Last Episode - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

آخری قسط - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

حواشی
-1 لکھنوٴ میں میر انیس اور میر زا دبیر نے بھی تقریباً ایسی ہی قبولیت حاصل کی تھی جو لوگ میر انیس کو پسند کرتے تھے وہ مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی میں جہاں تک ہو سکتا تھا میر انیس کی تقلید کرتے تھے جو فریق مرزا دبیر کا طرف دار تھا وہ ہر ایک بات میں ان کی پیروی کرتا تھا مگر لارڈ بائرن اور دونوں صاحبوں کی قبولیت میں اتنا فرق ہے کہ لارڈ بائرن کی عظمت اہل انگلستان کے دل میں صرف اس وجہ سے تھی کہ وہ اس کو اپنا قومی شاعر سمجھتے تھے اور اسی لئے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں فرقے اس کو یکساں عزیز رکھتے تھے۔
بخلاف انیس و دبیر کے کہ ان کی عظمت ایک مذہبی شاعر ہونے کی وجہ سے تھی اور اسی لئے ان کی بڑائی اور بزرگی جیسی کہ عموماً ایک فرقہ کے دل میں تھی ویسی عام طور پر دوسرے فرقہ کے دل میں نہ تھی۔

(جاری ہے)

یہ امتیاز یعنی قومی اور مذہبی حیثیت کا ہمارے اور اہل یورپ کے تمام کاموں میں پایا جاتا ہے۔

-2 رفاعہ آفندی ناظر مدرسہ السنہ مختلفہ مصر نے ان دونوں قصیدوں کو عربی نظم میں ترجمہ کرکے اپنے سفر نامہ میں جس کا نام ”الدیوان النفیس بایون باریس“ ہے۔
نقل کیا ہے۔
-3 یہ ایک مخضرمی شاعر ہے یعنی اس نے جاہلیت اور اسلام دونوں زمانے دیکھے ہیں اس نے ایک قصیدہ آنحضرت، کی نعت میں بھی لکھا تھا اور یہی عرب کا پہلا شاعر ہے جس نے مدع گوئی کا مدار صلہ و جائزہ پر رکھا تھا اور محض مداحی کی بدولت دولت مند ہو گیا تھا۔
-4 اس قصیدہ کے اول چند شعر یہ ہیں۔
بوئے یار مہرباں آید ہمے
یاد جوئے مولیاں آید ہمے
ریگ آمولے و درشتی ہائے او
پائے مارا پرنیاں آید ہمے
آب جیحوں و شگرفی ہائے او
خنگ مارا تامیاں آید ہمے
اے بخارا شاد باش و شاد ذی
شاہ سویت میہماں آید ہمے
شاہ ماہ است و بخارا آسماں
ماہ سوئے آسماں آید ہمے
شاہ سرواست و بخارا بوستاں
سرو سوئے بوستاں آید ہمے
-5 عبید زاکانی قزوینی ایک مشہور ہزال شاعر ہے۔
یہ شخص اقسام علوم میں ماہر تھا اس نے ایک کتاب فن عزیمت میں لکھی تھی اور اس کو لے کر شاہ ابو اسحاق انجو کے ہاں پیش کرنے کیلئے شیراز گیا تھا۔ جب بادشاہ کے دربار میں جانا چاہا تو معلوم ہوا کہ بادشاہ مسخروں میں مشغول ہے کسی سے ملنے کی فرصت نہیں۔ عبید نے کہا کہ اگر مسخرگی سے تقرب بادشاہی حاصل ہو سکتا ہے تو علم حاصل کرنا فضول ہے اسی روز سے ہزل گوئی اختیار کی اور اس میں مشہور ہو گیا۔
-6 ٹورنو یورپین روس کے شمال مغرب میں ایک پہاڑ ہے۔
-7 پیمبار کا جنوبی امریکہ میں شہر کینٹو دارالخلافہ ملک ایکوئیڈ کے پاس ایک پہاڑ ہے۔
-8 یہ ارسطو کے قول کی طرف اشارہ ہے۔
-9 مستثنیٰ صورتوں پر شعر کی بنیاد رکھنے کی مثال ایسی ہے جیسے مومن کا یہ شعر
رہتے ہیں جمع کوچہ جاناں میں خاص و عام
آباد ایک گھر ہے جہان خراب میں
یعنی شاعر نے معشوق کے چند خریدار جن کو بمقابلہ تمام بنی نوع کے مستثنیات میں شمار کرنا چاہئے اس کے کوچہ میں جمع دیکھ کر یہ حکم لگایا ہے کہ سارا جہان اس کے کوچہ میں مجمع رہتا ہے اگرچہ اس کے طرز بیان سے شاعر کا لطف طبع ضرور ثابت ہوتا ہے لیکن اثر کچھ نہیں۔
بخلاف اس کے یہی شاعر دوسری جگہ کہتا ہے:
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پیشماں کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنہیں چاہ کے ارماں ہونگے
اس میں اس نے ایسی عام شق اختیار کی ہے جس میں استثنیٰ کو بہت ہی کم دخل ہے کیونکہ ہواوہوس کا انجام ہمیشہ پشیمانی ہوتی ہے اور اس کی ابتداء شوق اور ارمان سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ پس ہر شخص کا دل اس بات کو فوراً قبول کر لیتا ہے اور اس لئے اس سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔
-10 الف لیلہ میں قاسم اور علی بابا دونوں بھائیوں کے قصہ میں ذکر ہے کہ کسی پہاڑ میں ایک غار تھا قزاق لوگ ادھر ادھر سے لوٹ مار کرکے جو لاتے تھے اس میں جمع کر دیا کرتے تھے۔ غار کا دروازہ ہمیشہ کھل جاسم سم کہنے پر کھل جایا کرتا تھا اور بند ہو جا سم سم کہنے پر بند ہو جاتا تھا ایک بار علی بابا نے چھپ کر قزاقوں کو دروازہ کھولتے اور بند کرتے دیکھ لیا جب وہ چلے گئے تو اسی ترکیب سے اس نے دروازہ کھولا اور بہت سا مال و اسباب وہاں سے گدھوں پر لاد کر لے آیا۔
قاسم کو خبر ہوئی تو وہ بھی اس سے دروازہ کھولنے کا منتر سیکھ کر وہاں پہنچا۔ جب کوئی دروازہ کھول کر اندر جاتا تو کواڑ خود بخود بند ہو جایا کرتے تھے اور پھر اسی منتر سے کھلتے تھے۔ قاسم اندر گیا تو وہ منتر یاد تھا۔ جب مال لے کر باہر آنا چاہا تو کھل جا سم سم بھول گیا۔ اس کی جگہ ”کھل جو“ یا ”کھل گیسوں“ کہنے لگا۔ دروازہ نہ کھلا یہاں تک کہ قزاق آ پہنچے اور قاسم کو قتل کر ڈالا۔
-11 شوق سے مراد نواب مرزا لکھنوی ہے جس کی بہار عشق ، زہر عشق وغیرہ مثنویاں مشہور ہیں۔
-12 کثیر ایک مشہور عرب کا شاعر ہے جس کی معشوقہ کا نام عزہ تھا اور عبد العزیز بن مروان اس کا ممدوح تھا۔ جہاں کثیر عزہ لکھتے ہیں وہاں اسی سے مراد ہوتی ہے۔
-13 تکلیف کر لگانے کو کہتے ہیں جیسے تکلیف شرعی۔
-14 یہ قصہ آب حیات میں مذکور ہے۔
-15 غزل کے معنی لغت میں عشق بازی کرنے اور عورتوں سے مخاطب ہونے کے ہیں۔ عربی میں کہتے ہیں زید اغزل من عمرو یعنی زید عشق کے مضامین عمرو سے بہتر باندھتا ہے یا زید عمرو سے زیادہ عشق باز ہے۔
-16 ”اس بات“ کے لفظ میں جو لطف ہے اس کو اہل زبان سمجھ سکتے ہیں۔
-17 یعنی ہم نے۔ قدیم محاوروں میں ، میں نے اور ہم نے کی جگہ میں اور ہم بولتے تھے۔
-18 جیسے تیس اور اکتیس۔ تیس مفرد ہے اور اکتیس مرکب بہ منزلہ مفرد۔
-19 یہ بات حالی نے 1892ء میں لکھی ہے۔
-20 یعنی بہار عشق زہر عشق اور فریب عشق میں۔
#…#…#

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali