Episode 36 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 36 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

 اردو شاعری میں جو کہ ماء راکد کی طرح مدت سے بے حس و حرکت پڑی تھی تموج بلکہ تلاطم پیدا کر دیا۔ اگرچہ سوسائٹی کے دباؤ اور کم عیار حریفوں کے مقابلہ نے میر انیس کو ہر جگہ جادہ استقامت پر قائم رہنے نہیں دیا۔ بلکہ اس دھرپتیے کی طرح جسے مجلس کے بے مغزوں کور جھانے کیلئے کبھی کبھی بارہ ماسا اور چوبوے بھی الاپنے پڑتے ہیں۔ اکثر مبالغہ و اغراق کی آندھیوں کے طوفان اٹھانے پڑے مگر اس قسم کی بے اعتدالیاں ان فوائد کے مقابلہ میں جو ان کی شاعری سے اردو زبان کو پہنچے ، بے حقیقت اور کم ورن ہیں انہوں نے بیان کرنے کیلئے نئے نئے اسلوب اردو شاعری میں کثرت سے پیدا کر دیئے۔
ایک ایک واقعہ کو سو سو طرح بیان کے قوت متخیلہ کی جولانیوں کیلئے ایک نیا میدان صاف کر دیا اور زبان کا ایک معتدبہ حصہ جس کو ہمارے شاعروں کی قلم نے مس تک نہیں کیا تھا اور محض اہل زبان کی بول چال میں محدود تھا۔

(جاری ہے)

اس کو شعر سے روشناس کرا دیا۔ انہوں نے اپنے کلام میں جابجا اس بات کا اشارہ کیا ہے اور بالکل بجا کیا ہے کہ اس کے ہمصر مرثیہ گو ان کی زبان اور طرز بیان کے خوشہ چین تھے۔

اک جگہ کہتے ہیں:
نہریں رواں ہیں فیض شہ مشرقین کی
پیاسو پیو سبیل ہے نذر حسین کی
ایک اور جگہ کہتے ہیں:
لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
آج کل یورپ میں شاعر کے کمال کا اندازہ اس بات سے کیا جاتا ہے کہ اس نے اور شعرا سے کس قدر زیادہ الفاظ خوش سلیقگی اور شائستگی سے استعمال کئے ہیں۔
اگر ہم بھی اسی کو معیار کمال قرار دیں تو بھی میر انیس# کو اردو شعرا میں سب سے برتر ماننا پڑے گا اگرچہ نظیر اکبر آبادی نے شاید میر انیس# سے بھی زیادہ الفاظ استعمال کئے ہیں مگر ان کی زبان کو اہل زبان کم مانتے ہیں۔ بخلاف میر انیس# کے کہ اس کے ہر لفظ اور ہر محاورہ کے آگے سب کو سر جھکانا پڑتا ہے۔
 میر انیس# کا کلام جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے ، بلاشبہ مبالغہ اور اغراق سے خالی نہیں مگر اس کے ساتھ ہی جہاں کہیں وہ واقعات کا نقشہ اتارتے ہیں یا نیچرل کیفیات کی تصویر کھینچتے ہیں یا بیان میں تاثیر کا رنگ بھرتے ہیں وہاں اس بات کا کافی ثبوت ملتا ہے کہ مقتضائے وقت کے موافق جہاں تک کہ امکان تھا میر انیس نے اردو شاعری کو اعلیٰ درجہ پر پہنچا دیا تھا۔
شعراء کے جرگے میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ بگڑا شاعر مرثیہ گو اور بگڑا گویا مرثیہ خوان مگر میر انیس نے اس قول کو بالکل باطل کر دیا ان کو جس نظر سے کہ ہم دیکھتے ہیں اس نظر سے بہت کم دیکھا گیا ہے۔ اکثر امام حسین علیہ السلام سمجھ کر ان کا ادب کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کو صدق دل سے یا محض اپنے فریق کی پاسداری اور دوسرے فریق کی ضد سے صرف مرثیہ گو یوں میں سب سے فائق اور افضل سمجھتے ہیں لیکن ایسے بہت کم ہیں جو مطلق شاعری میں ان کو فی الوقعہ بے مثل سمجھتے ہیں۔
اس خاص طرز کے مرثیہ گو اگر اخلاق کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بھی ہمارے نزدیک اردو شاعری میں اخلاق نظم کہلانے کا مستحق صرف انہیں لوگوں کا کلام ٹھہر سکتا ہے بلکہ عربی شاعری میں بھی ذرا مشکل سے ملے گی۔
فضائل اخلاق کا نمونہ اس سے اعلیٰ اور اشرف اور کیا ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کے نبیﷺ کا نواسہ جس کے آگے ہر مسلمان کا سر جھکنا چاہئے تھا اور جس کو ان سے بے انتہا امیدیں ہونی چاہئے تھیں وہ چند عزیزوں اور دوستوں کے سوا ہر مسلمان کو اپنے خون کا پیاسا دیکھتا ہے۔
ریگستان عرب کی لو اور گرمی ہے۔ عورتیں ، صغیر سن بچے اور سارا کنبہ ہمراہ ہے۔
 مدینہ سے کوفہ تک مہینوں کی راہ طے کرنی ہے۔ جو اعوان اور انصار بن کر ساتھ چلے تھے۔ ان میں سے چند کے سوا سب ساتھ چھوڑ چھوڑ کر چل دیئے ہیں جن لوگوں نے متواتر خط اور پیغام بھیج کر اور خدا اور رسول کو درمیان میں دے کر نصرت کے وعدوں پر بلایا تھا وہ ان کو آکر ایک قلم منحرف و برگشتہ پاتا ہے اور تمام امیدیں مبدل یہ یاس ہو گئی ہیں۔
با ایں ہمہ وہ راضی بہ رضا ہے ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور اپنے ارادہ پر ثابت قدم رہتا ہے جس شخص کے تسلط کو وہ ملک اور قوم اور دین کے حق میں ایک مرض مہلک سمجھ کر اس کی بیعت سے انکار کر چکا ہے باوجود ان تمام شدائد کے اپنے انکار پر اسی طرح قائم ہے۔
دشمنوں نے کھانا اور پینا سب بند کر رکھا ہے اور دریائے فرات آنکھوں کے سامنے بہہ رہا ہے۔
دشمنوں کے گھوڑے ، گدھے اور اونٹ تک سیراب ہوتے ہیں۔ مگر اس کا سارا کنبہ تین روز سے پیاسا ہے۔ اس کے ننھے ننھے بچے ایک ایک بوند کو ترستے ہیں اور یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ وہ ایک نالائق آدمی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتا با ایں ہمہ وہ اپنے ارادہ پر اس طرح ثابت قدم ہے کہ کسی سختی اور کسی مصیبت سے اس کے استقلال میں فرق نہیں آتا۔
اس کے یارومدگار کل ستر اور دو بہتر آدمی ہیں اور ایک ٹڈی دل سے مقابلہ ہے۔
لڑنے میں اپنا اور سب عزیزوں اور دوستوں کا خاتمہ نظر آتا ہے۔ خیمہ اور اسباب کا لٹنا باقی ماندوں کا اسیر ہونا ، عورتوں کی بے روائی اور بادیہ پیمائی یہ سب آفتیں گویا آنکھ سے دکھائی دیتی ہیں مگر وہ ان سب کو گوارا کرتا ہے اور بہتر سمجھتا ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک نالائق آدمی کے ہاتھ پر بیعت کرے اور اس کی حکومت کو تسلیم کر لے۔
وہ اپنے بھائی بیٹے ، بھتیجے اور بھانجوں کو نہایت اطمینان کے ساتھ مسلح اور آراستہ کرکے ایک ایک کو ہزاروں کے ساتھ لڑنے کیلئے بھیج رہا ہے۔
ان کے بازو تلواروں سے کٹتے ان کے کلیجے برچھوں سے چھدتے اور ان کی چھاتیاں تیروں سے چھنتے دیکھتا ہے ایک ایک کی لاش کاندھے پر رکھ کر لاتا ہے اور اپنے ہاتھ سے زمین میں دفن کرتا ہے۔ خیمہ میں عورتوں کے کہرام سے ہر وقت ایک قیامت برپا ہے بی بی بیٹی اور بہنوں کی دل خراش صدائیں دل میں ناسور ڈال رہی ہے۔ چھ مہینے کا شیر خوار بچہ ایک بے رحم کا تیر کھا کر گود میں مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہا ہے۔
اس کے حلق سے خون کا فوارہ جاری ہے۔
 سب چھوٹے بڑے کام آ چکے ہیں اور بچہ بھی کوئی دم کا مہمان ہے۔ اب سب کے بعد اپنی باری نظر آتی ہے اور پھر اہل بیت کے جہاز کا خدا کے سوا کوئی ناخدا نظر نہیں آتا ان سب بلاؤں کا سامنا ہے اور مصائب و آفات کی گھنگور گھٹا چھائی ہوئی ہے مگر ان میں سے کوئی چیز اس کے عزم و استقلال میں تزلزل پیدا نہیں کر سکتی وہ کوہ راسخ کی طرح اپنے ارادہ پر ثابت قدم ہے اور اپنے قول سے نہیں ہٹتا۔
وہ بے رحم قوم جو نانا کا کلمہ پڑھتی ہے اور نواسے کے خون کی پیاسی ہے۔ جو چند نفوس کے مقابلہ کیلئے ایک ٹڈی دل کو ساتھ لے کر آئے ہیں اور اپنی تمام طاقت اس بات میں صرف کر رہے ہیں کہ جو ایذائیں اور تکلیفیں آدم سے تا ایں دم کسی ذی روح نے کسی ذی روح کو نہیں دیں وہ سب اپنے نبی، کے دلبندوں اور جگر کے ٹکڑوں پر ختم کی جائیں جو حرص و طمع کے نشے میں دین ، ایمان ، رحم انصاف ، آدمیت ، ہمدردی اور تمام فضائل انسانی سے دست بردار ہو کر خدا کا گھر ڈھانے یعنی خاندان نبوت کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے پر تیار اور کمربستہ ہیں نہ ان کو بدعا دیتا ہے نہ ان کی شکایت کرتا ہے نہ ان پر غصے ہوتا ہے بلکہ ٹھنڈے دل کے ساتھ اپنے حقوق جن کے ماننے کا وہ دعویٰ کرتے ہیں ان کو جتاتا ہے اور خود ان کے فرائض جو خاندان نبوت کے ساتھ ہیں بجا لانے چاہئیں انہیں یاد دلاتا ہے۔
چھوٹے سے بڑے تک ہر شخص کے دل میں یہ امنگ ہے کہ سب سے پہلے میں اپنی جان خاندان پر نثار کروں۔ باپ کی یہ خواہش ہے کہ تلواروں کی آنچ میں بھائی بھتیجے اور بھانجوں سے پہلے اپنے جگر بند کو جھونک دوں بھائی ، بھائی اور بھتیجوں سے پہلے مرنے کیلئے تیار اور میدان جنگ کا خواستگار ہے۔ بھانجوں کی یہ تمنا ہے کہ ماموں اور ماموں کی اولاد پر سب سے پہلے ہم قربان ہوں۔
بھتیجے کی یہ آرزو ہے کہ چچا فدیہ سب سے پہلے میں بنوں بہن کو یہ ارمان ہے کہ اپنے بچوں کو بھائی اور بھتیجوں پر قربان کر دے۔
 بھائی اس فکر میں گھلا جاتا ہے کہ اگر بھانجے میری رفاقت میں مارے گئے تو بہن کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ چچا گو خود بھی تین دن کی پیاسی سے بے قرار ہے مگر اپنی پیاسی کی کچھ پروا نہیں لیکن پیاسی بھتیجی کی بیقراری کسی طرح نہیں دیکھ سکتا وہ مشکیزہ گلے میں ڈال اور جان ہتھیلی پر رکھ دشمنوں کی صفیں چیرتا ہوا اور دریا میں گھوڑا جا ڈالتا ہے دریا کا سرد اور شیریں پانی لہریں مار رہا ہے اور پیاس کے مارے دل قابو سے باہر ہوا جاتا ہے۔
دو چلو پانی میں پیاس بجھتی ہے مگر غیرت اور حمیت اجازت نہیں دیتی کہ ننھے ننھے بچوں کی پیاس بجھنے سے پہلے اپنی پیاس بجھا لے۔ وہ مشکیزہ بھر کر اسی طرح پیاسا دریا سے پھرتا ہے تاکہ جلدی جا کر بچوں کے خشک حلق میں پانی چو آئے لیکن دشمنوں نے گھیر کر دونوں بازو کاٹ ڈالے ہیں اس پر بھی اس کو اپنے بازوؤں کا کچھ خیال نہیں۔ اگر ہے تو مشکیزہ کی فکر ہے کہ مبادا پانی ضائع ہو جائے اور بچے پیاسے رہ جائیں۔
وہ سب حربے اپنے اوپر لیتا ہے مگر مشک پر آنچ نہیں آنے دیتا جب تک کہ زخموں سے چور ہو کر گھوڑے سے نہیں گرتا۔
بیبیاں خاوندوں کو اور مائیں بیٹوں کو زخمی اور قتل ہوتے دیکھتی ہیں۔ مگر کوئی زبان سے اف تک نہیں کرتی اور منہ سے سانس تک نہیں نکالتی  صرف اس خیال سے کہ جس مربی اور سرپرست کی رفاقت میں وہ کام آئے ہیں اس کے دل پر میل نہ آئے اور وہ اپنے دل میں ہم سے محجوب نہ ہو سب اس کی اور اس کی اولاد کی خیر مناتی ہیں اپنے بچھڑے ہوؤں کو کوئی یاد نہیں کرتی۔
دو صغیر سن بھائی ہیں۔ جو صرف اس قصور پر کہ نبیﷺ کے نواسے کے رشتہ دار ہیں حاکم کے حکم سے واجب القتل ٹھہرتے ہیں۔ جلاد ان کے سر پر تلوار تو لے کھڑا ہے بڑا بھائی منتیں کرتا ہے کہ پہلے میرا سر اتار اور چھوٹا بھائی کہتا ہے کہ پہلے مجھ پر وار کر۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali