خاموش قاتل

علاقے کا امن خطرے میں پہلی بھارت ایٹمی آبدوز سمندر میں اُتار دی گئی

جمعہ 4 ستمبر 2020

Khamoosh Qatil
راجہ جاوید علی بھٹی
بھارت نے اپنی پہلی ایٹمی آبدوز”خاموش قاتل“سمندر میں اتار دی ہے جس کے بعد بھارت دنیا میں ایٹمی آبدوزیں تیار کرنے والا چھٹا ملک بن گیا ہے جبکہ بھارتی آبدوز سمندر سے سٹرائیک بیک یا جوابی ایٹمی حملے کی صلاحیت سے بحر ہند،بحر عرب اور ملحقہ ممالک کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے اور علاقے میں طاقت کا توازن بگڑ گیا ہے۔ساگاریکا میزائلوں سے لیس اس بھارتی ایٹمی آبدوز کا فوری ہدف پاکستان ہے چین نہیں۔

بھارت کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ اس آبدوز کا منصوبہ پاکستان نہیں چین سے متعلق ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ساگاریکا میزائل سے لیس خاموش قاتل آبدوز کا ہدف پاکستان ہے چین نہیں کیونکہ اس آبدوز پر نصب ساگاریکا میزائل کی پہنچ پاکستان تک ہے چین تک نہیں بحرہ بنگال سے یہ آبدوز ساگاریکا میزائل داغ کر چین کو ہدف نہیں بنا سکتی تاہم پاکستان اس کا یقینی ہدف ہے۔

(جاری ہے)

مستقبل میں اگنی میزائل کی تنصیب کے بعد یہ آبدوز دنیا میں کسی بھی جگہ حملہ کرنے اور سکینڈ سٹرائیک کرنے کی صلاحیت حاصل کرلے گی۔اس کے ساتھ ہی اگر (ایم آئی آر وی)ملٹی پل انڈپینڈنٹ ری انٹری وہیکل سسٹم لگ جائے تو بہت زیادہ اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کار پیدا ہو جائے گی۔بھارتیوں کا یہ بھی کہنا ہے اس آبدوز کی رفتار 24ناٹ ہے جبکہ تجزیے کے مطابق یہ 27ناٹ تک بنتی ہے۔

ہر ایٹمی آبدوز شور کرتی ہے اور روایتی آبدوز کے مقابلے میں آسانی سے اس کا سراغ بھی لگایا جا سکتا ہے اور نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔اس لئے ایٹمی آبدوز بنیادی طور پر بحری جنگی جہازوں کے بجائے جوابی ایٹمی حملے (سیکنڈ سٹرائیک) کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔
سیکنڈ سٹرائیک سسٹم کی تین بنیادی ضروریات ہوتی ہیں۔ایک Stealth یعنی خاموشی سے چھپ کر وار کرنے کے قابل ہو۔

موبائل یعنی چلتا پھرتا اور متحرک ہو اور تیسرا تباہ کن جوابی حملہ کرے۔سٹرائیک بیک یا سیکنڈ سٹرائیک تبھی موثر ہو گا جب دشمن کے ایٹمی حملے سے بچ جائے گا۔دنیا میں فسٹ سٹرائیک یا پہلے ایٹمی حملے کا مقصد ہی زمین پر دشمن کی تمام ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنا ہوتا ہے جبکہ جوابی حملے سمندر سے ایٹمی آبدوز کے ذریعے کئے جا سکتے ہیں۔ان حالات میں پاکستان کو کسی بھی صورت میں بھارت کے ساتھ پہلے ایٹمی حملہ نہ کرنے کا معاہدہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بھارت نے ایٹمی آبدوز کی شکل میں سیکنڈ سٹرائیک کی بھرپور صلاحیت حاصل کرلی ہے۔

امریکہ،فرانس،برطانیہ،روس اور چین کے تمام سیکنڈ سٹرائیک سسٹم سمندروں میں ایٹمی آبدوزوں پر لگے ہوئے ہیں کیونکہ اگر سیکنڈ سٹرائیک سسٹم لینڈ بیس،ائیر بیس اور کرافٹ بیس ہو گا تو شناخت اور تباہ کیا جا سکتا ہے جبکہ سیکنڈ سٹرائیک سسٹم کا فسٹ سٹرائیک میں محفوظ رہنا لازم اور سلامتی کا بنیادی تقاضا ہے۔پاکستانی حکومت اور پاکستان نیوی کو چاہیے کہ ہر قیمت پر پاکستان کا سیکنڈ سٹرائیک سسٹم سمندروں میں ایٹمی آبدوزوں پر قائم کرے کیونکہ سٹریٹجگ سسٹم اس وقت تک مکمل نہیں ہوتے جب تک سیکنڈ سٹرائیک سسٹم آپریٹو نہیں ہو جاتے۔

فسٹ سٹرائیک سسٹم کو بڑھاوا دینے کے لئے سیکنڈ سٹرائیک سسٹم بہت ضروری ہے۔
بھارت کی طرف سے ایٹمی آبدوز خاموش قاتل سمندر میں اتارے جانے کے بعد بحرہ ہند اور بحیرہ عرب سمیت بہت سارے ممالک کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے اور خطے کا توازن بگڑ گیا ہے۔ساگاریکا میزائل کی پہنچ پانچ سو سے سات کلو میٹر تک ہے مگر ایٹمی آبدوز تو ہر جگہ پہنچ سکتی ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ بھارتی حکومت نے تیس ارب روپے کی لاگت سے مزید دو جوہری آبدوزیں تیار کرنے کی منظوری دے دی ہے۔آئندہ تیار کی جانے والی جوہری آبدوزوں کا ڈھانچہ ریاست گجرات میں سورت کے نزدیک ہازیرا بندرگاہ پر تعمیر ہے۔مزید دو آبدوزوں کی تیاری کے بعد ان میں سے ایک کو سمندر میں اتار دیا جائے گا جبکہ ایک آبدوز ان کی پشت پناہی کیلئے بحری اڈے پر کھڑی رہے گی۔

دونوں آبدوزیں اعلیٰ جوہری صلاحیتوں کی حامل ہونگی جو بیلسٹک میزائل حملوں کے لئے استعمال ہوں گی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان ہر صورت میں دو تین ایٹمی آبدوزوں کی تیاری کے لئے ایٹمی پروگرام کے انداز میں ہر طرح کی قربانی اور سیاسی عزم کا مظاہرہ کرے۔
1970 ء کے شروع میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے انڈین نیوی کو بحرہند پر مکمل تسلط کا ہدف اور ایجنڈا دیا تھا۔

1974ء میں پوکھران کے مقام پر پہلے بھارتی ایٹمی دھماکے کے بعد نئی دہلی کے مختلف مراکز میں بھارتی ایٹمی ڈاکٹرائن کو توسیع دینے کے آئیڈیاز اور تجاویز پر غور و خوض شروع کر دیا گیا جس میں ایٹمی آبدوزوں کی خرید اور تیاری بھی شامل تھی۔ممبئی بنگلور اور وشاکاپٹنم میں خفیہ طور پر ڈیفنس ریسرچ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن(ڈی آر ڈی او) کے تحت ایٹمی آبدوزوں کی تیاری کا کام شروع کر دیا گیا۔

1980ء کے وسط میں بھارتی بحریہ کے کیپٹن صوبہ راؤ کو ممبئی سے اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب وہ خفیہ طور پر نیویارک جانا چاہ رہا تھا۔جب اس کے سامان کی تلاشی لی گئی تو اس میں سے ایٹمی آبدوز کے نقشے،ڈایا گرام اور ڈیزائن برآمد ہوئے جو وہ امریکہ لے جانا چاہتا تھا۔اس واقعے کے ساتھ ہی بھارت امریکہ کے خفیہ تعلقات اور بھارت کو علاقے میں فوجی اور ایٹمی بالادستی دلانے کا امریکی گیم پلان پہلی بار بے نقاب ہو جاتا۔


اس وقت پہلی بار اس منصوبے کا خفیہ نام ”اے ٹی وی“ ایڈونس ٹیکنالوجی وہیکل سامنے آیا۔اسی دوران بھارت میں جرمنی کے ساتھ 209 ایچ ڈی ڈبلیو آبدوزوں کی خریداری کے معاہدے کئے گئے جن میں سے دو آبدوزیں ایم ڈی ایل ممبئی میں بنی تھیں۔بھارت نے وہاں سے سب میرین کی تیاری اور ترقی کا عمل سیکھا۔تاہم اے ٹی وی منصوبہ خفیہ رہا۔بھارتی بحریہ کے ترجمان ہمیشہ اس منصوبے کے بارے میں لا علمی کا اظہار کرتے رہے اور ایسے کسی منصوبے سے انکار بھی ۔

یاد رہے کہ اے ٹی وی منصوبے کے بارے میں بھارت کی مدد روس،فرانس اور جرمنی نے بھی کی جبکہ 1991ء میں بھارت کا پہلا وی ایل ایف ویری لوفریکیونسی ٹرانسمیٹنگ سٹیشن بنگکلور سے دو سو کلو میٹر جنوب میں تیار کر لیا گیا۔اس وی ایل ایف سٹیشن کی تیاری میں مدد امریکہ نے فراہم کی۔اس کے ساتھ ہی بھارت میں خفیہ طور پر وہ بڑی ڈرائی ڈوک تیار کیں جہاں ایٹمی آبدوزوں کی خفیہ تیاری کا کام شروع کر دیا گیا۔

ان ڈرائی ڈوک میں ہونے والی سرگرمیوں کو خفیہ رکھنے کے لئے ان کے اوپر چھتیں ڈال دی گئیں تاکہ خفیہ ایٹمی سرگرمیوں کو سیٹلائٹ کی زد میں آنے سے بچایا جا سکے۔دنیا بھر میں کوئی ایس ڈرائی ڈوک نہیں جن پر چھت ڈالی گئی ہو۔ان ڈرائی ڈوک کی تعمیر 1991ء سے شروع ہو کر 1995ء میں مکمل ہو گئی۔
قبل ازیں 1987ء کے آخر میں بھارت نے ایٹمی آبدوز ”آئی این ایس چاکرہ“ روس سے تین سالہ لیز پر لی۔

اس سب میرین کا بیس بھی ڈوک میں بنایا گیا۔یہ چار لی دن کلاس آبدوز تھی۔ان تین سال میں بھارت نے سب میرین ری ایکٹر اور نیوکلیئر سب میرین کو چلانے کے
 طریقے سیکھے۔اسی دوران آئی این ایس چاکرہ ایٹمی آبدوز کے نیوکلیئرری ایکٹر سے تابکاری کے اخراج کا واقعہ بھی پیش آیا۔جس میں سات افراد مارے گئے جن میں وہ روسی بھی شامل تھے۔
بہر حال 1995ء میں اے ٹی وی منصوبے کے تحت ایٹمی آبدوز کے ڈیزائن مکمل کرلئے گئے اور اس پر کام شروع کر دیا گیا۔

اس دوران بھارت کو کئی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا اور ڈیزائن میں کئی دفعہ ردو بدل کیا جاتا رہا۔چونکہ روسی زیر سمندر ٹیکنالوجی کمزور ہے اس لئے ساؤنڈ نیوگیشن اینڈ ارینجنگ کا سارا نظام فرانس سے لیا گیا تھا۔بھارت میں تیار کی گئی خاموش قاتل نامی ایٹمی آبدوز کا بنیادی نظام روس سے آیا ہے۔اس ایٹمی آبدوز کی تعمیر اور ڈیزائن میں روس کی دو آبدوزوں چارلی تھری کلاس اور اکولا کلاس کی ٹیکنالوجی کو یکجا اور مربوط کر لیا گیا ہے۔

خاموش قاتل آبدوز کا نیو کلیئر ری ایکٹر’ پی ڈبلیو آر سسٹم‘ یعنی پریشرائز واٹرری ایکشن سسٹم پر مبنی ہے۔
اس آبدوز سے متعلق بھارتیوں کے کئی دعوے تکنیکی حقائق کے منافی ہیں اور بہت ساری چیزیں چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔مثلاً ان کا دعویٰ ہے کہ اس آبدوز کاری ایکٹر 80میگا واٹ ہے لیکن در حقیقت یہ 100میگا واٹ ہے کیونکہ 80 میگا واٹ ری ایکٹر تو پانچ ہزار ٹن والی آبدوز کے لئے ہوتا ہے مگر خاموش قاتل آبدوز جس کا وزن نو ہزار ٹن تک ہے اس کے لئے تو سو میگا واٹ تک کاری ایکٹر چاہیے۔

بھارتیوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس آبدوز سے چار میزائل فائر کئے جا سکتے ہیں جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اتنی بری آبدوز سے 12میزائل داغے جا سکتے ہیں۔میزائل سالو کا دھانہ ڈھائی میٹر ہوتا ہے تو چارمیزائل لانچر سے بات نہیں بنتی کم از کم قابل بھروسہ نیو کلیئر ڈیفنس نظام کے لئے بار میزائل لانچ کرنے کی صلاحیت اور گنجائش اس آبدوز میں ہے۔بھارتی حکام کے مطابق اس آبدوز کی لمبائی 110 میٹر اور اس کا قطر دس میٹر بیان کیا گیا ہے۔

حالانکہ اس کا قطر تیرہ میٹر یا اس سے زیادہ ہونا چاہیے کیونکہ اگنی میزائل اور ساگاریکا میزائل کی لمبائی نو سے گیارہ میٹر بنتی ہے۔ساگاریکا میزائل کی رینج پانچ سو سے سات سو کلو میٹر ہے جو کہ پانچ سو کلو گرام ایٹمی مواد لے جا سکتا ہے جبکہ اگنی میزائل کی رینج تین ہزار کلو میٹر ہے جو کہ ایک ہزار کلو گرام ایٹمی مواد لے جا سکتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی ہندوستان کی عداوت،جارحانہ رویہ،وسائل میں پاکستان کو حصہ دینے سے انکار،دریاؤں کے پانی کی بندش،لاکھوں مسلمانوں کو زبردستی پاکستان ہجرت پر مجبور کرنا،کشمیر میں فوجیں داخل کرکے ناجائز قبضہ ،بھارت کے پاکستان کو جلد ختم کرنے کے دعوے وغیرہ نے ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ پاکستان کی پہلی ترجیح اور ضرورت اپنی سلامتی کا دفاع بن گئی۔

بھارت یہ چاہتا ہے کہ وہ برطانیہ کا جانشین ہو۔اس کی خارجہ پالیسی کا اہم مقصد یہ ہے کہ جنوبی ایشاء اور اس کے علاقے میں بالادستی قائم کی جائے۔ اپنی برتر فوجی قوت اور وسائل کی بنا پر بھارت کی خواہش ہے کہ برصغیر کی چھوٹی ریاستیں اپنی خارجہ پالیسیاں بھارت کی علاقائی اور عالمی ترجیحات کے مطابق اختیار کریں۔ تاہم 1998ء میں جوہری طاقت کے مظاہرے کے بعد پہلی مرتبہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر بات کی۔

اس کے بعد بھارت نے اپنے آپ کو ایک اور درجے کے جوہری طاقت کے طور پر منوانے کے لئے جس کے تینوں افواج کے پاس جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی طاقت ہو،امریکا کا دامن تھام لیا۔
امریکا نے بھی روس کی شکست وریخت کے بعد(جس میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا تھا)کو نظر انداز کرکے بھارت سے پیار محبت کی
 پینگیں بڑھانا شروع کر دیں اور اسے ہر قسم کی جوہری صلاحیت کی فراہمی کی راستے کھول دئیے اور پاکستان کیخلاف منفی پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ اس کا جوہری پروگرام دہشت گردوں کی زد میں آسکتا ہے اور عالمی امن کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

یہ پروپیگنڈہ بدنیتی پر مبنی ہے حالانکہ بھارت کی نیو کلیائی تاریخ ایسے حادثات سے بھری پڑی ہے جب ایسے حادثات رونما ہوئے جو بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بن سکتے تھے۔
واشنگٹن میں نیچرل ریسورس کونسل کے ایک ایٹمی ماہر کرسٹو فرپائن کے مطابق بھارت کا ایٹمی پروگرام دنیا بھر میں سب سے کم اہلیت رکھتا ہے اور وہاں حفاظتی معیار دنیا میں سب سے کم ہے۔

بھارتی جنگی جنون اور پاکستان دشمنی کوئی نئی بات نہیں ایک اٹل زمینی حقیقت ہے جس سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔بھارتی دفاعی بجٹ سے ہزاروں کی تعداد میں بھارتی ٹینک بلند وبالا پہاڑیوں سے ملحقہ چین اور دریاؤں کی دلدلی سر زمین بنگلہ دیش کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے بلکہ پاکستان کیخلاف ہی استعمال کئے گئے ہیں اور کئے جائیں گے۔اسی طرح اسرائیل کے تعاون سے اسرائیلی جاسوسی خلائی سیارہ بھارت سے ہی لانچ کیا گیا جو کہ پاکستان کی دفاعی اور ایٹمی تنصیبات کی جاسوسی کے لئے استعمال کیا جائے گا تا ہم پاکستان کی ایٹمی تنصیبات اور اثاثے بھارت کے مقابلے میں بہت زیادہ محفوظ ہیں۔

پاکستانی ایٹمی مراکز میں آج تک تابکاری یا آگ لگنے کا کوئی واقع پیش نہیں آیا۔پاکستان نیوی کے پاس بھی بھارتی ایٹمی حملے کے جواب میں سیکنڈ سٹرائیک کی صلاحیت بدرجہ اوتم موجود ہے اور قابل بھروسہ بھی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Khamoosh Qatil is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 September 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.