ہرسکھ نوجوان، بوڑھے بچے، عورت،مرد کو عظیم مجاہد سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے نقشِ قدم پر چلنا ہو گا، اپنے اس عظیم ہیرو کی طرح ہندوؤں کے سامنے ننگی تلوار لے آکر اپنے وطن ”خالصتان“ کا میدان گرمانا ہو گا
باباگرونانک کے ایجاد کر دہ مذہب سکھ مت کے پیروکاروں کی تعداد کروڑوں میں ہے، سکھ مت ”میڈ اِن پنجاب “ مذہب بھی کہلاتا ہے اور یہ ماضی قریب ترین کا آخری اور معروف مذہب ہے ، یہ اپنے پیروکاروں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا مذہب ہے ، یہ الہامی مذاہب میں تین سے 4ہزار سال پرانے مذہب یہودیت سے عمر میں کہیں چھوٹا مگر حجم میں کہیں بڑا ہے چہ جائیکہ سکھ مت الہامی مذہب نہیں،اگر یہ الہامی مذہب ہوتا تو شاید اسلام اور عیسائیت کے قریب قریب ہوتا،سکھ مت کے پیروکار امن پسند،جفاکش، بہادر اور محب وطن لوگ ہواکرتے ہیں، یہ لوگ توحید کے معاملے میں مسلمانوں کے ہم پلہ ہیں،ان کی مذہبی کتاب ”گرو گرنتھ“کے مواد میں مسلم اولیاء کرام و صوفیائے حضرات کے اقوال و اشعار اور کافیاں کثرت سے پڑھنے کو ملتی ہیں، سکھ مت کے بانی ”بابا گرونانک“ ہمارے پیارے نبی رحمت ﷺ کے سچے اور کھرے عاشق تھے، اکابرین امت آج بھی ان کو مسلمان گردانتے ہیں ،مگر ہندوؤں کی ہٹ دھرمی سے ان کا معاملہ لا حاصل رہا ، برصغیر پاک و ہند کے خطہ پنجاب سے ظہور ہونے والے اس مذہب کے پیروکاروں کو دنیا کی بہادر قوم کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، مسلمانوں کے بعد اگر کوئی قوم موت سے نہیں ڈرتی تو وہ سکھ قوم ہی ہے، اس قوم میں بڑے بڑے بہادرسپوت پیدا ہوئے ہیں، جن میں سر فہرست سردار رنجیت سنگھ کا نام آتا ہے کہ پنجاب کی تاریخ کا واحد پنجابی حکمران ہو گزرا ہے جس سے پہلے اور نہ ہی بعد میں اس دھرتی کا کوئی سپوت متحدہ پنجاب پر حکمرانی کر سکا۔
(جاری ہے)
بلاشبہ تاریخ کا یہ منفرد اعزاز سکھ قوم کے حصے میںآ تا ہے۔حریت پرستوں کی دنیا میں بھی نظر دوڑائیں تو بھگت سنگھ ستاروں کے جھرمٹ میں چاند کی طرح نمایاں ہیں، جبکہ فرنگی کو یہاں سے بھگانے میں جتنا جارحانہ انداز سکھوں کا تھا اتنا شاید مسلمانوں اور ہندوؤں کا نہیں تھا،انگریز ہندوستان کی تمام اقوام میں سب سے زیادہ سکھوں کا سامنا کر نے سے گھبراتے تھے،مسلمانوں اور ہندوؤں کے پریشر کے ساتھ سکھوں کا خوف تھا کہ فرنگی کو بوریا بستر باندھ کر یہاں سے کو چ کر نا پڑا ،مگر افسوس صدا فسوس کہ دنیا کی اس عظیم بہادر قوم کا اپنا کوئی ایسا وطن نہیں جسے سکھ اسٹیٹ کہا جا ئے،دنیا کی بات چھوڑ کر اس خطہ کی بھی بات کریں تو ہندوستان میں مسلمانوں نے ہندوستان کو صدیوں غلام رکھنے کے بعد توڑ کر اپنا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان حاصل کر لیا، ہندوؤں نے باقی ماندہ ہندوستان سنبھال لیا،اور قوم کے غدار( نام نہاد لیڈر) مسٹر تاراسنگھ کو ساتھ ملا کر سکھ قوم کو سکھ سلطنت کا وجود کھڑا کرنے سے محروم کر دیا، کہنے کو تو ہندوؤں نے ہندوستان کو سیکو لر سٹیٹ کا نام دیا مگر نام کا انتخاب ہندوؤں کی مذہبی کتاب” مہا بھارت“ سے لفظ بھارت کا کیا گیا ، جس کی تہہ میں چھپی ہندوؤں کی منافقت کو چند سکھ رہنماؤں نے بھانپ لیا لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی ۔سکھوں نے دامے،درمے ، سخنے اپنے لیے خالص سکھ اسٹیٹ خالصتان کے لیے جدوجہد شروع کی تو ہندوؤں کی منافقت اور سکھ دشمنی اژدھا بن کر ان کے سامنے آگئی، پھر کیا تھا سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ جیسے سکھ قوم کے حقیقی خیرخواہوں اور مجاہدوں نے ہندوستانی راجدھانی کو سکھ لہجے میں للکارا تو ہندوستان کی بنیادیں تک ہلادیں۔ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور اس کے جانباز ساتھی خالصتان کے حصول کی منزل کے بالکل قریب تھے کہ ایک بار پھر اپنوں کی غداری اور بے حسی کے سبب سکھ قوم کو پلید اور بزدل ہندوؤں کے ہاتھوں گہرا گھاؤ لگا اور خالصتان کے حصول کا مقصد پس پردہ چلا گیا، سنت جرنیل سنگھ اپنے جا نثار ساتھیوں کے ساتھ ہندوؤں کی فوج کے آپریشن ”بلیو سٹار“کا شکار ہو کر شہید ہو گئے ، پلید ہندو ،سکھ قوم کے مقدس مقام ”گولڈن ٹیمپل“ میں بے حرمتی کی غرض سے بوٹوں سمیت داخل ہوئے، وہاں شرابیں پی گئیں، سکھ عورتوں کی گولڈن ٹیمپل کے مقدس حجرے میں عزتیں تار تار کی گئیں ۔سکھ مت کے گروؤں کے علی الاعلان مذاق اڑائے گئے، بابا گرونانک کی مورتی نما تصویر کو برہمن ذات ہندو فوجی کشو ر سکسینہ نے اپنے پلید پاؤں کے نیچے مسلا، حتیٰ کہ پورے ہندوستان میں سکھوں کا منظم طریقے سے قتل عام کیا گیا،سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اپنے روحانی رہبر و پیشوا با با گرو نانک کے مذہب اور اس کے پیروکاروں کی خاطر شہید ہو کر مستقبل میں سکھ قوم کے ہر حریت پرست اور خالصتان سٹیٹ کے لیے جدوجہد کر نے والوں کے لیے رول ماڈل بن گئے۔
اب جبکہ سکھ قوم کی برسوں کی خاموشی ٹوٹی ہے ، کر تار پور راہداری ڈپلومیسی میں بھی ہندوؤں کی اداؤں سے سکھوں کی آنکھیں کھل گئیں اور انگلیاں انگشت بدنداں ہو گئی ہیں ،اوپر سے ہندوؤں کی شدت پسند تنظیم آر۔ایس۔ایس وغیر ہ کی جانب سے بھارتی آئین میں رہ کر سکھ قوم کی بہتری کے لیے کام کر نے والے سابق بھارتی کر کٹر اور سکھوں کے موجودہ دور کے عظیم فرزند ”مسٹر نوجوت سنگھ سدھو“ کے سر کی کروڑوں روپے قیمتیں مقرر کرکے سکھ قوم کو غلام بنائے رکھنے کا ہندوؤں کے منصوبے کا پردہ چاک ہوا ہے ، جس سے سکھ قوم میں بیداری کی ایک لہر اٹھ رہی ہے۔
کینیڈا ،امریکہ،یورپ ،مڈل ایسٹ میں مقیم سکھ نوجوان نئے عزم سے اپنے سکھ وطن کے لیے بیدار و تیار ہو رہے ہیں، سوشل میڈیا پر ببر خالصہ اور دوسری معروف سکھ آزاد ی پسند تنظیموں کے جانباز کارکنان اپنے اپنے مگر خوبصورت انداز میں ہندوؤں کو للکار رہے ہیں۔سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے دور میں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نہیں تھا لیکن آج کا سکھ نوجوان اور لیڈر سوشل میڈیا کی بدولت ہر لمحہ رابطے میں ہیں ،کینیڈا ، امریکہ اور یور پ میں رہنے والے خالصتانی سکھ ہندوستانی محکوم سکھ کی حالت سے لمحہ بہ لمحہ واقف ہیں ۔
ادھر کشمیر میں ہندوستانی فوج بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر باؤلے پن پہ اتر آئی ہے ، نا گالینڈ ،آسام،اتر کھنڈ اور جنوبی ہندوستان میں نکسل قبائل اور دوسری اقوام کی تحاریک آزادی ،اپنی منازل کے قریب پہنچ چکی ہیں،افغانستان میں ہندوستان کا نیا باپ امریکہ توقعات کے عین مطابق بری طرح پٹچکا ہے ،وہ طالبان مجاہدین سے واپسی کے لیے خیریت کی بھیک مانگ رہا ہے،فی الحال امریکہ اس خطہ میں کسی دوسرے ملک کے لیے اپنا سر پٹوانے سے گھبرا رہا ہے ، وہ جلد از جلد افغان دلدل سے نکلنے کی تگ و دو میں مصروف ہے ، ایسے میں پاکستان ،چین ،سری لنکا اور سکھوں کے لیے ہندوستان کی حدتک ایک سنہری موقع ہے کہ خالصتان اور جموں و کشمیر کی آزادی کے لیے ایک ہو جائیں تاکہ ہندوستان کی برہمن شرارتوں سے پورے خطے کو محفوظ کیا جا سکے، ویسے بھی پاکستان ، سری لنکا ، مالدیپ ،افغانستان، چین، نیپال ،بھوٹان ایسے ممالک کا ہندوستان کے ذمے بہت زیادہ ”جغرافیائی قرض “ہے“جسے چکانے کا اب وقت آچکا ہے ،اور اس قرض نما فرض کو چکانے کا بہترین حل یہی ہے کہ خالصتان کے قیام کے لیے یہ تمام ممالک سکھوں کا بھرپور ساتھ دیں ، اس کے ساتھ ساتھ الفا ٹائیگرز آسام، اترکھنڈ آرمی، نا گالینڈ فورسز، دکن مجاہدین، اترانچل، کیرالہ، اتر پردیش ،کرناٹک ، مدھیہ پردیش میں دلتوں کی آزادی پسند تنظیموں اور جہاں تک ممکن ہو سکے راجستھان و مہاراشٹر کے آزادی پسند ٹھاکروں کو سارک ممالک اپنی بقاء کی خاطر بھر پور سپورٹ کریں کیونکہ ہندوستان کے جتنے زیادہ ٹکڑے ہوں گے یہ اس خطے کے دوسرے ممالک اور اقوام کے لیے بہتر سے بہترین ہوگا،سب سے زیادہ یہ ذمہ داری چین، پاکستان اور سری لنکا کی ہے کہ بھارت کے ٹوٹنے میں ہی ان تین برادر ملکوں کے طویل مدتی مفادات کا تحفظ ممکن ہے، اگر بھارت کی موجودہ شکل میں عظیم الجثہ اژدھا اسی طرح قائم رہا تو برادر ملک چین کا ون روڈ ون بیلٹ کا منصوبہ خصوصاً سی پیک کی تمام تر سرمایہ کاری کے سرپر ہر آن سنگین خطرہ منڈلاتا رہے گا، جبکہ پاکستان اور سری لنکا کو تو ویسے بھی بھارتی جارحیت کا قرض چکا نا ہے ۔
ادھر نیپا ل کو بھی آئے دن کی ہندوستانی ناکہ بندی سے آزاد ہو نا ضروری ہے،غرض کہ خطہ کا کوئی ملک بھارتی کارستانیوں سے محفوظ نہیں رہا۔بھار ت کو جس ملک میں موقع ملتا ہے یہ وہاں گڑ بڑ کروادیتا ہے حتٰی کہ کھلی جارحیت کر کے ملک توڑنے کے بھی جرائم کا ریکارڈ رکھتا ہے تو کیوں نہ اس شیطان اسٹیٹ کا ہی خاتمہ کیا جائے؟
ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی طرح سکھ مت ایک علیحدہ مذہب اور سکھ ایک بالکل علیحدہ قوم ہیں ، مذہب کی بنیاد پر کئے گئے بھارت کے بٹوارے میں سکھوں کی طرف سے خالصتان کے حصول کی صدا بلند ہو نا عین حق ہے، جو سکھوں کو ہر صورت ملنا چاہیئے،بھارتی آئین میں سکھوں کے لیے ان کے حق عظیم کی کوئی گنجائش نہیں ہے اپنے اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے اور اپنے رہبر و پیشوا ، بابا گرونانک کی چوکھٹ پہ سرخرو ہونے کے لیے ہر سکھ نوجوان، بوڑھے بچے، عورت،مرد کو عظیم مجاہد سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے نقشِ قدم پر چلنا ہو گا، اپنے اس عظیم ہیرو کی طرح ہندوؤں کے سامنے ننگی تلوار لے آکر اپنے وطن ”خالصتان“ کا میدان گرمانا ہو گا،سکھوں کو اپنے پیار ے وطن کی آزادی کے لیے جان،مال، عزت و آبر و کو لٹا نا ہوگا،سکھ قوم جس دن متحد ہو کر اس آگ و خون کے دریا میں کود پڑی اسی دن اس پار خالصتان کا گلزار ان کا منتظر سامنے کھڑا ہو گا، نوجوت سنگھ سدھو کو بھی اب بھارتی سکھ والی پہچان ختم کر کے خالصتانی سکھ بن جا نا چاہےئے،ورنہ ابھی تو سر کی قیمت لگی ہے ،بھارتی آئین میں بھٹکے رہے تو بہت سی قیمتیں آپ کو چکانی پڑ جائیں گی اور سکھ قوم ایک طویل عرصے تک با با گرونانک کے دیس خالصتان کو حاصل کر نے کی منزل سے بہت دور چلی جائے گی،پھر کس منہ سے جاؤ گے با با گرونانک کی چوکھٹ پر؟……آخر میں وطن عزیز پاکستان کے پالیسی سازوں پر بھی یہ بات واضح کر تاچلوں کہ کشمیر کی آزادی کی کامیابی کا راز بھی سکھوں کے خالصتان کی آزادی میں مضمر ہے تم سمجھتے کیوں نہیں؟……
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
Jarnail Singh Bhindranwala se navjot singh sidhu tak is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 February 2019 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.