Episode 20 - Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali

قسط نمبر 20 - مقدمہ شعر و شاعری - مولانا الطاف حسین حالی

زبان کو درستی کے ساتھ استعمال کرنا:
تیسری بات زبان اردو کو درستی اور صفائی کے ساتھ استعمال کرنا ہے اگرچہ اردو کم و بیش تمام اطراف ہندوستان میں متد اول ہے لیکن ممکن ہے بعض ممالک کے باشندے اپنی خاص زبان میں بہ نسبت اردو زبان کے زیادہ آسانی سے شعر سر انجام کر سکیں۔
پس اگر ہمارے ہم وطنوں میں کوئی شخص اپنی خاص زبان میں شعر کہنا چاہے تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہے کیونکہ مادری زبان سے بہتراور سہل تر کوئی آلہ اظہار خیالات کا نہیں ہو سکتا۔
لارڈ مکالے کا قول ہے کہ ”کوئی عمدہ کلام جو خیالات کا مجموعہ ہو کبھی کسی شخص نے سرانجام نہیں کیا مگر ایسی زبان میں جس کی نسبت اس کو مطلق یاد نہ ہو کب سیکھی اور کیونکر سیکھی اور جس کی گریمر جاننے سے پہلے وہ ایک مدت تک اس میں گفتگو کرتا رہا۔

(جاری ہے)

”وہ لکھتے ہیں کہ ”روما کے بڑے بڑے لائق آدمیوں نے فرانسیسی زبان میں اشعار لکھے مگر ان میں سے کوئی شعر صفحہ روزگار پر یادگار نہ رہا۔

 
انگلستان کے بہت سے خوش فکر اور طباع آدمیوں نے لاطینی میں دیوان مرتب کئے مگر ان میں سے ایک دیوان بھی یہاں تک کہ ملٹن# کا دیوان بھی شاعری کے لحاظ سے اول درجہ شمار نہیں کیا جا سکتا بلکہ دوسرے درجہ میں بھی کچھ امتیاز نہیں رکھتا۔“ پس جیسا کہ ملکہ شاعری ایک فطری اور جبلی چیز ہے۔ اسی طرح اس کو کام میں لانے کیلئے ایسے آلہ کا استعمال زیادہ مناسب ہوگا جو بہ منزل فطری اور جبلی چیزوں کے ہو اور وہ مادری زبان کے سوا اور کوئی زبان نہیں ہو سکتی۔
لیکن چونکہ اردو زبان ہندوستان کی اور تمام زندہ زبانوں کی نسبت بالاتفاق زیادہ وسیع اور خیالات ادا کرنے کے زیادہ لائق ہے۔ تمام اطراف ہندوستان میں عموماً بولی اور سمجھی جا سکتی ہے اور اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ اس کو ہندوستان کی قومی زبان بنایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو اس کو ترقی دی جائے نیز اس کا حاصل کرنا اور اس میں کافی مہارت بہم پہنچانی ہندوستان کے باشندوں کو اتنی دشوار نہیں ہے جتنی کہ اور غیر مادری زبانوں میں دشوار ہوتی ہے۔
اس کے سوا ہندوستان کی تمام زندہ زبانوں میں بالفعل کوئی زبان ایسی نہیں معلوم ہوتی۔ جس میں اردو کے برابر شعر کا ذخیرہ موجود ہو اس لئے یہ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہم وطنوں میں جو شخص شعر کہنا اختیار کرے وہ اردو ہی کو اپنے خیالات ظاہر کرنے کا آلہ قرار دے۔
ہندوستان میں جیسا کہ عموما# تسلیم کیا جاتا ہے صرف دو شہر ہیں جہاں کی اردو معتبر سمجھی جاتی ہے دلی اور لکھنوٴ۔
دلی کی زبان اس لئے ٹکسالی زبان سمجھی جاتی ہے کہ اردو کا حدوث اور نشوونما اسی خطہ میں ہوا ہے۔ لکھنوٴ کی زبان کو اس واسطے مستند مانا جاتا ہے کہ سلطنت مغلیہ کے زوال کی ابتداء سے شرفائے دہلی کے بے شمار خاندان ایک مدت دراز تک لکھنوٴ میں جا کر آباد ہوتے رہے اور ہمیشہ کیلئے وہیں رہ پڑے۔ پس ہندوستان کے کسی شہر کو اہل دہلی سے اس قدر میل جول کا موقع نہیں ملا جس قدر کہ لکھنوٴ کو ملا ہے۔
یہاں تک دونوں شہروں کی زبان میں ایک خاص مماثلت پیدا ہو گئی ہے اور خاص خاص الفاظ و محاورات کے سوا دونوں جگہ کی بول چال اور لب و لہجہ میں کوئی معتدبہ فرق نہیں معلوم ہوتا۔
کوئی زبان تمام ملک میں یکساں طور پر اس وقت تک شائع نہیں ہو سکتی جب تک کہ مندرجہ ذیل ذریعے ملک میں مہیا نہ ہوں۔
۱۔ اس زبان کی معتبر اور جامع ڈکشنری کا تیار ہونا۔
۲۔ اس کی جامع گریمر کا مرتب ہونا۔
۳۔ اس میں کثرت سے نظم و نثر کی کتابوں کا تصنیف و تالیف ہو کر شائع ہونا۔
۴۔ اس زبان کے اخبارات اور رسائل کا تمام اطراف و جوانب ملک میں اشاعت پانا۔
ظاہر ہے کہ نہ آج تک اردو کی کوئی جامع اور مستند ڈکشنری تیار ہوئی ہے اور نہ اس کی کوئی ایسی گریمر لکھی گئی ہے جس سے زبان کے سیکھنے میں کافی مدد ملنے کی امید ہو۔
اردو میں تصنیف و تالیف کا رواج اور اخبارات وغیرہ کی اشاعت زیادہ تر بیس پچیس برس سے ہوئی ہے اور اس قدر قلیل مدت زبان کی ترویج کیلئے کافی نہیں ہو سکتی۔
اگرچہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ اردو لٹریچر کی جس قدر اشاعت ملک میں زیادہ ہوتی جاتی ہے اسی قدر اردو زبان کی تحریر اور نظم و نثر لکھنے کا طریقہ اطراف ہندوستان میں عموماً بڑھتا جاتا ہے لیکن شاعرانہ خیالات اور خاص کر نیچرل شاعری کے فرائض ٹکسالی زبان میں ادا کرنے کیلئے ایسے محدود ذریعے شاید کافی نہ ہوں۔
اگرچہ ایک جامع اور مستند ڈکشنری بھی (اگر کوئی ہو) اس مقصد کے پورا کرنے میں بہت کچھ مدد پہنچا سکتی ہے مگر اس باب میں سب سے زیادہ مفید اہل زبان کی صحبت اور ان کی سوسائٹی میں اتنی مدت تک بسر کرنا ہے کہ ان کے الفاظ و محاورات بقدر معتدبہ نامعلوم طور پر زبان پر چڑھ جائیں لیکن چونکہ ایسا موقع ہر شخص کو ملنا دشوار ہے اس لئے ضروری ہے کہ شعرائے اہل زبان کا کلام جس قدر زیادہ ممکن ہو غور اور توجہ سے بار بار دیکھا جائے نہ اس ارادے سے کہ خیالات اور مضامین میں ان کی تقلید کی جائے بلکہ اس نظر سے کہ وہ الفاظ اور محاورات کو کس طرح استعمال کرتے ہیں اور خیالات کو کن اسلوبوں اور کن پیراؤں میں ادا کرتے ہیں۔
ابن خلدون کہتے ہیں کہ ”ایک عجمی فصحائے عرب کے کلام کی ممارست سے اہل زبان میں شمار ہونے کے لائق ہو سکتا ہے“ پس ہندوستان کے باشندے اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ اہل زبان کے کلام کی مزادلت سے مثل اہل زبان کے سمجھے جائیں۔
اگرچہ دلی بہت کے بہت سے عمدہ شاعروں کا کلام ابھی تک شائع نہیں ہوا جیسے خواجہ میر اثر ، شاعر نصیر ، میر ممنون# ، معروف# ، عارف وغیرہ حالانکہ ان بزرگوں کے مبسوط اور ضخیم دیوان موجود ہیں۔
لکھنوٴ میں کچھ عجب نہیں کہ وہاں کے بعض مستند لوگوں کا کلام شائع نہ ہوا ہو۔ لیکن جن لوگوں کے دیوان اور کلیات شائع ہو چکے ہیں ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے اور ان میں سے خاص کر میر# ، سودا# ، درد ، جرات ، انشاء ، مصحفی ، میر حسن ، ناسخ ، آتش ، وزیر ، غالب# ، ذوق ، ظفر ، شیفتہ ، داغ ، سالک# ، شوق ،11 رند# ، اسیر# ، برق# ، امیر# وغیرہ کا ہر قسم کا کلام خواہ غزل ہو خواہ مثنوی خواہ قصیدہ خواہ قطعہ و رباعی خواہ سوخت سب دیکھنا چاہئے اور سب سے زیادہ اہم اور ضروری خلیق# ، ضمیر# ، انیس# ، دبیر# اور مونس# وغیرہ ہم کے مرثیں کا مطالعہ ہے اگرچہ بعضے دیوان اور مثنویاں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔
سراسر لغو خیالات اور بے ہودہ مضامین سے بھری ہوئی ہیں۔ لیکن جو لوگ محض زبان سے غرض رکھتے ہیں ، ان کو خیالات کی لغویت اور مضامین کی بے ہودگی سے چشم پوشی اور اغماض کرنا چاہئے اور نہایت صبر و تحمل کے ساتھ اور الفاظ و محاورات اور طرز اور انداز بیان پر ہمت مقصود رکھنی چاہئے۔ نظم کے علاوہ اردو لٹریچر میں جس قدر عملی ، تاریخی ، مذہبی اور اخلاقی مضامین پر مستند اہل زبان نے کتابیں لکھی ہیں ، ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے۔
جو لوگ اپنے تئیں اردو زبان کا مالک سمجھتے ہیں یعنی اہل دہلی یا اہل لکھنوٴ ان کو اس بات پر فخر کرنا نہیں چاہئے کہ ہماری زبان کا لوگ ابتاع کرتے ہیں اور ہمارے روزمرہ کی پیروی کی جاتی ہے۔ ان کو یاد رکھنا چاہئے اگر وہ اپنی زبان کی خبر نہ لیں گے۔ اس کے محفوظ رکھنے کے وسائل بہم نہ پہنچائیں گے۔ اس کے الفاظ و محاورات کو نہایت احتیاط کے ساتھ فراہم اور مرتب نہ کریں گے اور اس کی نظم و نثر کو زمانہ کے مذاق کے موافق ترقی نہ دیں گے تو ان کی زبان کا وہ حصہ جس پر ان کو فخر ہے اور جو ان کی تمام ہندوستان کی اردو میں مابہ الامتیاز ہے وہ حرف غلط کی طرح صفحہ روزگار سے محو ہو جائے گا اور یہی بری بھلی اردو جو عام اخبارات اور جدید تصنیفات کے ذریعہ سے ملک میں پھیل رہی ہے اور جس کو وہ اب تک حقارت کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں زیادہ سے زیادہ نصف صدی میں ملک کی ٹکسالی اور فصیح زبان قرار پائے گی۔

Chapters / Baab of Muqadma Sher O Shayari By Maulana Altaf Hussain Hali