Episode 29 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 29 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

اہل یورپ جو آج لٹریچر میں بھی مثل علوم و فنون و صنائع کے تمام دنیا سے فائق ہیں اس کا سبب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ دنیا میں کوئی مشہور قوم ایسی نہیں جس کی شاعری اور انشا کا لب لباب ان کی زبانوں میں موجود نہ ہو۔ پس ہم کو بھی چاہئے کہ جس قوم اور جس زبان کے خیالات ہم کو بہم پہنچیں ان سے جہاں تک ممکن ہو فائدہ اٹھائیں اور صرف انہیں چند فرسودہ اور بوسیدہ خیالات پر جو صدیوں سے برابر بندھتے چلے آتے ہیں قناعت کرکے نہ بیٹھ رہیں کیونکہ علم و ہنر میں قناعت ویسی ہی قابل ملامت ہے جیسی مال و دولت میں حرص۔

-4 جس طرح ہماری غزل کے مضامین محدود ہیں اسی طرح اس کی زبان بھی ایک خاص دائرہ سے باہر نہیں نکل سکتی۔ کیوں کہ چند معمولی مضمون جب صدیوں تک برابر رٹے جاتے ہیں تو زبان کا ایک خاص حصہ ان کے ساتھ مخصوص ہو جاتا ہے جو کہ زبان پر بار بار آنے اور کانوں سے بار بار سننے کے سبب زیادہ مانوس اور گوارا ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

یہاں تک کہ اگر ان الفاظ کی جگہ دوسرے الفاظ جو انہیں کے ہم معنی ہیں۔

استعمال کئے جائیں تو غریب اور اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔
عشقیہ مضامین ہمارے ہاں کچھ غزل ہی کے ساتھ خصوصیت نہیں رکھتے بلکہ قصیدے اور مثنوی میں بھی برابر انہیں کا عمل دخل رہا ہے۔ فارسی اور اردو زبانوں میں چند کے سوا کل مثنویاں عشقیہ مضامین پر لکھی گئی ہیں اسی طرح قصائد کی تمہیدوں میں بھی زیادہ تر یہی دکھڑا رویا گیا ہے۔ واسوخت تو عشق کی پسلی ہی سے پیدا ہوا ہے لیکن چونکہ قصیدہ ، مثنوی اور واسوخت کا میدان وسیع ہے۔
لہٰذا ان میں غریب اور اجنبی الفاظ کی بہت کچھ کھپت ہو سکتی ہے۔ بخلاف غزل کے یہاں ایک لفظ بھی غیر مانوس ہو تو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔ گلاب کے تختہ میں کانٹے بھی پھولوں کے ساتھ نبھ جاتے ہیں مگر گلدستہ میں ایک کانٹا بھی کھٹکتا ہے۔ 
اسی واسطے جن بزرگوں نے غزل کی بنیاد تصوف اور اخلاق پر رکھی ہے انہیں بھی وہی زبان اختیار کرنی پڑی ہے جو غزل میں عموماً برتی جاتی ہے۔
عشقیہ مضامین میں جو الفاظ حقیقی معنوں میں اطلاق کئے جاتے ہیں انہیں الفاظ کو ان بزرگوں نے مجازو استعارہ کے طور پر استعمال کیا ہے اور رمز و کنایہ میں اپنے اعلیٰ خیالات ظاہر کئے ہیں۔ پس غزل میں ضرور ہے کہ بہ نسبت اور اصناف کے سادگی اور صفائی کا زیادہ خیال رکھا جائے۔ آج تک فارسی یا اردو میں جن لوگوں کی غزل مقبول ہوئی وہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اس اصول کو نصب العین بنا رکھا ہے اردو میں ولی سے لے کر انشا اور مصحفی تک عموماً سب کی غزل میں صفائی ، سادگی ، روزمرہ کی پابندی ، بیان میں گھلاوٹ اور زبان میں لچک پائی جاتی ہے ۔
ان کے بعد دلی میں ممنون ، غالب ، مومن اور شیفتہ وغیرہ کے ہاں فارسی ترکیبوں نے اردو غزل میں بلاشک زیادہ دخل پایا۔ مگر یہ لوگ بھی اعلیٰ درجہ کا شعر اسی کو سمجھتے تھے جس میں پاکیزہ اور بلند خیال ٹھیٹ اردو کے محاورہ میں ادا ہو جاتا تھا۔ ان لوگوں کا یہ خیال تھا کہ ”غزل میں اعلیٰ درجہ کا شعر ایک یا دو سے زیادہ نہیں نکل سکتا باقی بھرتی ہوتی ہے۔
“ اگلے شعراء شترگربہ کی کچھ پروا نہ کرتے تھے۔ ایک آدھ شعر اچھا نکل آیا۔ باقی کم وزن اور پھس پھسے شعروں سے غزل کا نصاب پورا کر دیا ہم لوگ یہ کہتے ہیں کہ اپنے بھرتی کے اشعار کو فارسی ترکیبوں سے چست کر دیتے ہیں۔ تاکہ بادی النظر میں حقیر نہ معلوم ہوں۔
 بات یہ ہے کہ لوگ انہیں معمولی خیالات کو مدت سے مختلف شکلوں میں باندھتے چلے آتے تھے یہ بہت کم باندھتے تھے بلکہ ہر شعر میں جدت پیدا کرنی چاہتے تھے اس لئے اردو روزمرہ کا سر رشتہ اکثر ہاتھ سے جاتا رہتا تھا بایں ہمہ غزلیت کی شان ان کے تمام کلام میں پائی جاتی ہے اور صاف محاورہ اور بلند اشعار ان کے ہاں بھی نسبتاً اتنے ہی نکل سکتے ہیں جتنے کہ قدماء کی غزلیات میں۔
ذوق کی غزل میں عموماً زبان کا چٹخارہ اپنے معاصرین کے کلام سے زیادہ ہے مگر وہ بھی جہاں مضمون آفرینی کرتے ہیں ، صفائی سے بہت دور جا پڑتے ہیں۔
 ظفر کا تمام دیوان زبان کی صفائی اور روزمرہ کی خوبی سے اول سے آخر تک یکساں ہے۔ لیکن اس میں تازگی خیالات بہت کم پائی جاتی ہے۔ داغ کی غزل میں باوجود زبان کی صفائی روزمرہ کی پابندی اور محاورہ کی بہتات کے طرز میں ایک شوخی اور تیکھا پن ہے جو اسی شخص کا حصہ ہے مگر نہایت تعجب ہے کہ لکھنوٴ میں متاخرین نے سادگی اور صفائی کا غزل میں بہت کم خیال رکھا ہے باوجودیکہ زبان کے لحاظ سے دلی اور لکھنوٴ میں کوئی معتدبہ فرق نہیں معلوم ہوتا اس کے شوا شجاع الدولہ کے زمانہ میں سعادت علی خاں کے وقت تک اردو کے تمام نامور شعراء کا جمگھٹا لکھنوٴ ہی میں رہا یہاں تک کہ میر ، سودا ، سوز ، جرأت ، مصحفی اور انشاء وغیرہ اخیر دم تک وہیں رہے اور وہیں مرے مگر متاخرین کی غزل میں ان کے طرز بیان کا اثر بہت کم پایا جاتا ہے۔
 
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب دلی بگڑ چکی اور لکھنوٴ سے زمانہ موافق ہوا اور دلی کے اکثر شریف خاندان اور ایک آدھ کے سوا تمام نامور شعراء لکھنوٴ ہی میں جا رہے اور دولت و ثروت کے ساتھ علوم قدیمہ نے بھی ایک خاص حد تک ترقی کی اس وقت نیچرل طور پر اہل لکھنوٴ کو ضرور یہ خیال پیدا ہوا ہو گا کہ جس طرح دولت اور منطق و فلسفہ وغیرہ میں ہم کو فوفیت ثابت کرنے کیلئے ضرور تھا کہ اپنی اور دلی کی زبان میں کوئی امرمابہ الامتیاز پیدا کرتے چونکہ منطق و فلسفہ و طب و علم کلام وغیرہ کی عمارت زیادہ تھی۔
خود بخود طبیعتیں اس بات کی مقتضی ہوئیں کہ بول چال میں ہندی الفاظ رفتہ رفتہ ترک اور ان کی جگہ عربی الفاظ کثرت سے داخل ہونے لگیں۔
 یہاں تک کہ سیدھی سادی اردو امراء اور اہل علم کی سوسائٹی میں متروک ہی نہ ہو گئی۔ بلکہ جیسا ثقات سے سنا گیا ہے معیوب اور بازاریوں کی گفتگو سمجھی جانے لگی اور یہی رنگ رفتہ رفتہ نظم و نثر پر بھی غالب آ گیا۔
نظم میں جرأت اور ناسخ کے دیوان کا اور نثر میں باغ و بہار اور فسانہ عجائب کا مقابلہ کرنے سے اس کا کافی ثبوت ملتا ہے با ایں ہمہ انصاف یہ ہے کہ مرثیہ اور مثنوی میں خاص خاص شخصوں پر (جیسا کہ آگے بیان کیا جائے گا) زمانہ کے اقتضا نے کچھ اثر نہیں کیا۔ انہوں نے زبان اصلی جوہر کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بلکہ اس کو بزرگوں کا تبرک سمجھ کر اس انقلاب کے زمانہ میں نہایت احتیاط سے محفوظ رکھا۔
بہرحال غزل میں زبان اور بیان کی صفائی کی غرض سے چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
-1 ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ غزل کو محض عشقیات میں اور عشقیات کو محض ہو اوہوس کے مضامین میں محدود رکھنا ٹھیک نہیں ہے بلکہ اس کو ہر قسم کے جذبات کا آرگن بنانا چاہئے یہ بھی ظاہر ہے کہ غزل میں معمولی مضامین باندھتے بندھتے اس کی ایک خاص زبان قرار پا گئی ہے اور وہ اس قدر کانوں میں رچ گئی ہے کہ اگر دفعتہً اس میں کثرت سے غیر مانوس اور اجنبی ترکیبیں اور اسلوب بیان داخل ہو جائیں تو غزل ایسی ہی گٹھل ہو جائے جیسی کہ بعض شعراء کی غزل عربی اور فارسی کے غیر مانوس الفاظ اور ترکیبیں اختیار کرنے سے ہو گئی ہے حالانکہ غزل کو باعتبار مضامین کے وسعت دینا بظاہر اس بات کا مقتضی ہے کہ زبان اور طریقہ بیان کو بھی وسعت دی جائے پس ضروری ہے کہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ طریقہ بیان میں دفعتہً کوئی بڑی تبدیلی بھی واقع نہ ہو اور باوجود اِس کے غزل میں ہر قسم کے خیالات عمدگی کے ساتھ ادا ہو سکیں۔
آج کل دیکھا جاتا ہے کہ شعر کے لباس میں اکثر نئے خیالات جو ہمارے اگلے شعراء نے کبھی نہیں باندھے تھے۔ ظاہر کئے جاتے ہیں چونکہ وہ اس خاص زبان میں جو شعرا کی کثرت استعمال سے کانوں میں رچ گئی ہے ادا نہیں کئے جاتے۔ بلکہ نئے خیالات جن الفاظ میں براہ راست ظاہر ہونا چاہتے ہیں۔ انہیں الفاظ میں ظاہر کر دیئے جاتے ہیں اس لئے وہ مقبول خاص و عام نہیں ہوتے۔
لیکن نئی طرز کی عام شاعری اگر سردست مقبول نہ ہو تو کچھ ہرج نہیں۔
 جب لوگوں کے مذاق رفتہ رفتہ اس سے آشنا ہو جائیں گے اور سچی باتوں کی لذت اور حلاوت سے واقف ہوں گے۔ اس وقت وہ خود بخود مقبول ہو جائے گی۔ البتہ غزل کو ابتدا ہی سے جہاں تک ممکن ہو عام پسند اور مضبوع طبائع بنانا ضروری ہے کیونکہ یہی ایسی صفت ہے جو خاص و عام کی زبان پر جاری ہوتی ہے اسی کے اشعار ہر شخص کو بآسانی یاد رہ سکتے ہیں اور یہی تمام خوشی کے جلسوں اور سماع کی مجلسوں اور یاروں کی صحبتوں میں گائی اور پڑھی جاتی ہے۔
پس ملک میں نیچرل شاعری کو پھیلانے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ غزل میں ہر قسم کے لطیف و پاکیزہ خیالات بیان کئے جائیں۔ اس کو تمام انسانی جذبات کے ظاہر کرنے کا آلہ بنایا اور باوجود اس کے اس کو ایسے لباس میں ظاہر کیا جائے جو بادی النظر میں اجنبی اور غیر مانوس نہ ہو۔
سب سے بڑی دلیل اس بات کی  کہ نئے اور اعلیٰ سے اعلیٰ خیالات بھی اوّل سے اوّل اسی روزمرہ میں ادا ہونے چاہئیں جس میں پرانے اور پست خیالات ادا کئے جاتے تھے  یہ ہے کہ کلام الٰہی میں تمام روحانی اور اخلاقی باتیں ویسے ہی محاورات و تشبیہات و استعارات و تمثیلات میں بیان کی گئی ہیں جن میں شعرائے جاہلیت عشقیات و خمریات اور تفاخرو و مدح و ذم وغیرہ کے مضامین بیان کرتے تھے۔
یہ ممکن ہے کہ کسی قوم کے خیالات میں دفعتہً ایک نمایاں ترقی اور وسعت پیدا ہو جائے مگر زبان میں دفعتہً پیدا نہیں ہو سکتی۔ بلکہ نامعلوم طور پر بیان کے اسلوب آہستہ آہستہ اضافہ کئے جاتے ہیں اور ان کو رفتہ رفتہ پبلک کے کانوں سے مانوس کیا جاتا ہے اور قدیم اسلوب جو کانوں میں رچ گئے ہیں ان کو بدستور قائم و برقرار رکھا جاتا ہے یہاں تک کہ اگر علم کی ترقی سے بہت سے قدیم شاعرانہ خیالات محض غلط اور بے بنیاد ثابت ہو جائیں تو بھی جن الفاظ کے ذریعہ سے وہ خیالات ظاہر کئے جاتے ہیں۔
وہ الفاظ ترک نہیں کئے جاتے۔
 فرض کرو کہ آسمان کا وجود اور اس کا گردش کرنا ،زمین کا ساکن ہونا پانی اور ہوا کا بسیط ہونا ، سیمرغ اور دیوو پری کا وجود ہونا اور اسی قسم کی اور بہت سی باتیں علم انسان کی ترقی سے غلط ثابت ہو جائیں تو بھی شاعر کا یہ کام نہیں ہے کہ ان خیالات سے بالکل دست بردار ہو جائے بلکہ اس کا کمال یہ ہے کہ حقائق و واقعات ، سچے اور نیچرل خیالات کو نہیں غلط اور بے اصل باتوں کے پیرایہ میں بیان کرے اور اس طلسم کو جو قدماء باندھ گئے ہیں۔
ہر گز ٹوٹنے نہ دے ورنہ وہ بہت جلد دیکھے گا کہ اس نے اپنے منتر میں سے وہی حرف بھلادیئے ہیں جو دلوں کو تسخیر کرتے تھے۔
بہرحال جو لوگ اردو شاعری کو ترقی دینا یا یوں کہو کہ اِس کو صفحہ روزگار پر قائم رکھنا چاہتے ہیں ان کا فرض ہے کہ اصناف سخن میں عموماً اور غزل میں خصوصاً اس اصول کو محلوظ رکھیں کہ سلسلہ سخن میں نئے اسلوب جہاں تک ممکن ہو کم اختیار کئے جائیں اور غیر مانوس الفاظ کم برتے جائیں مگر نامعلوم طور پر رفتہ رفتہ ان کو بڑھاتے رہیں اور زیادہ تر کلام کی بنا قدیم اسلوبوں اور معمولی الفاظ و محاورات پر رکھیں۔
 مگر الفاظ کے حقیقی معنوں ہی پر قناعت نہ کریں۔ بلکہ ان کو کبھی حقیقی معنوں میں ، کبھی مجازی معنوں میں کبھی استعارہ اور کنایہ کے طور پر اور کبھی تمثیل کے پیرائے میں استعمال کریں۔ ورنہ ہر قسم کے خیالات ایک نپی تلی زبان میں کیونکر ادا کئے جا سکتے ہیں۔ ہم اس مقام پر علم بیان کے اصول جن سے ایک ایک مطلب کو متعدد پیرایوں میں ادا کرنا اور ایک ایک لفظ کو مختلف موقعوں پر برتنا آتا ہے بیان کرنا نہیں چاہتے۔
کیونکہ تفصیل عربی فارسی اور نیز اردو رسالوں میں مل سکتی ہے۔ مگر ہم فارسی اور اردو غزل کے کسی قدر اشعار بطور مثال کے نقل کرتے ہیں جن میں اخلاق اور تصوف کے مضامین عشق مجازی اور تغزل کے پیرایہ میں ادا کئے گئے ہیں اور اجنبی خیالات کے ظاہر کرنے میں ایک محدود اور معمولی زبان سے کام لیا گیا ہے۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali