بھارت نے کشمیر پر ٹرمپ کی ثالثی مان لی توپھر؟

اگر مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی حکومت مستقبل قریب میں کوئی بڑی اچیومنٹ نہ کرسکی تو پاکستانی پبلک کے جذبات کا ملبہ پاکستانی حکومت اور بااختیار لوگوں پر گرے گا۔

Syed Sardar Ahmed Pirzada سید سردار احمد پیرزادہ پیر 23 ستمبر 2019

india nw kashmir pt trump ki salsi maan li tu phir
بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے سامنے تین ایریا کی پبلک رہی ہے۔ پہلی پاکستان کی پبلک، دوسری بھارت کی پبلک اور تیسری بین الاقوامی پبلک۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم اور مظلوم کشمیریوں کی کسمپرسی کی حالت زار مندرجہ بالا تینوں ایریا کی پبلک کو بتاتا چلا آرہا ہے جس کے باعث پہلا یہ کہ پاکستان کی پبلک کشمیر کے سلسلے میں عموماً حکومتی بیانئے کو تسلیم کرتی ہے۔

پاکستانی حکومتیں اِس سلسلے میں ہمیشہ کامیاب رہتی ہیں کہ کشمیر کی آزادی کے لیے وہ اپنی پبلک کو دل و جان سے اپنے ساتھ پاتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ پاکستانی حکومتیں بھارتی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے معاملے میں بھارتی پبلک کو اپنے بیانئے سے تھوڑا سا بھی متاثر کرنے میں کامیاب نہیں رہتی تھیں۔

(جاری ہے)

تیسرا یہ کہ پاکستانی حکومتیں بین الاقوامی پبلک کو کشمیر کے معاملے میں اپنے ساتھ ملانے میں ظاہری طور پر بھی کم کامیاب رہتی تھیں۔

جموں اور سری نگر کی کشمیر وادی کو انڈین یونین میں شامل کرنے کے 5اگست 2019ء کے بھارتی اقدام کے خلاف پاکستان نے اپنا ردعمل مندرجہ بالا تینوں ایریا کی پبلک تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کی جس کے دوسری اور تیسری دو ایریا کی پبلک کے حوالے سے ذرا مختلف نتائج سامنے آئے۔ پاکستان کی پبلک پہلے کی طرح دل و جان سے مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ہی کھڑی نظر آئی۔

پاکستان کے سامنے دوسرا ایریا بھارتی پبلک بھی ہوتی ہے۔ اس پبلک نے بھی کچھ تبدیلی محسوس کی۔ مطلب یہ کہ اِس مرتبہ بھارت کے اندر بھی مقبوضہ کشمیر کو انڈین یونین میں شامل کرنے کے خلاف ہلکی اور کچھ اونچی آوازیں سنائی دیں جن میں سب سے اہم بھارتی مقبوضہ کشمیر کی وہ سیاسی قیادت ہے جو اس سے قبل بھارت کو اپنا سرپرست مانتی چلی آرہی تھی جس میں فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسی لیڈرشپ شامل ہے۔

بین الاقوامی پبلک کے سلسلے میں پہلے سے مختلف بات یہ ہوئی کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو کچھ ظاہری سفارتی کامیابیاں ملیں۔ بیشک اِن کے فوائد فوری نہیں تھے لیکن بھارتی مذکورہ اقدام کے خلاف اور مظلوم کشمیریوں کی خبریں انٹرنیشنل میڈیا میں جگہ پانے لگیں۔ پاکستانی بیانئے میں 5اگست کے بعد پاکستانی پبلک، بھارتی پبلک اور بین الاقوامی پبلک کے سامنے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم لوگوں کو بھارتی جارحیت سے نجات دلوانے کے لیے جو حکمت عملی ظاہر کی گئی ہے اس کے تینوں ایریا میں ممکنہ نتائج کچھ اس طرح ہو سکتے ہیں۔

پاکستانی پبلک کے جذبات کے ممکنہ نتیجے کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی پبلک نے 5اگست کے بھارتی فیصلے پر شدید غم و غصے کا ردعمل دیا۔ پاکستانی پبلک بھارت کے اس فیصلے کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے دکھ جیسا ہی دکھ سمجھی۔ پاکستان کی بوڑھی نسل کو اگست 1947ء کی اپنے پیاروں کی خون سے لت پت لاشیں اور اپنی پیاریوں کی بے کفن عزتیں نظر آنے لگیں۔

اُس بوڑھی پاکستانی نسل نے اپنے آپ کو اگست 1947ء کے دنوں میں دوبارہ کھڑا پایا۔ پاکستان کی نوجوان نسل نے اپنی جوانی والے پورے جذبات کے ساتھ بھارتی حکمرانوں کو طاقت کے ساتھ سبق سکھانے کا عزم کیا۔ اس سب کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستانی حکومت نے 5اگست کے بھارتی فیصلے کی سیاہ کاریوں کو پوری شدومد کے ساتھ پاکستانی پبلک کے سامنے رکھنے کے لیے مختلف بیانات، تقریریں اور پروگرامز مرتب کیے جن میں ہر جمعے کو یکجہتی کشمیر ریلی اہم سرگرمی قرار پائی۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی لیڈرشپ نے بھارت کو اینٹ کا جواب پتھرسے دینے کا کھل کر مسلسل اعلان بھی کیا جس کی اکثر پاکستانی پبلک نے بھرپور تائید کی۔ بھارت کے خلاف پاکستانی عوام کے جذبات 5اگست کے بعد جس سطح پر آچکے ہیں کیا کسی واضح نتیجے کے بغیر اُن جذبات کی واپسی آسان ہوگی؟ پاکستانی حکومت کے پاس بھارت کے ساتھ نمٹنے کے لیے دو ہی راستے ہیں۔

پہلا راستہ جو مذاکرات کہلاتا ہے اس کا گزشتہ 72برسوں میں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس لیے اب بھی کسی فائدے کا امکان نہیں ہے۔ دوسری صورت اپنے دفاع میں طاقت کا استعمال ہے۔ پاکستانی حکومت اس سلسلے میں آخری حد تک جانے کا اعلان کرچکی ہے۔ اگر مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی حکومت مستقبل قریب میں کوئی بڑی اچیومنٹ نہ کرسکی تو پاکستانی پبلک کے جذبات کا ملبہ پاکستانی حکومت اور بااختیار لوگوں پر گرے گا۔

اب بھارتی پبلک کے ردعمل کی بات کرتے ہیں۔ بھارت کے 5اگست کے اقدام کے خلاف اُس کی اپنی پبلک میں اٹھنے والی چند آوازوں میں سب سے اہم فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسی وہ کشمیری قیادت ہے جو 1947ء سے اب تک پاکستان پر بھارت کو ترجیح دیتی آئی ہے لیکن اِن دنوں بھارتی اقدام کے خلاف نظر آتی ہے۔ ایسی لیڈرشپ کے حوالے سے دو باتیں غور طلب ہیں۔

پہلی یہ کہ کیا فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی وغیرہ کی قیادت ”کشمیر بنے گا پاکستان“ جیسے نعرے کی حمایت شروع کردے گی؟ دوسرا یہ کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ مذکورہ بالا قیادت اپنی موجودہ نظربندیوں اور گرفتاریوں کے دوران دوبارہ سے بھارت کے موثر رابطوں میں آجائے اور رفتہ رفتہ اپنی کشمیری آبادی کو مختلف دلائل کے ساتھ کسی نئی گمراہی کی لائن پر لگا دے؟ آخر میں بین الاقوامی پبلک کے ردعمل کے ممکنہ نتیجے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے کہ بین الاقوامی پبلک کی سرکاری سطح پر مظلوم کشمیریوں کے حوالے سے ہمدردی کا معاملہ کیا مشکوک بھی ہوسکتا ہے؟ بیشک موجودہ امریکی صدر ٹرمپ نے دو مرتبہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر ثالثی کی بات کی۔

پاکستان مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے حوالے سے تیسرے فریق کی ثالثی پر کوئی اعتراض نہیں کرتا لیکن بھارت کو یہ قبول نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکی صدر ثالثی کرتے ہوئے پاکستان کو بھارت پر ترجیح دیں گے یا بھارت کو ناراض کرکے کشمیریوں کے حق کی بات کریں گے؟ اگر بھارت نے سفارتی چال چلتے ہوئے ٹرمپ کی ثالثی کو تسلیم کرلیا تو پاکستان کے پاس ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کا مقصد حاصل کرنے کا کیا کوئی راستہ رہ جائے گا؟ ہوسکتا ہے اس ثالثی میں کچھ چھوڑ دو اور کچھ لے لو کی بات ہو۔

اگر ایسا ہوا تو کیا کشمیری اِسے قبول کرلیں گے؟ وہ کشمیری جو ڈوگرہ راج اور بھارتی فوجوں کے سامنے ایک صدی سے زائد سے آزادی کے لیے اپنی جان کے نذرانے پیش کرتے آئے ہیں کیا کچھ چھوڑ دو اور کچھ لے لو کی ثالثی کے سامنے بھی مزاحمتی تحریک شروع نہ کردیں گے؟ بین الاقوامی دوستی کا مطلب ہرملک کی اپنی مفاد پرستی ہوتی ہے۔ 5اگست کے بعد یہ بات پاکستانی پبلک پر واضح ہوچکی ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں بین الاقوامی ممالک بھارت کے ساتھ اپنے مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے سلسلے میں جو تھوڑی بہت سفارتی کامیابی ملی ہے کیا وہ پاکستانی حکومت کو کسی نئے ٹریپ میں لانے کا پیش خیمہ تو نہیں ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

india nw kashmir pt trump ki salsi maan li tu phir is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 September 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.