
لوڈ شیڈنگ، سیاسی جماعتیں اور عوام
گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی پنجاب کے زیر اہتمام ناصر باغ لاہور میں لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس جلسے کی صورت اختیار کر گیا۔ قمرزمان کائرہ، خورشید شاہ، اعتزاز احسن، منظور وٹو اور دیگر نے خطاب کیا۔قمر زمان کائرہ کا کہنا تھاکہ میاں شہباز شریف نے کہا تھا کہ تین ماہ میں بجلی نہ دی تو میرا نام تبدیل کر دینا
جمعرات 11 مئی 2017

گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی پنجاب کے زیر اہتمام ناصر باغ لاہور میں لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس جلسے کی صورت اختیار کر گیا۔ قمرزمان کائرہ، خورشید شاہ، اعتزاز احسن، منظور وٹو اور دیگر نے خطاب کیا۔قمر زمان کائرہ کا کہنا تھاکہ میاں شہباز شریف نے کہا تھا کہ تین ماہ میں بجلی نہ دی تو میرا نام تبدیل کر دینا۔ آج چار سال ہو گئے ہیں، لوڈشیڈنگ روزانہ چھ سے آٹھ گھنٹے ہو رہی ہے۔ قوم اتفاق رائے سے میاں شہباز شریف کی خواہش پوری کرے۔ انہوں نے کہا ”عوام پچھدے نیں۔ تساں کیتا کیہ اے؟“ پیپلز پارٹی نے نام بدلنے کے لیے ڈبہ رکھ دیا مگر نام کا اعلان نہیں کیا گیا۔ ان کا موقف تھا کہ باقی صوبوں سے بھی رائے لے کر متفقہ نام تجویز کریں گے۔
(جاری ہے)
بہرکیف سیاست میں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
2013ء کے الیکشن میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کا صفایا ہوا تو منظور وٹو نے اعتراف کیا کہ توانائی بحران، معاشی عدم استحکام اور میڈیا ٹرائل انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شکست کی سب سے بڑی وجہ رہا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ میری ماں بے نظیر بھٹو کہا کرتی تھیں ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ ووٹوں کے ذریعے پیپلز پارٹی کا پنجاب میں صفایا کر کے عوام نے انتقام لے لیا ہے جو لوڈشیڈنگ کے حوالے سے پنجاب سے روا رکھا گیا۔ اب پیپلز پارٹی والے میاں شہباز شریف کی نقالی کرتے ہوئے ہاتھوں میں پنکھے لے کر گول باغ میں بیٹھ گئے۔2013ء میں پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں کہا کہ پیپلز پارٹی دوبارہ اقتدار میں آئی تو توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گیس پائپ لائن، تھرکول پراجیکٹ اور دیگر کول پراجیکٹس کے ساتھ ساتھ بجلی پیدا کرنے کے لیے مختلف منصوبوں پر عمل درآمد یقینی بنائے گی۔ سوال یہ ہے کہ پانچ برسو ں میں ان منصوبوں پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟ میاں شہباز شریف نے اس سلسلے میں بیان دیا تھا کہ پانچ برس میں بجلی کا بحران حل نہ کرنا وفاقی حکومت کی مجرمانہ غفلت ہے۔ کرپٹ اور نااہل حکمرانوں نے اندھیر نگری مچا رکھی ہے۔ حکمرانوں نے سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے کے حل کی کوشش کرنے کے بجائے رینٹل پاور جیسے منصوبے شروع کر کے اپنی جیبیں بھریں۔ میرے سامنے پاکستان پیپلز پارٹی کا 1988، 1993 کا منشور بھی ہے جس میں کہا تھا کہ 2000 ء تک تمام دیہات اور شہروں کو بجلی کی فراہمی اور صنعتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس شعبہ میں خود انحصاری حاصل کی جائے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی بجلی، پانی اور توانائی کے شعبوں کی ترقی کے لیے مناسب تدابیر اختیار کرے گی۔ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر کے زراعت، صنعت اور نجی ضروریات کے لیے بجلی کی مناسب فراہمی اور اس سے متعلقہ دیگر سروسز تک آسان رسائی، توانائی کے شعبے میں افرادی قوت کا بہتر انتقام اور انصرام، سرکاری شعبے سے بوجھ کم کر کے بجلی کی پیداوار میں نجی شعبے کی حوصلہ افزائی۔ گویا توانائی پالیسی کے جو مقاصد 1988 اور 1993ء کے منشوروں میں پیش کیے گئے وہ 2013ء میں بھی انہی الفاظ میں پیش کیے گئے۔ کوئی تقریر سن لیجئے، کوئی اخبار پڑھ لیجئے، فقط دعوے، فقط وعدے، اب 2017ء میں وہی دعوے اور وعدے کیے جا رہے ہیں کہ الیکشن کا زمانہ ہے۔ کیا وہ عوام کو بیوقوف سمجھتے ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پیپلز پارٹی کا پانچ سالہ کارکردگی کے حوالے سے رپورٹ میں لکھا کہ ” گزشتہ پانچ سال کی حکمرانی میں ملکی تاریخ میں بدترین کرپشن اور بدانتظامی ریکارڈ کی گئی۔ اس سے قومی خزانے کو 18 ہزار ارب (180 کھرب) روپے کا نقصان ہوا۔ ان پانچ برسوں میں بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ پاکستان کی تاریخ کی بدترین سطح پر پہنچائی گئی۔“ اس قسم کے دعوے مسلم لیگ (ن) بھی کرتی رہی ہے۔ میاں نواز شریف نے 2013ء میں اپنی پارٹی منشور کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ برسراقتدار آ کر دو سال میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کر دیں گے۔ اب چار سال بعد کہا جا رہا ہے کہ اگلے سال یعنی 2018ء میں بجلی کی لوڈشیڈنگ زیرو کر دیں گے۔ اگلا الیکشن کا سال ہو گا۔ کیا یہ بھی الیکشن پراپیگنڈا ہے؟ لوڈشیڈنگ کے خلاف میاں شہباز شریف نے مینار پاکستان کے سائے تلے کیمپ لگائے رکھا۔ پیپلز پارٹی ناصر باغ میں احتجاج اور تقریریں کر کے چلی گئی۔ میاں شہباز شریف اس وقت بھی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ انہوں نے وہاں شکایات سیل قائم کیا۔ میجر آفتاب احمد (وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر) عوام کی شکایات سنتے اور متعلقہ محکموں کو ان شکایات کے ازالے کے لیے کہتے۔ میجر آفتاب احمد میرے کلاس فیلو (اسلامیہ کالج سول لائنز میں) رہ چکے تھے ۔ اس ناتے کبھی کبھار ان سے ملنے چلا جاتا۔ وہاں لنگر بھی جاری رہتا۔ لوگوں کے مسائل حل ہو پائے یا نہیں، البتہ سائلین کو لنگر کھانے کو مل جاتا
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
ایک ہے بلا
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
مزید عنوان
LoadShedding Siasi Jamatain is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 May 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.