Episode 13 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 13 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

جوش سے کیا مراد ہے؟
جوش سے یہ مراد ہے کہ مضمون ایسے بے ساختہ الفاظ اور موثر پیرائے میں بیان کیا جائے جس سے معلوم ہو کہ شاعر نے اپنے ارادہ سے یہ مضمون نہیں باندھا بلکہ خود مضمون نے شاعر کو مجبور اپنے تئیں بندھوایا ہے۔
ایسا جوش شاعر کے ہر قسم کے بیان میں عام اس سے کہ وہ خود اپنی حالت بیان کرے یا دوسرے کی اور خوشی کا بیان کرے یا غم کا اور تعریف کرے یا مذمت یا نہ تعریف کرے نہ مذمت غرضیکہ اصناف مضامین میں جو کہ شعر کے پیرایہ میں بیان کئے جا سکتے ہیں پایا جانا ممکن ہے۔
شاعر کی ذات میں ہر چیز سے متاثر ہونے ہر شخص کی خوشی یا غم میں شریک ہونے اور ہر ایک کے جذبات سے متکیف ہو جانے کا ایک خدا داد ملکہ ہوتا ہے وہ بے زبان بلکہ بے جان چیز دل کی حالت ان کی زبان حال سے ایسی بیان کر سکتا ہے کہ ان میں گویائی ہوتی تو وہ بھی اپنی حالت اس سے زیادہ بیان نہ کر سکتیں۔

(جاری ہے)

خاقانی نوشیرواں کی بارگاہ کے ان کھنڈروں کی زبان حال سے جو مدائن میں اس نے اپنی آنکھ سے دیکھے ان کی تباہی و بربادی کو اس طرح بیان کرتا ہے:

مابارگہ دادیم‘ این رفت ستم برما
برقصر ستمگاراں آیا چہ رود خندلال
یعنی ہم جو کبھی نوشیرواں کے عدل و انصاف کی بارگہ تھے جب گردش روزگار نے ہمیں اس حال کو پہنچا دیا تو ظالموں کے محلوں پر کیا نوبت گزرتی ہو گی۔
فردوسی# اس گفتگو کو جو یزد جرد نے سعد وقاص کے ایلچی سے کی تھی اس طرح بیان کرتا ہے:
زشیر شتر خوردن و سوسمار
عرب رابجائے رسید ست کار
کہ ملک عجم راکنند آرزو
تفوبر تو اے چرخ گرداں تفو
فردوسی نے اس موقع پر جیسا کہ اس کے بیان سے ظاہر ہے بالکل یزد جرد کا جامہ پہن لیا ہے اور اس کے غصہ اور جوش کی نقل کو بالکل اصل کر دکھایا ہے۔
جوش سے یہ مراد نہیں ہے کہ مضمون خواہ مخواہ نہایت زور دار اور جوشیلے لفظوں میں ادا کیا جائے۔ ممکن ہے کہ الفاظ نرم ، ملائم اور دھیمے ہوں۔ مگر ان میں غایت درجہ کا جوش چھپا ہوا ہو۔ خواجہ حافظ# کہتے ہیں:
شنیدہ ام سخنے خوش کہ پیر کنعاں گفت
فراق یار نہ آں می کند کہ بتواں گفت
میر تقی کہتے ہیں:
ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
مگر ایسے دھیمے الفاظ میں وہی لوگ جوش کو قائم رکھ سکتے ہیں جو میٹھی چھری سے تیز خنجر کا کام لینا جانتے ہیں اور اس جوش کا پورا پورا اندازہ کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو صاحب ذوق ہیں اور جن پر بے محل ہزاروں آہیں اور نالے اتنا اثر نہیں کرتے جتنا کہ بر محل کسی کا ایک ٹھنڈا سانس بھرنا۔
عبرانی اور عربی شاعری میں سب سے زیادہ جوش تھا
عبرانیوں کی شاعری سب سے زیادہ جوشیلی مانی گئی ہے ایک یورپین محقق کا قول ہے کہ ”عبرانی شاعروں کیز کلام میں اس قدر جوش ہے کہ ان کا شعر سن کر یہ معلوم ہوتا ہے گویا صحرا میں ایک تناور درخت جل رہا ہے یا ایک شخص پر وحی نازل ہو رہی ہے۔“ عرب کی شاعری بظاہر عبرانی شاعری پر مبنی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس میں بھی بے انتہا جوش پایا جاتا ہے۔
اسی لئے جیسا کہ یورپ کے مورخ لکھتے ہیں۔ عرب یونانیوں کی شاعری سے نفرت کرتے تھے کیونکہ ان کو یونانی شاعری اپنی شاعری کے آگے پھیکی ، ٹھنڈی اور آورد سے بھری ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ یونانیوں کی جتنی کتابیں انہوں نے ترجمہ کیں۔ ان میں ایک بھی دیوان شعر ترجمہ نہیں ہوا۔ وہ ہومر# سفر کلیز اور پنڈار کو اپنے شعراء کے برابر نہیں سمجھتے تھے۔ یہاں ہم نمونہ کے طور پر ایک مختصر عربی نظم کا ماحصل اردو میں لکھ کر ناظرین کو دکھاتے ہیں تاکہ ان کو معلوم ہو کہ عرب شعر میں کس قدر جوش ظاہر کرتے تھے مگر چونکہ اردو میں عربی زبان کی خوبی باقی رہنا ناممکن ہے۔
اس لئے یہ ایک ناقص نمونہ عربی اشعار کا ہو گا۔
اشامہ بن حزن نہشلی جو ایک اسلامی شاعر ہے۔ فخریہ اشعار میں کہتا ہے۔
”ہم نہشل کے پوتے ، نہشل کے پوتے ہونے پر فخر کرتے ہیں اور نہشل ہمارا دادا ہونے پر فخر کرتا ہے۔
عزت اور برتری کی کسی بھی حد تک گھوڑے دوڑائے جائیں سب سے آگے بڑھنے والے جب پاؤ گے تو بنی نہشل ہی کے گھوڑے پاؤ گے۔
ہم میں سے کوئی سردار جب تک کہ کوئی لڑکا اپنا جانشین بننے کے لائق نہیں چھوڑتا دنیا سے نہیں اٹھتا۔
لڑائی کے دن ہم اپنی جانیں سستی کر دیتے ہیں مگر امن کے زمانے میں اگر ان کی قیمت پوچھے تو انمول ہیں۔
ہماری مانگوں کے بال ، عطریات کے استعمال سے ، سفید ہیں ہماری دیگیں مہمانوں کیلئے گرم ہیں۔ ہمارا مال ہمارے مقتولوں کے خون بہا کیلئے وقف ہے۔
میں اس قوم میں سے ہوں جس کے بزرگوں نے دشمنوں کے اتنا کہنے پر کہ ”کہاں ہیں قوم کے حمایتی“ اپنے کو نیست نابود کر دیا۔
اگر ہزار میں ہمارا ایک موجود ہو تو بھی جب یہ کہا جائے گا۔ ”کون ہے شہسوار“ تو اس کی اپنے پر ہی نگاہ پڑے گی۔
ہمارے لوگوں پر کیسی ہی سخت مصیبت پڑے ان کو اوروں کی طرح اپنے مقتولوں پر روتا نہ پاؤ گے۔
ہم اکثر ہولناک موقعوں میں گھس جاتے ہیں مگر حمیت اور تلواریں جنہوں نے ہم سے قول ہارا ہے ہماری سب مشکلیں آسان کر دیتی ہیں۔
عرب کی شاعری میں زیادہ جوش ہونے کا سبب کچھ تو ان کے گرم خون کی جبلی خاصیت تھی اور زیادہ تر یہ بات تھی کہ ان کی شاعری کا مدار محض واقعات اور دل کے سچے حالات اور واردات پر تھا۔ عشقیہ اشعار زیادہ تر وہی لوگ کہتے تھے جو فی الواقع کسی کے ساتھ عاشقانہ دل بستگی رکھتے تھے رزمیہ اشعار وہی لوگ کہتے تھے جو فی الواقع حرب و کار زار کے مرد میدان تھے فخریہ اشعار میں وہی واقعات بیان کرتے تھے جو ان سے یا ان کے بزرگوں سے یا ان کے قبیلہ کے لوگوں سے علی الاعلان ظاہر ہوتے تھے اور جن کے سبب سے ان کی بہادری یا فیاضی یا فصاحت ضرب المثل ہو جاتی تھی۔
ان کی مرثیہ گوئی محض تقلیدی نہیں ہوتی تھی بلکہ جس شخص کے دل پر کسی دوست یا عزیز یا بزرگ یا نامور آدمی کی موت سے چوٹ لگتی تھی وہ اس کا مرثیہ لکھتا تھا اور صحیح صحیح اپنے دل کی واردات کا نقشہ کھینچتا تھا محبت ، عداوت ، ہمدردی ، صبر ، استقلال ، غصہ ، انتقام ، جوانی ، بڑھاپا ، دنیا کی بے ثباتی ، خدا کی عظمت و جلالت ، ظالم کی مذمت ، مظلوم کی فریاد رسی صلہ رحم یا قطع رحم۔
غرضیکہ جس مضمون کا جوش ان کے دل میں اٹھتا تھا ، اس کو بغیر ساختگی اور تصنع کے بیان کرتے تھے مگر افسوس ہے کہ خلافت عباسیہ کے زمانہ سے یہ سچا جوش کم ہونا شروع ہوا اور آخر کار شعر کے تمام اصناف میں تقلید پھیل گئی۔ شعر بجائے اس کے کہ خود شاعر کے جذبات کا آئینہ ہو وہ قدماء کی طرز و روش بلکہ انہیں کے جذبات کا آئینہ اور انہیں کے خیالات کا آرگن بن گیا۔
قدما سچ مچ اپنے اور اپنے بڑوں کے کارہائے نمایاں پر فخر کرتے تھے۔ متاخرین جھوٹی خود ستائیاں کرکے ان کا منہ چڑانے لگے اور اس کا نام سنت شعراء رکھا۔ قدما سچ مچ کسی نہ کسی اصلی معشوقہ کی محبت میں اپنے دل کے جذبات اور واردات بیان کرتے تھے اور اسی لئے ان کے ہاں صدہا اصلی نام ان کی معاشیق کے موجود ہیں۔ جیسے لیلیٰ ، سلمیٰ ، سعاد ، سعدی ، عذرا ، عزہ ، خولہ ، شبینہ غیزہ ، فاطمہ ، زینت وغیرہ۔
مگر متاخرین نے شیر خوار بچوں کی طرح کہ روتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ کیوں روتے ہیں۔ محض تقلیداً فرضی ناموں سے لو لگا کہ ان کی جدائی اورشوق و آرزو کا دکھڑا رونا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ عرب سے یہ رنگ ایران میں اور وہاں سے ہندوستان میں پہنچا اور آخر کار مسلمانوں کی شاعری کا حال اس ویران بستی کا سا ہو گیا جو کبھی آدمیوں سے معمور تھی مگر اب وہاں سونے مکانوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali