Episode 25 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 25 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

اگرچہ اصل وضع کے لحاظ سے غزل کا موضوع عشق و محبت کے سوا کوئی اور چیز نہیں ہے۔ لیکن ہمارے شعراء نے اس کو ہر مضمون کیلئے عام کر دیا ہے اور اب بھی اس صنف کو محض مجازاً غزل کہا جاتا ہے۔ پس ہر قسم کے خیالات جو شاعر کے دل میں وقتاً فوقتاً پیدا ہوں وہ غزل یا رباعی یا قطعہ میں بیان ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ صحیح نہیں ہے کہ جو خیالات اگلوں نے زمانہ کے اقتضا سے اپنے جذبات کے جوش میں ظاہر کئے ہیں ہم بھی وہی راگ گاتے رہیں اور انہیں کے خیالات کا اعادہ کرتے رہیں۔
نہیں بلکہ ہم کو چاہئے کہ اپنی غزل کو خود اپنے خیالات اور اپنے جذبات کا آرگن بنائیں۔ ممکن ہے کہ اگلوں میں سے کسی نے دنیا کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کرنے کو عبث اور فضول بتلایا ہو لیکن ہمارے دل میں اس خیال کی حقارت ہو یا انہوں نے اس کے برعکس پاؤں توڑ کر بیٹھنے کو نامردی اور بے غیرتی کی بات سمجھا ہو لیکن ہم میں سے کسی کے دل پر اس سے برخلاف حالت طاری ہو۔

(جاری ہے)

 
دونوں صورتوں میں ہمارے منہ سے وہی صدا نکلنی چاہئے جو ہمارے دل سے اٹھی ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ خود ہمیں پر ایک وقت ایسا گزرے کہ مثلاً کوشش و تدبیر ہم کو محض بے سودو لاحاصل معلوم ہو اور دوسرے وقت ہمارے ہی دل میں ایسا جوش پیدا ہو کہ پہاڑ کو جگہ سے ہٹا دینے کا ارادہ کریں۔ ہم کو دونوں حالتوں کی تصویر اپنے اپنے موقع پر بے کم و کاست کھینچ دینی چاہئے۔
اس سے نہ صرف فطرت انسانی کے وقائق و غوامض اور جو انقلاب کہ اس کی طبیعت میں آناً فاناً پیدا ہوتے ہیں وہی منکشف ہوں گے بلکہ قومی اخلاق پر بھی عمدہ اثر ہو گا۔ کیونکہ جب تک ہر چیز کا اچھا اور برا دونوں پہلو نہ دکھائے جائیں تب تک اعتدال کی خوبی جلوہ گر نہیں ہوتی۔ مثلاً صائب ایک جگہ کہتے ہیں:
قناعت کن بہ نان خشک تابے آرزو گردی
کہ خواہش ہائے الوانست نعمت ہائے الواں را
دوسری جگہ یہی صائب کہتے ہیں:
صرف بیکاری مگرواں روزگار خویش را
پردہٴ روئی توکل سازگار خویش را
ظاہر ہے کہ جب تک دونوں مختلف خیال ملحوظ نہ رکھے جائیں تب تک قناعت کا درجہ جوتن آسانی اور حرص کے بیچوں بیچ واقع ہے حاصل نہیں ہو سکتا۔
شاید کسی کو یہ خیال ہو کہ اخلاقی مضامین سے غزل میں وہ گرمی پیدا نہیں ہو سکتی جو عشقیہ مضامین کے بیان میں ہوتی ہے جو اثر شوق و آرزو اور درد و جدائی اور کاہش انتظار اور رشک اغیار کے بیان میں ہے وہ اعظانہ پندو نصیحت میں ہرگز نہیں ہو سکتا۔ بے شک اخلاقی مضامین کو موٴثر پیرایہ میں بیان کرنا نہایت مشکل کام ہے اور بلاشبہ غزل جس میں سوزو گدازنہ ہوا اور بچہ جو چلبلا اور چونچال نہ ہو۔
دونوں میں کچھ کشش اور گیرائی نہیں ہوتی لیکن ہمارے معاصرین کیلئے سوزو گداز کا اس قدر مصالحہ موجود ہے جو صدیوں تک نبڑ نہیں سکتا۔
 دنیا میں ایک انقلاب عظیم ہو رہا ہے اور ہوتا چلا جاتا ہے۔ آج کل دنیا کا حال صاف اس درخت کا سا نظر آتا ہے جس میں برابر نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں اور پرانی ٹہنیاں جھڑتی چلی جاتی ہیں۔ تناوردرخت زمین کی تمام طاقت چوس رہے ہیں اور چھوٹے چھوٹے تمام پودے جو ان کے گرد و پیش ہیں سوکھتے چلے جاتے ہیں۔
پرانی قومیں جگہ خالی کرتی جاتی ہیں اور نئی قومیں ان کی جگہ لیتی جاتی ہیں اور یہ کوئی گنگا جمنا کی طغیانی نہیں ہے جو آس پاس کے دیہات کو دریا برد کرکے رہ جائے گی بچہ یہ سمندر کی طغیانی ہے جس سے تمام کرہ زمین پر پانی پھرتا نظر آتا ہے۔ اگر کوئی دیکھے اور سمجھے تو صدہا تماشے صبح سے شام تک ایسے عبرت خیز نظر آتے ہیں کہ شاعر کی تمام عمر اس کی جزئیات کے بیان کرنے کیلئے کافی نہیں ہو سکتی۔
کسی واقعہ کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیا ہوا یا کسی کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ یہ کیوں ہوا؟ کبھی خوف معلوم ہوتا ہے کہ کیا ہو گا اور کبھی یاس دل پر چھا جاتی ہے کہ بس اب کچھ نہیں۔ اس سے زیادہ دلچسپ میٹریل غزل کیلئے اور کیا ہو سکتا ہے۔ ہر بات کا ایک محل اور ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔ عشق و عاشق کی ترنگیں اقبال مندی کے زمانہ میں زیبا تھیں۔
اب وہ وقت گیا۔ عیش و عشرت کی رات گزر گئی اور صبح نمودار ہوئی۔ اب کانگڑے اور بہاگ کا وقت نہیں رہا اب جو گئے کی الاپ کا وقت ہے۔
اس کے سوا بڑے بڑے استادوں نے اکثر مسلسل غزلیں بھی لکھیں ہیں جن میں ایک شعر کا مضمون دوسرے شعر سے الگ نہیں ہے بلکہ ساری ساری غزل کا مضمون اول سے آخر تک ایک ہے۔ ایسی غزلیں اگر کوئی لکھنی چاہے تو ان میں کسی قدر طوفانی مضمون بھی بندھ سکتے ہیں۔
مثلاً ہر ایک موسم کی کیفیت ، صبح اور شام کا سماں۔ چاندنی رات کا لطف۔ جنگل یا باغ کی بہار میلے تماشوں کی چہل پہل۔ قبرستان کا سناٹا۔ سفر کی روائیداد ، وطن کی وابستگی اور اسی قسم کی اور بہت سی باتیں مسلسل غزل میں بہت خوبی سے بیان ہو سکتی ہے۔
الغرض غزل کو باعتبار زمین اور خیالات کے جہاں تک ممکن ہو وسعت دینی چاہئے۔ شعر کی لوگوں کو ایسی ضرورت نہیں ہے جیسی کہ بھوک میں کھانے کی ضرورت ہوتی ہے انسان کو ہمیشہ طرح بہ طرح کے کھانے میسر نہ آئیں تو وہ تمام عمر ایک ہی کھانے پر قناعت کر سکتا ہے لیکن شعر یا راگ میں جب تک تلون اور تنوع نہ ہو اس سے جی اکتا جاتا ہے۔
جو گویا صبح شام رات اور دن بھیرویں ہی الاپے جائے اس کا گانا اجیرن ہو جاتا ہے اسی طرح شعر میں ہمیشہ ایک قسم کے مضامین سنتے سنتے نفرت ہو جاتی ہے:
مکرر گرچہ سحر آمیز باشد
طبیعت را ملال انگیز باشد
اگرچہ اس میں شک نہیں کہ جس طرح شعر میں جدت پیدا کرنی اور ہمیشہ نئے اور اچھوت مضامین پر طبع آزمائی کرنی شاعر کا کمال ہے اسی طرح ایک ایک مضمون کو مختلف پیرایوں اور متعدد اسلوبوں میں بیان کرنا بھی کمال شاعری میں داخل ہے۔
 لیکن جب ایک مضمون ہمیشہ نئی صورت میں دکھایا جاتا ہے تو اس میں تازگی باقی نہیں رہتی۔ اب بھی اگر اسی کو چھیڑے چلے جائیں تو بجائے تنوع کے تکرار اور اعادہ ہونے لگے گا۔ بہروپیا دو چار روپ بھر کر لوگوں کو شبہ میں ڈال سکتا ہے۔ مگر پھر اس کی قلعی کھل جاتی ہے۔ ہر کوئی اس کو دور ہی سے دیکھ کر پہچان لیتا ہے کہ بہروپیا ہے۔ ہم لوگ جب غزل لکھ کر مشاعرہ میں جاتے ہیں تو اپنے دل میں سمجھتے ہیں کہ ہم سب سے الگ اور اچھوتے مضمون باندھ کر لے چلے ہیں۔
مگر غزل دیکھئے تو وہی انگریزی مٹھائی کا بکس ہے کہ مٹھائیوں کی شکلیں مختلف ہیں لیکن مزا سب کا ایک ہے فرض کرو کہ مختلف شکلوں کے متعدد سانچے تیار ہیں کوئی مدور ہے ، کوئی مستطیل ، کوئی مثلث کوئی مربع کوئی مسدس اور کوئی مثمن۔ اب ہر ایک سانچے میں موم پگھلا کر ڈالو۔ ظاہر ہے کہ ہر سانچے سے موم نئی شکل پر ڈھل کر نکلے گا۔ بعینہ ایسا ہی حال غزل کا ہے مضمون وہی معمولی ہے۔ گر بحر و ردیف و قافیہ کے اختلاف سے مختلف شکلیں پیدا کر لیتے ہیں۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali