عید کی خوشیاں مہنگائی نے چھین لیں

85 فیصد لوگ کئی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر پاتے

ہفتہ 1 جون 2019

EID Ki Khushiyaan Mehengai Nee Cheen Li
 بلال شیخ
عید مسلمانوں کے لئے بہت متبرک اور محبتوں کا تہوار ہوتا ہے ۔خصوصاً عید الفطر کو بچوں کی میٹھی عید کہا جاتا ہے لیکن دوسری طرف تلخ حقیقت یہ ہے کہ معاشی دباؤ اور مسائل کے باعث زیادہ تر گھرانے عید کی خوشیوں سے اس طرح لطف اندوز نہیں ہو پاتے جو اُن کی خواہش اور حق ہے ۔اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ اور معاشی ناہموار یوں کے باعث والدین کے لئے عید بہت سے چینلجز لے کر آتی ہے ۔

پاکستان میں ہر سال عید کے تہورار پر 900سے 1000ارب روپے کے اخراجات کئے جاتے ہیں ۔اگر چہ ان اعداد وشمار میں اضافہ ہر سال دیکھنے کو ملتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ افراط زر کے لحاظ سے یہ اخراجات اصل میں وہی پر کھڑے ہیں جو آج سے دس پندرہ سال پہلے تھے۔
پاکستان میں رمضان کی آمد سے پہلے سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوجاتا ہے ۔

(جاری ہے)

اس سال لیموں کی قیمتوں نے پورے رمضان سر اٹھائے رکھا جس کی قیمت پورے ملک میں 500سے 600روپے فی کلو ریکارڈ کی گئی ،اسی طرح ٹماٹر کی قیمت رمضان سے پہلے 200سے فی کلو سے آہستہ آہستہ کم ہوئی۔یہی حال پھلوں کا بھی ہے جو کیلا رمضان سے پہلے 40روپے درجن فروخت ہو تا رہا وہ 120سے 200روپے درجن تک فروخت ہوا۔
پوری دنیا خصوصاً یورپ اور امریکہ میں رمضان کیلئے خصوصی کاؤنٹر لگائے جاتے ہیں اور اشیاء کی قیمت کم کردی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں صورتحال یکسر مختلف ہے چینی ،پھل ،سبزیاں اور دیگراشیاء کی قیمتوں پر عروج آجاتا ہے ۔

پاکستان میں رمضان بازاراور سستے بازاروں کارواج بہت عام ہے جسے سیاسی فوائد کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ پورے معاشرے کو مل کر ناجائز منافع خوروں کے خلاف جہاد کرنا چاہئے لیکن ہماری عوام حکومت کو کوسنے پر لگی رہتی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں طلب ورسد اشیاء کی قیمت کا فیصلہ کرتی ہیں ۔پاکستان میں فلاحی ریاست کا تصور کبھی رہا ہی نہیں ایسے میں سرمایہ دار اپنی من مانی کرتے ہیں ۔


حکومتیں سیاسی دباؤ کم کرنے کیلئے رمضان بازاراور یوٹیلٹی سٹورز پر سبسڈی دیتی ہیں جو بیرونی قرضوں کی مد میں کی جاتی ہے اور وہ بھی صارف ہی کی جیب پر بوجھ کی صورت میں اثر انداز ہوتی ہے ۔دنیا میں جہاں بھی سرمایہ دارانہ نظام معیشت چل رہا ہے وہاں پرائس کنٹرول اور سبسڈی کارواج نہیں ،حکومت ٹیکس حاصل کرکے عوامی فلاح وبہود کیلئے خرچ کرتی ہے جہاں ٹیکس دینے کا رواج نہ ہو اور کرپٹ عناصر قرضے لے کر حکومتیں چلاتے ہوں وہاں قیمتوں کا آسمان سے باتیں کرنا قدرتی اَمر ہے۔


پاکستان میں ایک سروے کے مطابق85 فیصد لوگ عید پر مہنگائی کے باعث کئی ضروریات سے محروم رہ جاتے ہیں ۔نئے کپڑے،نئے جوتے سیر وتفریح،مہمان داری اور کھانا پینا یہ عید کی بنیادی ضرورت ہے۔ایک اندازے کے مطابق عید پر اوسطاً فی کس ایک ہزار روپے خرچہ ضرور کیا جاتا ہے جس میں کم آمدنی والے حضرات اور خاندان شامل ہیں لیکن یہاں ہم اوسطاً اخراجات کی بات کررہے ہیں ۔

نئے ملبوسات کی طرف ہی توجہ دے لیتے ہیں ۔
پاکستانی مارکیٹ میں برینڈڈکپڑوں کا رواج ہے جو عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہوچکے ہیں خصوصاً خواتین کے کپڑوں کے نت نئے برینڈز نے پوری مارکیٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ایک عام لان کا برینڈڈ سوٹ2500 روپے سے شروع ہو کر25000 ہزار روپے تک فروخت ہورہا ہے ۔یہی صورتحال مردانہ برینڈڈ کپڑوں کی بھی ہے ۔

عام مردانہ سوٹ کی قیمت3000 ہزار سے شروع ہو کر12000 ہزار روپے تک ہے یہی صورتحال بچوں کے کپڑوں کی بھی ہے ۔اس موقع پر کلیرنس سیل سے مکمل اجتناب کیا جاتا ہے ۔عوامی سطح پر جن کپڑوں سے سیل لگائی جاتی ہے وہ سارا مال پرانا اور غیر معیاری ہوتا ہے جو تاجر حضرات اس لیے فروخت کرتے ہیں کیونکہ یہ بالآخر فروخت ہوہی جانا ہوتا ہے ۔روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی میں خریداری کی سکت دن بدن کم ہوگئی ہے۔


حقیقتاً یہ عید بچوں کے نام ہوتی ہے ۔یہاں بھی والدین کا ایک امتحان شروع ہو جاتا ہے ۔پاکستان چمڑے کی ایکسپورٹ میں بہت کامیاب ہے لیکن جوتوں کی قیمت میں پچھلے دس سالوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ایک عام طرز کے جوتے کی قیمت 1000روپے سے 4000ہزار روپے تک جا پہنچی ہے ۔خواتین کے جوتوں کی قیمت بھی اسی طرح بڑھی ہیں ۔بچوں کے کپڑوں اور جوتوں کی قیمت زیادہ رکھی جاتی ہے کیونکہ دکاندار کو پتہ ہوتا ہے کہ والدین بچوں کو چیزیں دلاہی دیں گے۔


مہنگائی کے انڈیکس نے سیروتفریح کی قیمت کو بھی بہت بڑھادیا ہے ۔اگر چہ وزیر اعظم عمران خان اس سلسلے میں بہت سنجیدگی سے بیانات دیتے ہیں لیکن ایک وقت میں چھ افراد کی فیملی گھر سے سیر کرنے نکلے اورمحدود سطح پر رہتے ہوئے کھائے اور پےئے تو خرچہ ایک ہزار سے زیادہ ہی ہوتا ہے ۔پاکستان میں یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ پارکوں ،سینما گھروں یا کسی دیگر تفریح گاہ پر اشیاء انتہائی غیر معیاری اور مہنگی ہوتی ہیں مثلاً بوتل جو عام طور پر بازار میں پچاس روپے میں دستیاب ہے تفریح گاہ پر70 سے80 روپے میں فروخت کی جاتی ہے ۔

ان پارکس وغیرہ کی سکیورٹی اور ڈسپلن بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
عید کے دن میل ملاقات بہت بڑھ جاتا ہے ۔ایک دوسرے کے گھروں میں ملنے جانا ہمارے معاشرے کا حصہ ہے۔ایک اندازے کے مطابق صرف پچھلے چارماہ میں افراط زر کی شرح دو سے تین فیصد تک بڑھ گئی ہے جس کے باعث خوراک سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے ۔گوشت ،سبزی اور دالوں کی قیمتوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے ،عید کے دنوں میں مہمان داری بھی ایک مشکل کام ہو چکا ہے ۔


پاکستان میں ہر سال عید پر تقریباً40 ارب روپے کے قریب نئے نوٹ جاری کئے جاتے ہیں جو ایس ایم ایس کے ذریعے بینکوں سے لیے جاتے ہیں ۔اس کے علاوہ بینکوں کے کاؤنٹر ز اور اے ٹی ایم مشینوں سے 400سے 450ارب روپے ادا کئے جاتے ہیں ۔یہ تمام رقم اگر چہ پوری خرچ نہیں ہوتی لیکن ایک اندازے کے مطابق200 سے250 ارب روپے عید پر خرچ ہوتے ہیں ۔رمضان اور عید کے درمیان غیر ممالک سے تقریبا چار ارب ڈالر زائد بھجوائے جاتے ہیں ۔

اسی طرح عیدی کی مد میں اندازاً100 سے 150ارب روپے دےئے جاتے ہیں ۔
عید خوشیوں کا تہوارہے اس پر دباؤ صرف مہنگائی کا ہی نہیں بلکہ چوربازاری، ناجائز منافع خوری اور غیر معیاری اشیاء کی فروخت کا بھی ہے ۔ملک میں جب تک سب مل کر اس طرح توجہ نہیں دے گے عید کی خوشیوں کا خزانہ چند خاندانوں تک محدود ہو جائے گا جو اسے برداشت کرسکیں گے حالانکہ ان کے لئے ہر دن ہی عید کاہوتا ہے اس سلسلے میں سارے معاشرے کو مل کرسوچناہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

EID Ki Khushiyaan Mehengai Nee Cheen Li is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 June 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.