ پر قانع نہیں ہوتا۔
شاعر کو جب تک الفاظ پر کامل حکومت اور ان کی تلاش و جستجو میں نہایت صبر و استقلال حاصل نہ ہو ممکن نہیں کہ وہ جمہور کے دلوں پر بہ استقلال حکومت کر سکے۔ ایک حکیم شاعر کا قول ہے کہ ”شعر شاعر کے دماغ سے ہتھیار بند نہیں کودتا بلکہ خیال کی ابتدائی ناہمواری سے لے کر انتہا کی تنقیح و تہذیب تک بہت سے مرحلے طے کرنے ہوتے ہیں جو کہ اب سامعین کو شاید محسوس نہ ہوں لیکن شاعر کو ضرور پیش آتے ہیں۔
اس بحث کے متعلق چند امور ہیں جوکہ فکر شعر کے وقت ضرور ملحوظ رکھنا چاہئیں اول خیالات کو صبر و تحمل کے ساتھ الفاظ کا لباس پہنانا ، پھر ان کو جانچنا اور تولنا اور ادائے معنی کے لحاظ سے ان میں جو قصور رہ جائے ، اس کو رفع کرنا۔ الفاظ کو ایسی ترتیب سے منظم کرنا کہ صورتہً اگرچہ نثر سے متمیز ہو مگر معنی اسی قدر ادا کرے جیسے کہ نثر میں ادا ہو سکتے۔ شاعر بشرطیکہ شاعر ہو۔ اول تو وہ ان باتوں کا لحاظ وقت پر ضرور کرتا ہے اگر کسی وجہ سے بالفعل اس کو زیادہ غور کرنے کا موقع نہیں ملتا تو پھر جب کبھی وہ اپنے کلام کو اطمینان کے وقت دیکھتا ہے۔ اس کو ضرور کاٹ چھانٹ کرنی پڑتی ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر بڑے بڑے شاعروں کا کلام مختلف الفاظ کے ساتھ پایا جاتا ہے۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali