"بابل اَسی اُڈ آنا . . ." چوہدری نثار کی "انٹری" ہونے والی ھے

"ترمیمی بل ڈرون حملہ" اور "عسکری این آر او" کی تفصیلات

علیم عُثمان منگل 7 جنوری 2020

Babul Asi Udd Jana
باخبر حلقوں نے انکشاف کیا ھے کہ سروسز ایکٹ ترمیمی بل کی حمائت کے بدلے میں مُقتدر حلقوں نے پیپلز پارٹی کو اگلے سیٹ اپ میں بھی سندھ حکُومت اور "نُون" لیگ کو پنجاب دینے کی یقین دہانی کروائی ھے جبکہ مرکز میں کسی "ان ھاؤس" تبدیلی کا باب بند ھو گیا ھے اور سویلین و عسکری قیادت پر مَشتمل موجُودہ سیٹ اپ ہی اپنی مُدّت پُوری کرے گا . اس کے علاوہ نوازشریف کی جماعت کے ناراض رہنما ، سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کی مُلکی سیاسی منظر نامے پر دوبارہ "انٹری" کا امکان ھے جنہیں پارٹی میں اھم ذمہ داری دیئے جانے کا امکان ھے ، جو مُلک کے سیاسی اُفق پر جلد نمُودار ہو کر سرگرم ھوں گے اور پارٹی صدر شہبازشریف کے ھمراہ "نُون لیگ" کو لیڈ کریں گے .

(جاری ہے)


ذرائع نے مزید انکشاف کیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو عُہدہ پر برقرار رکھنے کی غرض سے درکار قانُون سازی کےلئے پارلیمنٹ میں جو بل لایا گیا ، "نُون لیگ" کی طرف سے اُس کی غیر مشرُوط حمائت کی بابت پارٹی صدر شہباز شریف اور قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف کے پیشگی بیان کو مُقتدر حلقوں نے یکسر مُسترد کرتے ھُوئے تقاضا کیا "ھمیں اس بارے نوازشریف کا بیان چاہیئے" ذرائع کا کہنا ھے کہ مُقتدر قُوتوں نے دوٹوک تقاضا کیا کہ اس بابت ہر صُورت نوازشریف کا بیان آنا چاہیئے ، اس پر مُتذکرہ ترمیمی بل کی منظُوری کا پراسیس "طویل" کرودایا گیا ، اور یُوں یہ پارلیمانی پراسیس جہا‍ں ایک طرف مریم نواز گرُوپ کی مزاحمت نے لمبا کروایا ، وہیں اس کی وجہ خُود مُقتدر حلقے بھی بتائے جاتے ہیں جنہوں نے "نُون لیگ" کی حمایت بارے پارٹی قائد کے براہ راست "میسیج" کےلئے قومی اسمبلی کی پُوری کارروائی hold کروادی .


چُنانچہ نوازشریف نے اپنا "مُثبت" پیغام مُقتدر حلقوں تک پُہنچا تے ہُوئے یہاں "نُون لیگ" کی پارلیمانی پارٹی کو بھی "او کے" کا فائنل سگنل دیا . اس سے قبل مریم نواز کو "باہر" بھجوانے سے مُتعلّق نوازشریف کی واحد شرط مان لینے کی گارنٹی پہلے ہی دے دی گئی تھی
باخبر حلقوں نے بتایا ھے کہ ترمیمی بل کی حمایت کے بدلے میں آصف زرداری نے 2 باتوں کی یقین دہانی حاصل کی ھے ، 1 یہ کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکُومت کو ڈسٹرب نہیں کیا جائے گا ، اور دُوسرا یہ کہ اگلے سیٹ اپ میں بھی سندھ پیپلزپارٹی کے حوالے کیا جائے گا جبکہ شہبازشریف نے آئندہ سیٹ اپ "نُون لیگ" کو دیئے جانے کی یقین دہانی حاصل کی ھے .


ذرائع کے مُطابق اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے تمام زیر حراست رہنماؤں کو ضمانت پر رہا کر دیئے جانے اور کوئی نئے مُقدّمات نہ بنائے جانے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی ھے  البتہ حکُومت کی "فیس سیونگ" کےلئے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف پہلے سے قائم مُقدّمات واپس نہیں لیے جائیں گے بلکہ اُنہیں go slow کی پالیسی کے تحت چلایا جائے گا .
دُوسری طرف مُلکی سیاست میں فیصلہ کُن کردار کی حامل قُوتوں نے حُکمران سیاسی قیادت کو بھی اس "سیاسی ہلّے" میں "فکس آپ" کردیا ھے ، جسے اپنے واحد اور پاپُولر بیانیہ کی قُربانی دیتے ہُوئے NAB کے دانت توڑ دینے والا ترمیمی قانوُن لانے سمیت مُتعدّد اھم فیصلے لینے پر مجبُور ہونا پڑا ، جن کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ کی مذکُورہ ڈیل اور اپوزیشن قیادت کو دیا جانے والا "این آر او" مُمکن بنایا جانا تھا
ذرائع کے مُطابق ترمیمی بل کی دوٹوک حمائت کے مقصد سے کئے گئے اسٹیبلشمنٹ کے اس "سیاسی کریک ڈاؤن" نے سابق حُکمران جماعت پاکستان مُسلم لیگ (نواز) کو پارہ پارہ کر کے رکھ دیا ھے .

اس ھنگامی "کریک ڈاؤن" سے "نُون لیگ" میں اس بُری طرح ٹُوٹ پھُوٹ ہُوئی کہ مریم نواز اور پرویز رشید نے شدید ردّ عمل دکھایا اور نواز شریف سے فوری رابطہ کرکے پارٹی عُہدوں سے مُستعفی ھونے کا اعلان کردیا تھا  . .
اسی طرح مُسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اراکین کی طرف سے بھی شدید ردّ عمل دیکھنے میں آیا جہاں رحیم یار خان سے مُنتخب ایم این اے شیخ فیاضُ الدّین ، گوجرانوالہ سے مُنتخب رُکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نثار چیمہ ،
چنیوٹ سے رُکن قومی اسمبلی قیصر شیخ اور شیخُوپُورہ سے ایم این اے جاوید لطیف سمیت بُہت سے شُرکاء نے قیادت کے اس فیصلے پر کڑی نُکتہ چینی کرتے ہُوئے کہا "اب ھم اپنے حلقے میں کس مُونہہ سے ووٹروں اور ورکروں کا سامنا کریں گے؟"
ذرائع کے مُطابق مُسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال ، خواجہ سعد رفیق اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جیسے "نُون لیگ" کے مرکزی رہنماء تو پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شریک ہی نہیں ہُوئے جو اگرچہ پروڈکشن آرڈر پر اسمبلی سیشن میں آئے مگر قیادت کے اس "یُوٹرن" کی وجہ سے اُنہوں نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا .

بتایا جاتا ہے کہ "نُون لیگ" کے 25 ارکان پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے غیرحاضر تھے  ...
سنجیدہ حلقے صُورتحال کو "نُون لیگ " میں پھُوٹ پڑ جانے اور ایک طرح سے بغاوت سے تعبیر کررہے ہیں ..
دُوسری طرف مُبصرین اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی صُورتحال پر اس سے بھی زیادہ سکتے کی کیفیت میں ہیں جس کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی یا پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اراکین کو ایسا ردّ عمل دکھانے کی بھی توفیق نہیں ہُوئی .

. اور مُقتدر طاقتوں نے اپنے مقصد کےلئے آنا" فانا" پارلیمنٹ میں مثالی "اتّفاق رائے" حاصل کرلیا ، جہاں "نہیں چھوڑُوں گا" اور "این آر او نہیں دُوں گا" کہتے کہتے نہ تھکنے والے کی حُکمران جماعت اور زیر عتاب بڑی اپوزیشن پارٹیاں ، سب حالیہ دنوں میں "ایک پیج" پر نظر آئی ہیں
سنجیدہ سیاسی حلقوں کا کہنا ھے کہ حالیہ چند روزہ "سیاسی کریک ڈاؤن" سے ایک طرف اسٹیبلشمنٹ انتہائی طاقتور ہو کر اُبھری ھے تو دُوسری طرف سیاسی جماعتیں ، خاص کر بڑی سیاسی قیادت تشویشناک حد تک کمزور ، مجبُور اور بودی لیڈرشپ کے طور پر بے نقاب ھُوئی ھے .

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Babul Asi Udd Jana is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 January 2020 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.