ڈالر،مہنگائی اور قرضوں میں اضافہ

۔مسلم لیگ (ن)کے دور میں ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ قرض لیے گئے ہیں اور ہر شہری کتنے ہزار کا مقروض؟

پیر 26 نومبر 2018

dollar mehengai aur qarzon mein izafah
ضیاالحق سرحدی
تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود وطن عزیز کی معیشت برس ہا برس سے ہچکولے کھا رہی ہے۔دوسری طرف ملک وقوم پر قرضوں کا بوجھ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتاہی چلا جا رہا ہے۔اُس میں ذرّہ برابربھی کمی واقع نہیں ہو رہی ہے۔گزشتہ دنوںڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح 138روپے فی ڈالرپر پہنچ گئی۔اس میں ایسے ایسے نقصانات مضمر ہیں کہ جن کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

گزشتہ دنوں بھی اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی اونچی اُڑان جاری رہی اور کاروبار کے اختتام پر ڈالر 135.50روپے پر فروخت ہوا۔ملکی تاریخ میں ڈالر کی قیمت میں ریکارڈاضافے کے نتیجے میں پٹرول،دالوں،ادویات،کاسمیٹکس،خوردنی تیل،خشک دودھ،لیدربیگ،درآمدی ملبوسات،سگریٹ وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ لازمی امر ہے۔

(جاری ہے)

ایسی صورت حال میں اشیاء صرف کی قیمتوں میں مزید اضافہ عوام کے لیے پریشانی کا باعث بن رہاہے۔

ایسا کب تک چلتا رہے گا۔ڈالر کی من مانیاں کب تک جاری رہیں گی۔کب ہماری حکومت اس صورت حال سے نکلنے کی پوزیشن میں آئے گی، لوگ فکر مند ہیں۔پی ٹی آئی کے میڈیائی طرفداروں اور اس کے ووٹروں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ عمران خان کے برسراقتدار آتے ہی مہنگائی کا طوفان اٹھے گا جو عوام الناس کی چیخیں نکال دے گا۔آئی ایم ایف کے پاس جانے کے اعلان کے ساتھ ہی اوپن مارکیٹ میں ڈالر چند دن پہلے 138روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔

اس کے ساتھ ہی بغیر کچھ لیے قرضوں میں تقریباً 9کھرب روپے کا اضافہ ہو گیا جبکہ درآمدی ایل این جی گیس بھی مہنگی کر دی گئی ہے۔جس کا بوجھ صارفین پر مزید مہنگی بجلی کی شکل میں پڑے گا۔ادھر 8اکتوبر کو پاکستان سٹاک مارکیٹ میں بدترین مندی سے 2کھرب 38ارب رو پے ڈوب گئے۔ دراصل پی ٹی آئی بغیر کسی ہوم ورک کے اقتدار میں آگئی ہے اور جمہوری سیاست کرنے کے بجائے سیاسی انتقام کی روش پر چل نکل ہے۔

اگر پچھلے سولہ برسوں کا حساب دیکھیں تو خوفناک صورتحال سامنے آتی ہے کہ 2001ء میں ایک ڈالر کی قیمت 59روپے لے لگ بھگ تھی جبکہ نومبر 2013ء میں یہ 109روپے تک پہنچ گئی۔یعنی اس دوران ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں85فیصد تک کمی آئی ہے۔آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں نے ملکی معیشت کو کس طرح مزید کمزور کیا ہے۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں کرنسی کی قیمت پر کنٹرول رکھنے کے لیے سٹیٹ بینک کی مداخلت بے حد اہم تھی تاہم آئی ایم ایف کی ہدایت کے مطابق سٹیٹ بینک اب ایسا نہیں کر سکتا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں کرنسی کی قدر کا دارومدار ڈیمانڈ اینڈ سپلائی پر ہے،اگر ڈالر کی طلب زیادہ ہوگی تو مارکیٹ اوپر چلی جائے گی۔دوسرے لفظوں میں کرنسی مافیا کو کھلی چھٹی مل گئی ہے کہ وہ جب چاہیں ڈالر کا بحران پیدا کر کے ملکی معیشت کی گردن دبوچ لیں۔گزشتہ چند برسوں میں تجارتی خسارہ بہت بڑھ چکا ہے ،جو تقریباً30 ارب ڈالر ہے۔

اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے دوبارہ فنانسنگ کی ضرورت پڑے گی،جس کیلئے شاید ہمارے پاس اتنے زیادہ وسائل نہ ہوں ،اس کے علاوہ آئندہ چند ماہ میں قرضوں کی ادائیگی بھی کرنی ہے۔اگر ہم نے برآمدات بڑھانی ہیں تو اس کیلئے روپے کی قدر کو کم کرنا پڑے گا۔ لیکن ساتھ ہی روپے کی قدر میں کمی سے غیر ملکی کرنسی میں قرضوں کا بوجھ اور زیادہ بڑھ جائے گا۔

اگر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت مزید ایک روپیہ کم ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ 70ارب ڈالر کے قرضوں میں 70ارب روپے کا اضافہ ہو جائے گا،دوسری طرف درآمدات مہنگی اور افراط زر میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔جس سے معاشی ترقی کی رفتار کم ہو کر زیر تکمیل منصوبوں کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ان سب چیزوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے تاہم اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اگر برآمدات بڑھ جاتی ہیں اور حکومت کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو قابو کر لیتی ہیں تو پھر ادائیگی کے تواز ن میں جو مسائل ہیں وہ کم ہو جائیں گے۔

مسلم لیگ (ن)کے دور میں ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ قرض لیے گئے ہیں اور ہر شہری پر97535روپے قرض کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔ پاکستان کی تاریخ کے70برس میں کسی ایک سال میں لیا جانے والا سب سے زیادہ قرضہ 10ارب 55کروڑ ڈالرگزشتہ برس لیا گیا۔میاں نواز شریف کی حکومت نے چارسال میں 35ارب ڈالر قرض لیا،جو ایک ریکارڈ ہے۔ضروری ہے کہ اب غفلت اور لاپروائی برتنے کے بجائے ڈالر کی قدر میں کمی لانے کے لیے بہتر حکمت عملی ترتیب دی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

dollar mehengai aur qarzon mein izafah is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 November 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.