عرب ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم

ترکی کا اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کرنا احسن اقدام نہیں

جمعہ 22 جنوری 2021

Arab Mumalik Main Israel Ko Tasleem Karne Ki Mohim
وسیم احمد باجوہ
ترکی عالم اسلام کا پہلا ملک ہے جس نے اپنے سیکولر تشخص کو برقرار رکھنے کیلئے اسرائیل کو 1949ء میں ہی تسلیم کر لیا تھا۔دونوں ممالک کے تعلقات جغرافیائی قربت اور مشترکہ مفادات کے باعث معاشی،تجارتی،دفاعی اور سیاحتی شعبوں تک پھیلتے گئے اور حالیہ برسوں میں اس دو طرفہ تجارت میں اچھا خاصہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ترکی یورپی یونین کا ممبر ملک بننے کے لالچ میں آج بھی نیٹو فورس کا حصہ ہے اور نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے میں ترک افواج کے دستے نے افغانیوں کے قتل عام میں بھرپور کردار ادا کیا تھا۔

خطے میں دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کیا یک جھلک تو آذربائیجان اور آرمینیا کی حالیہ جنگ کے دنوں میں بھی نظر آئی،جہاں ترکی اور اسرائیل یکساں موٴقف اپناتے ہوئے ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے نظر آئے تھے۔

(جاری ہے)

دوسری طرف ترک صدر طیب اردگان اسرائیل کو دہشت گرد اور فلسطینی بچوں کا قاتل بھی قرار دے چکے ہیں۔اسرائیلی پالیسیوں کو بے رحمانہ اقدام اور ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ فلسطینی پالیسی ہماری ریڈ لائن ہے،حال ہی میں حماس کے تقریباً ایک درجن رہنماؤں کو ترک پاسپورٹ جاری کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے اسرائیل بہت پریشان ہے۔


ترکی غزہ میں گھرے ہوئے فلسطینیوں کی مدد کے لئے Freedom Flotilla بھی روانہ کرتا ہے اور دنیا بھر میں فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف ناصرف آواز اٹھاتا ہے بلکہ احتجاجاً اپنا سفیر بھی واپس بلا کر سفارتی تعلقات منقطع کر لیتا ہے اگر ہم ان دونوں ممالک کی تقریباً پون صدی پر محیط سفارتی تعلقات کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں چار مواقع پر ایسا ہو چکا ہے کہ ترک اسرائیل سفارتی تعلقات یا تو منقطع ہوئے یا انتہائی نچلی سطح پر چلے گئے۔

سب سے پہلے 1956ء میں جب اسرائیل برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی سے صحرائے سینا پر جارحیت کا مرتکب ہوا تو ترکی نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے سفارتی تعلقات منقطع کئے پھر 1980ء میں جب اسرائیل مشرقی نے یروشلم پر قبضہ کیا تو ترکی نے دوبارہ اسرائیل سے تعلقات توڑے جو 90 کی دہائی میں اوسلو امن معاہدے کے بعد بحال ہو گئے۔
2010ء میں اسرائیل نے غزہ پر چڑھائی کی اور فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تو ترکی کی ایک تنظیم کی طرف سے فلسطینیوں کو امدادی اشیاء پہنچانے کی غرض سے بھیجے گئے جہاز فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی فوج نے دھاوا بول دیا ا س یلغار میں دس ترک شہری ہلاک ہوئے اس واقعہ کے بعد بھی ترکی اور اسرائیل کے تعلقات ختم ہو گئے اور آخری دفعہ 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے امریکی ایمبسی کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے فیصلے کے بعد ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی مظالم روا رکھنے پر ترکی نے اپنا سفیرواپس بلا لیا تھا بلکہ اسرائیل کے سفیر کے ساتھ ساتھ امریکہ کے سفیر کو بھی ترکی سے نکال باہر کیا تھا اس موقع پر تلخیاں اس حد تک بڑھیں کہ دونوں ممالک کے سفیروں کی اپنے اپنے ملک روانگی کے وقت سفارتی آداب کا بھی خیال نہیں رکھا گیا اب گزشتہ کچھ عرصے سے امریکی دباؤ کی وجہ سے عرب ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ایک مہم جاری ہے بلکہ دوڑ لگی ہوئی ہے کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔

ان حالات میں مسلم اُمہ کے اس لیڈنگ ملک نے تقریباً ڈھائی سال کے تعطل کے بعد اسرائیل میں ترک سفیر کی دوبارہ تعیناتی کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ترکی کی جانب سے 40 سالہ سفیر افق التاس کی نامزدگی کا فیصلہ امریکہ کی جانب سے ترکی پر تجارتی پابندیاں عائد کرنے کے ٹھیک ایک دن بعد سامنے آیا جسے ٹائمز آف اسرائیل نے امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش قرار دیا اور یروشلم پوسٹ نے لکھا کہ ترکی اپنے آپ کو”گڈ کاپ“ کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے اور اسرائیل کو اپنے اتحادیوں عرب امارات اور یونان سے دور کرنا چاہتا ہے۔

ترکی کا کردار داغ دہلوی کے اس شعر کہ․․․․
”خو ب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں،صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں“
کے مصداق نظر آتا ہے۔اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرنے والے عرب ملکوں کو فلسطین سے غداری کے طعنے دینے اور فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا الزام لگانے والے طیب اردگان نے خود اسرائیل سے تعلقات بحال کرکے اور وہاں اپنا سفیر نامزد کرکے مشرق وسطیٰ کے انتہائی گنجلک اور پیچیدہ جیو سٹریٹجک منظر نامے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے اگرچہ اس موقع پر کہا یہ جا رہا ہے کہ ترک سفیر کو یروشلم کی بجائے تل ابیب میں ہی تعینات کیا گیا ہے کیونکہ اگر ایسا کیا جاتا تو یہ یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے مترادف تھا بہرحال ترکی کا یہ اقدام اگر اس انداز میں فلسطینیوں سے روابط قائم رکھنے اور ان کی مدد جاری رکھنے کے اعتبار سے کوئی سیاسی اور سفارتی چال بھی ہے تو پھر بھی ترک صدر کو مسلم ممالک کے دیگر سربراہان کو اعتماد میں لے کر یہ قدم اٹھانا چاہئے تھا خاص طور پر اس موقع پر جب امریکہ مسلم ممالک پر اسرائیل کو تسلیم کروانے کیلئے بھرپور پریشر ڈال رہا ہے ان حالات میں ترکی کا اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اقدام امریکہ اور اسرائیل کے سامنے سرنڈر کہلائے گا جو دینی اور دنیوی اعتبار سے کسی صورت احسن اقدام نہیں ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Arab Mumalik Main Israel Ko Tasleem Karne Ki Mohim is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 January 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.