آدم ہم نشینان خاکی

اس کائنات کے کسی اور سیارے پر زندگی کا وجود خارج از امکان نہیں، باوجودکہ تمام تر سائنسی ترقی کے انسان کا علم ناقص ہے، کائنات کے اتنے سربستہ راز ہیں جو ابھی تک انسانی فہم و سخن پر آشکار نہیں ہوئے

ہفتہ 8 فروری 2020

aadam hum nishen`nane khaki
تحریر: صاحبزادہ شمس منیر گوندل

انسان کا مٹی سے رشتہ چند قرنوں کی رفاقت نہیں بلکہ ہزاروں سال کی مسافتوں پر محیط ہے، اس سفر کی طولانی کا صحیح ادراک انسانی عقل و فہم سے ماورا ہے صرف خالق کائنات ہی علیم و خبیر ہے، کب یہ مادی دنیا معرض وجود میں آئی، سائنسدان تو اپنی محدود بساط کے مطابق صرف اندازہ ہی لگاسکتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ ہزاروں صدیاں پہلے یہ کائنات ایک آگ کا گولہ تھی، پھر ایک بہت بڑا دھماکہ ہواء جسے بگ بینگ کہا گیا، جس دھماکے کی وجہ سے بہت سے سیارے اور ستارے وجود میں آئے، کہا جاتا ہے کہ زمین بھی اسی دھماکے سے کائنات کے بکھرے ہوئے تارو پود کا ایک جزو لازم بنی۔

یہ ٹکڑا زمین جس نے سورج کے گرد گردش شروع کردی، شروع میں آگ کی طرح گرم تھا، مگر گزرتے وقت کے ساتھ زمین ٹھنڈی ہوتی گئی پھر اس پر زندگی کا ظہور ممکن ہوا۔

(جاری ہے)

اب یہاں ہم ڈارون کی مضحکہ خیز تھیوری کی طرف دیکھتے ہیں جو کہتا ہے کہ بندر ارتقائی عمل سے انسان بن گئے؛ جبکہ سوچا جائے کہ اگر یہ ہی بات ہے تو موجودہ دور کے بندر انسان کیوں نہیں بنے اور کیا ارتقائی عمل میں ایک آنچ کی کسر باقی رہ گئی ہے۔

یا ان بندروں کو انسان بننے کے لئے سینکڑوں یا ہزاروں سال درکار ہوں گے۔ 
ٓایک امریکی سائنٹسٹ ڈاکٹر ایلس سلور جو کہ ایک بہت بڑا محقق بھی ہے اس کی نئی تھیوری آئی ہے جس میں چند نئے انکشافات کئے گئے ہیں جو عقل سلیم رکھنے والوں کے سامنے ایک نئی سوچ کی جہت کھولتے ہیں۔ ڈاکٹر ایلس کے بقول انسان سیارہ زمین کی مخلوق نہیں بلکہ یہ کسی اور دنیا کا باسی تھا، اس کے بقول انسان کو پتا نہیں کن نا معلوم اسباب کی وجہ سے اپنے سیارہ یا اپنی دنیا سے ہجرت کرنا پڑی یا بے دخلی کے بعد ارضی دنیا کو اپنا مسکن بنانا پڑا۔

اس نے اپنی تحقیق کی کتاب میں کئی دلائل دیے ہیں جو کہ چشم کشا ہیں۔ بقول ڈاکٹر ایلس انسان جو کہ حیوان ناطق ہے باقی تمام حیوانات اور زمین کے جانداروں سے بالکل مختلف ہے، اس کے جینز کُلی طور پر اور نہ ہی جزوی طور پر کسی اور جاندار کے جینز سے مطابقت نہیں رکھتے، اور نہ اس کا ڈی ۔این۔ اے سیارہ زمین کے کسی جاندار سے مشابہت رکھتا ہے، اپنی تحقیق میں ڈاکٹر ایلس کہتا ہے کہ دوسرے ارضی جانداروں کی نسبت انسانی جبلت متضاد ہے، زمین کا درجہ حرارت، سورج کی شعائیں خصوصا الٹرا وائلٹ ریز انسانی جلد کے لئے دوسرے جانداروں یا جانوروں کی نسبت ضرر رساں ہیں۔

یہاں میں اپنے قارئین کو دعوت فکر دیتے ہوئے ایک سوال ان کی سماعتوں کی نذر کرتا ہوں کہ اگر انسان مادی ترقی نہ کرتا، اپنے کھانے کے لئے طرح طرح کے اناج ، فصلیں اُگانے کے لئے کھیت، پینے کے لئے ماکولات ، علاج کے لئے ادویات اور تن ڈھانپنے کے لئے کپڑے اور رہائش پزیری کے لئے مختلف عمارات نہ بناتا تو کیا پھر بھی اس کی زندگی ایسی ہوتی جیسے انسان بسر کر رہا ہے، آپ کا جواب بغیر کسی اُلجھن کے نفی میں ہوگا۔

 
 میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر مذکورہ بالا عوامل کو نظر انداز کر کے دوسرے چوپایوں یا جانداروں کی طرح زندگی بسر کی جاتی تو شائد نسل انسانی اس دنیا میں اس طرح نہ پنپتی جیسی کہ اب ہے۔ رُکیئے ، زرا سوچئے، ڈاینو سارز کرہ ارض کی بہت دیو قامت مخلوق تھے، جو کہ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے معدوم ہوگئے، کیا اس میں بھی کوئی راز پنہاں تھا کہ اتنی ہیبت ناک مخلوق کے وجود سے زمین کو پاک کر دیا گیا، کیا یہ اتفاقیہ امر تھا یا نسل انسانی کی آباد کاری کے لئے فضاء ہموار کی جارہی تھی، کیا ماحولیاتی تبدیلیاں اس لئے کی جا رہی تھی تاکہ بشریت کے تقاضے ممکن کیے جا سکیں۔

ڈاکٹر ایلس جو سائنسدان تو ہے مگر ایک غیر مسلم بھی ہے ، آگے چل کر کہتا ہے ممکن ہے یہ زمین ایک جیل کی مانند ہو جہاں مجرموں کو سزا پوری کرنے کے لئے رکھا جا رہا ہو، اب اس کی تشریح کرتے ہوئے کہتا ہے، یہ اس لئے کہ زمین کا پانی سے گھر ا ہونا اور صرف ایک تہائی خشکی پر مشتمل ہونا اس بات کی علامت ہے کہ یہ دنیا مثل قید خانہ تھی۔ میں بحثیت مسلمان اس بات کو جب دیکھتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ بقول قرآن کریم انسان کا مسکن جنت الفردوس تھی، ہر نعمت غیر مترقبہ اس کے لئے حاضر تھی مگر بدلے میں صر ف ایک مانگ تھی کہ اطاعت رضاء سے ہو اور اس کے لئے بھی بہت بڑا امتحان مقصود نہ تھا، صرف یہ کہا گیا کہ شیطان کی چالوں سے خبردار رہا جائے کیونکہ وہ انسان کو اپنا ازلی دشمن سمجھتا تھا، شیطان نے اس زمین اور آسمان کے چپے چپے پر کم و بیش 6 لاکھ سال تک اللہ تبارک و تعالی کی عبادت کی تھی مگر حکم الہی کے آگے ایک سجدے کے انکار نے اس کو محرم سے مجرم بنا دیا۔

حکم ہوا پہلے تو عزازیل تھا، معلم الملکوت تھا یعنی فرشتوں کا سردار تھا، محرم راز تھا یعنی آسمانوں پر تیرا بے روک ٹوک آنا جانا تھا، اب لعین ہے، ابلیس ہے، راندہ درگاہ ہے، اب آسمان کے دروازے تیرے اور تیرے پیروکاروں کے اُوپر بند ہیں۔ جو تیرے ساتھی ہونگے ان کا ٹھکانہ بھی بھڑکتی ہوئی آگ ہوگی۔
 حضرت آدم کو متنبہ کیا گیا شیطان آپ کو گمراہ کرنے کے لئے مکر و فریب اور کئی قسم کے ڈھونگ رچائے گا مگر آپ کو اس کی چالوں سے بچنا ہوگا۔

اپنے رب العالمین پر تکیہ کرنا ہوگا ، اور صرف اپنے پروردگار کی رحمت کا طلب گار رہنا ہوگا، اور خاص طور پر اس درخت کے نزدیک نہ جانا۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو بجائے اللہ تبارک و تعالی کے برگزیدہ بندے کے کہیں آپ اللہ کے غیض و غضب کو دعوت نہ دے دیں، وہ رب جو ستر ماؤں سے بھی زیادہ آپ پر مہربان ہے ، کہیں آپ کی نافرمانی اس کی صفت قہار سے آپ کا واسطہ نہ ڈال دے۔

 شیطان نے حضرت آدم  کو راہ راست سے بھٹکانے کے لئے بڑی تگ و دو کی، جب دیکھا کہ بات بننا مشکل ہے تو اپنی سمت تبدیل کی یعنی حواء کو گُمراہ کرنے کے لئے اُن کے کان میں بات ڈالی کہ آپ اور حضرت آدم اگر ابدی زندگی کے خواہشمند ہیں تو آپ کو اس درخت کا پھل کھانا پڑے گا، حواء کے استفسار پر شیطان نے جواب دیا کہ اس لئے تو آپ کو اس درخت کا پھل کھانے سے روکا گیا ہے کہ کہیں آپ حیات جاوداں نہ حاصل کر لیں۔

حواء پر شیطان کی محنت رنگ لائی۔ آپ نے حضرت آدم  کو آمادہ کر لیا کہ آئیں اس درخت کا پھل کھاتے ہیں، ایک دفعہ کھانے سے اگر ہم کو ابدی زندگی کی نعمت ملتی ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں، اب میں اپنے قارئین کو زرا یہ بتاتا چلوں کہ حواء کو حضرت آدم  کی بائیں پسلی سے پیدا کیا گیا تھا، دل بھی چونکہ بائیں طرف ہوتا ہے، اس لئے صنف نازک سے محبت فطری امر ہے۔

 
 قرآن پاک میں ارشا د ہے کہ اللہ نے حضرت آدم  کے لئے ان کی بیوی حواء کو پیدا فرمایا، ارشاد ربی ہے کہ حضرت حواء کے ذریعے سے حضرت آدم  کا جوڑا بنایا، تاکہ وہ ان سے سکون حاصل کریں۔ اماں حواء کے کہنے پر جب حضرت آدم  نے منع کئے گئے درخت کا پھل خود بھی کھایا اور حضرت حواء کو بھی کھلایا، تو گویا اللہ تعالی کی ناراضگی مول لی، اللہ تعا لی نے ان دونوں کو جنت سے زمین پر اُتار دیا۔

تو گویا نہ صرف جو مزے تھے وہ تمام ہوئے بلکہ اللہ سبحانہ تعالی کی منشاء کے خلاف کام کرنے کے مرتکب ہوئے۔ بمطابق روایت حضرت آدم  کو سراندیپ جس کو آج سری لنکا کہتے ہیں اُتارا گیا، جبکہ مائی حواء کو جدہ میں اُتارا گیا۔ بعض روایات میں ہے تقریبا 2 صدیوں بعد ان کی عرفات میں ملاقات ہوئی (واللہ اعلم و بالصواب)۔ کالم کی طوالت کو مد نظر رکھتے ہوئے میں واپس اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں۔

 اس کائنات کے کسی اور سیارے پر زندگی کا وجود خارج از امکان نہیں، باوجودکہ تمام تر سائنسی ترقی کے انسان کا علم ناقص ہے، کائنات کے اتنے سربستہ راز ہیں جو ابھی تک انسانی فہم و سخن پر آشکار نہیں ہوئے، انسانی مشن کی سوائے چاند کے کسی اور سیارے تک ابھی تک رسائی نہیں ہوئی، جبکہ یہ بھی کسی حد تک متنازعہ مانا جاتا ہے۔ زمین سے قریب ترین سیارہ مریخ ہے جس پر انسانی مشن بھیجنے کی از حد کاوشیں کی جارہی ہیں، مگر ہنوز دلی دور است۔

ہمارے نظام شمسی کے سیاروں اور سورج کے علاوہ بھی یہ کائنات بہت وسیع ہے جو کہ انسانی قلب و نظر کے احاطے سے باہر ہے، ہماری زمین اس کائنات کی فراخی کے سامنے ریگستان میں زرے کی مانند ہے، صرف خالق حقیقی ہی علیم و خبیر ہے کہ اس نے کہاں کہا ں
 اور کیا کیا پیدا فرما دیا۔ میں بات کر رہا تھا ڈاکٹر ایلس کی تحقیق کی ، اگر اس کی تحقیق پیٹنٹ ہوگئی، اور دوسرے سائنسدان اور ماہرین بھی اس سے متفق علیہ ہوگئے تو گویا اسلام کی حقانیت لوگوں پر روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ انسا ن کا وجود کسی ارتقائی عمل کا مرہون منت نہیں؛ بلکہ حضرت آدم  کو زمین پر اُتارا گیا تھا، دوسری جانب جہاں تک ڈاکٹر ایلس کی دوسری بات کہ یہ دنیا ایک قید خانہ سے مشابہہ ہے تو دیکھا جائے تو یہاں بھی اسلا م کا نظریہ ہی غالب نظر آتا ہے کہ حضرت آدم  کو ایک غلطی کی پاداش میں جنت سے ارض خاک پر اُتارا گیا تھا۔

اگرچہ کچھ مادہ پرست لوگ ہر چیز کو مادیت کے پلڑے میں تولتے ہیں، مگر دن بدن انسانی فہم و فراست کے اُوپر راز ہائے دروں منکشف ہوتے جا رہے ہیں، اسی لئے قرآن کریم میں بار بار انسان کو غور و فکر کی دعوت دی گئی۔ ڈاکٹر ایلس سلور ایک سائنٹسٹ ہے جس کی ہر بات کے پیچھے کچھ مشاہدات کو بنیاد بنایا گیا ہے اور دلائل و براہین بھی اسی تناظر میں دیے گئے۔

کچھ مزے کے پوائنٹس آپ کی نذر کرنا چاہوں گا۔ 
1 ۔ زمین کی کشش ثقل اور انسان کے آبائی وطن کی کشش ثقل میں بہت زیادہ فرق ہے، اس کے بقول جس دیس سے انسان کو نکالا گیا، وہا ں کی کشش ثقل زمین سے کم تھی۔ جس کی وجہ سے انسانی حرکات و سکنات میں دشواری نہ تھی۔ زمین پر انسانوں میں کمر درد کی شکایت زیادہ گریوٹی کی وجہ سے ہے۔ 
2 ۔ بقول ڈاکٹر ایلس انسان کے علاوہ اس کرہ ارض پر کوئی اور ایسا جاندار نہیں جو اتنے دائمی امراض کا شکار ہو، جبکہ باقی جتنے جاندار ہیں ان کے وجود میں عارضی بیماریوں کا بسیرا تو ہو سکتا ہے مگر مستقل روگ کا شکار نہیں ہیں۔

 
 3 ۔ کوئی بھی انسان زیادہ دیر تک دھوپ کی تمازت کو برداشت نہیں کر سکتا، بلکہ کچھ دیر بعد اس کا یا سر چکرانا شروع کر دے گا، یا سن سٹروک کا خدشہ لاحق ہو سکتا ہے، مگر دوسرے جانداروں یا جانوروں میں ایسا ایشو نہیں۔ مہینوں بھی شدید دھوپ میں رہنے کے باوجود سوائے انسان کے کوئی اور جاندار جلدی بیماریوں کا شکار نہیں بنتا۔ 
4 ۔ انسان کبھی کبھی بلا سبب اُداسی کا شکار ہو جاتا ہے، جیسے پردیس میں رہنے والوں کو وطن کی یاد بے چین کئے رکھتی ہے، اس کو بقول ڈاکٹر سلور یہ ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ دنیا اس کا سیارہ نہیں ہے۔

 
5 ۔ زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات کا جسمانی ٹمپریچر خود کار طریقے سے ریگولیٹ ہوتا رہتا ہے، یعنی اگر گرمی ہو یا سردی وہ اپنے آپ کو تھوڑی دیر بعد اس کے مطابق ایڈجسٹ کر لیں گے، مگر حضرت انسان میں ایسا کچھ نہیں، بدلتے موسموں میں اور ماحولیاتی تبدیلیوں میں صرف انسان ہی متاثر ہوتے ہیں، اس لئے موسمیاتی بُخار کا لفظ صرف انسانوں سے ہی منسوب کیا جاتا ہے۔

6 ۔ بقول ڈاکٹر ایلس انسان اس سیارے کی باقی مخلوق سے بہت مختلف ہے، اس کا ڈی ۔این۔اے اور جینز کی تعداد اس سیارہ زمین کے باقی جانداروں کی نسبت مختلف اور بہت زیادہ ہے۔ بقول ڈاکٹر ایلس انسان کی تخلیق جس سیارے پر ہوئی وہ بہت لطیف آب و ہوا کا مخزن تھا، وہاں زمین جیسا گندا ماحول نہیں تھا۔ اس لئے انسا ن کی نرم و نازک جلد زمین کے سورج کی تمازت سے جھلس کر سیاہ ہو جاتی ہے۔

حضرت انسان اتنا نازک مزاج ہے کہ سیارہ زمین پر آنے کے بعد بھی اپنی زندگی میں آسائشوں اور آرام کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں رہتا ہے، جیسے کہ پر تعیش بستر، آرام دہ محلات و مکانات اور پرسکون زندگی کی تلاش۔ جب کہ باقی مخلوقات ان سہولیات کی باہم رسانی سے بے نیاز ہیں۔ انسان کے علاوہ باقی جاندار تھرڈ کلاس زندگی پر قانع اور عادی ہیں، مگر انسان خوب سے خوب تر کا متلاشی۔

ان مخلوقات کے ساتھ ہمسائیگی کی وجہ سے انسان کی فطرت میں کسی حد تک خونخواری کا عمل دخل ضرور ہواء مگر بقول ڈاکٹر ایلس انسان کی اصلیت محبت ، امن و سکون، فنون لطیفہ سے لبریز زندگی تھی۔ وہ کہتا ہے یہ ایسا قیدی ہے جسے بطور سزا اس تھرڈ کلاس سیارے کی سکونت دی گئی، تاکہ اپنی سزا کی مدت پوری کر کے واپس اپنے آبائی وطن کی طرف مراجعت کرے۔ ڈاکٹر ایلس کے دلائل فطرت کے بہت قریب ہیں اور ابھی تک ان کو کوئی رد نہیں کر سکا۔

بدلتے لمحوں کے ساتھ صفحہ قرطاس پر ریکارڈ کی درستگی ہو رہی ہے، جو کہ دین حق کی برُہانیت کی روشن دلیل بنتی جا رہی ہے۔ فرمان الہی بھی ہے کہ دنیا دار العمل ہے، یہ تمہارا مستقل ٹھکانہ نہیں ہے، یہاں جو بوؤ گے وہاں کاٹو گے، اچھے اعمال پر تم کو وہ جنت بطور انعام ملے گی ، جس کو تمہارے آباء چھوڑ کر آئے تھے، ایسی زندگی جو انسانی وہم و گمان سے ماوراء مگر جہاں نہ موت ہوگی، نہ تکلیف، نہ دکھ ہو گا، نہ آلام، جہاں صرف راحت ہی راحت ہوگی اور جس کو دوام ابدی ہوگا۔

جو کثافتوں سے مبراء مگر لطافتوں سے لبریز ہوگی۔
آدم دنیا میں مثل مسافر رہے گا تو کامیابی اس کی ہم رکاب ہوگی، اگر اس عارضی زندگی میں فرش خاک کو اپنی منزل سمجھ بیٹھا تو سوائے منزل کھوٹی کرنے کے اور ناکامی و نا مُرادی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

aadam hum nishen`nane khaki is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 February 2020 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.