”ون بیلٹ ون روڈ“منصوبے کیخلاف عالمی گٹھ جوڑ

نومنتخب امریکی حکومت افغانستان میں جنگ کے بجھتے الاؤ کو نئے انداز میں دہکائے گی

پیر 22 فروری 2021

One Belt One Road
راؤ محمد شاہد اقبال
صبر آزما اور سنسنی خیز لمحات کے بعد بالآخر امریکہ میں منتقلی اقتدار کا اونٹ اپنی الٹی کروٹ پر بیٹھ چکا ہے اور امریکی انتظامیہ کی جانب سے وائٹ ہاؤس کے پرانے مکین ڈونلڈ ٹرمپ کو خاموشی کے ساتھ طویل جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے جبکہ ان کی جگہ جوزف بائیڈن کو کرسی اقتدار پر متمکن کئے جانے کا اہم ترین فریضہ بھی خوش اسلوبی سے مکمل کیا جا چکا ہے۔

کیپیٹل ہل واشنگٹن کی راہ داریوں میں ہونے والی یہ تبدیلی امریکہ کے لئے کتنی نفع بخش ثابت ہو گی اور دنیا بھر کے لئے کس طرح سے نیک یا بد سیاسی اثرات کا موجب بنے گی یہ تو اگلے چند برس میں معلوم ہو ہی جائے گا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی جس انداز میں وائٹ ہاؤس سے بذور طاقت بے دخلی عمل میں آئی ہے اسے دیکھنے کے بعد تو یہ ہی سمجھ میں آتا ہے کہ جوبائیڈن کو ٹرمپ انتظامیہ کا ہر نقش کہن کو مٹانے کی بہت زیادہ عجلت ہے اور اگر امریکی اسٹیبلشمنٹ نے جوبائیڈن کی حمایت بدستور جاری رکھی تو وہ وقت دور نہیں کہ جب ٹرمپ انتظامیہ کی تشکیل دی گئی ہر پالیسی کو کوڑے دان کی نذر کر دیا جائے گا،واضح رہے کہ امریکی امور سیاست میں یہ ایک بالکل غیر معمولی اور غیر روایتی پیشرفت ہے کیونکہ واشنگٹن کے متعلق ہمیشہ سے دنیا بھر کا عام تاثر یہ ہی رہا ہے کہ ”اس عالمی شہر اقتدار میں حکمران ضرور بدلتے ہیں مگر ان کی بنائی گئی پالیسیاں کبھی تبدیل نہیں ہوتیں“لیکن اس مرتبہ معاملات سیاست امریکہ میں بھی یکسر مختلف انداز میں چلائے جا رہے ہیں اور وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر دنیا بھر پر حکمرانی کرنے والے نئے چہرے بلکہ یہ نئے مہرے ،پرانی بساط الٹ کر ازسر نو بساط بچھانے کی تیاری میں دکھائی دیتے ہیں اگر ایک لمحے کے لئے بھی ہم یہ تسلیم کر لیں کہ تاریخ واقعی اپنے آپ کو دہراتی ہے تو پھر یقینا ہمیں یہ بھی مان لینا چاہئے کہ امریکہ میں بارک حسین اوباما کا دور اقتدار،امریکی صدر جوزف بائیڈن کی صورت میں واپس آچکا ہے لیکن ہمارے درج بالا جملے سے یہ مطلب اخذ کرنا انتہائی غیر مناسب ہو گا کہ امریکی صدر جوبائیڈن کے امور صدارت کی دیکھ ریکھ سابق امریکی صدر بارک حسین اوباما فرمائیں گے یا اوباما سے ڈکٹیشن لے کر بائیڈن اپنی حکومتی پالیسیاں ترتیب دیا کریں گے کیونکہ ایک بات تو طے ہے کہ اگر امریکی سیاست زوال کی اتھاہ گہرائی میں بھی پہنچ جائے تب بھی جمہوریت کے ساتھ ایسا مذاق امریکہ میں روا نہیں رکھا جائے گا لہٰذا ہماری عرض داشت کی مختصر سی وضاحت یہ ہے کہ جوبائیڈن،بارک حسین اوباما کی طرز پر صدارت کرنے کی کوشش کریں گے اور دنیا بھر کے لئے ترتیب دی جانے والی امریکی پالیسیوں کا سلسلہ وہیں سے استوار کرنا چاہیں گے جہاں اوباما نے ادھورا چھوڑا تھا یا یوں سمجھ لیجئے کہ جس مقام پر ٹرمپ انتظامیہ نے عالمی امریکی پالیسیوں کو منقطع کیا تھا انہیں وہیں سے جوڑنے کا بنیادی ہدف جوبائیڈن انتظامیہ کا مرکزی چیلنج ہو گا۔

(جاری ہے)


جوبائیڈن کے انداز جہاں بانی کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لئے اوباما دور حکومت میں بنائی جانے والی امریکی پالیسیوں کا مطالعہ اور مشاہدہ از حد ضروری ہو گا ،ہمارے اس موٴقف کو تقویت جوبائیڈن کے منتخب کردہ حکومتی ٹیم کے اراکین کا جائزہ لینے سے بھی ملتی ہے دراصل نومنتخب امریکی صدر بائیڈن نے اپنی انتظامیہ میں چن چن کر ایسے افراد کا بطور خاص انتخاب کیا ہے جو یا تو براہ راست ماضی میں اوباما انتظامیہ کا حصہ رہ چکے ہیں یا پھر بالواسطہ طور پر کسی ایسی این جی او،اور تھنک ٹینک سے منسلک رہے ہیں،جنھیں اوباما کے دور صدارت میں امریکی پالیسیوں کے موثر نفاذ کے لئے تشکیل دیا گیا تھا بظاہر جوبائیڈن نے اپنی حکومتی ٹیم کے انتخاب کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفظ کے داعی اور محافظ بن کر سامنے آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

لیکن چشم کشا حقیقت یہ ہے کہ جوبائیڈن کے آنے والا دور صدارت بھی بارک حسین اوباما کے دور حکومت کی مانند جنگ و جدل اور کشف و خون کے نئے نئے حادثات سے عبارت ہو گا،ہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت پر چاہے کتنی ہی کڑی تنقید کیوں نہ کریں لیکن کم از کم ایک کریڈٹ تو اُنہیں ضرور دیا جانا چاہئے کہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں امریکہ کو کسی نئی عالمی جنگ میں نہیں جھونکا بلکہ ان کی حتی المقدور کوشش اور کاوش تو آخری دن تک یہ ہی رہی کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے امریکہ کو جنگ و جدل کی دلدل سے نکال باہر کیا جائے،سچی بات تو یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انفرادی زندگی میں کتنے بھی جھگڑالو طبیعت کی مالک کیوں نہ واقع ہوئے ہوں لیکن انہوں نے امریکہ کو غیر ضروری عالمی جنگوں سے نکالنے کے لئے جو غیر اقدامات کئے ،ان کی مثال امریکی کی پوری سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔

ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے تو (جیسے کہ ان کے بارے میں گمان ظاہر کیا جا رہا تھا)اپنے دور صدارت کے اختتامی ایام میں کوئی نئی جنگ چھیڑ کر امریکی انتخابات میں اپنی جیت کو یقینی بنا سکتے تھے لیکن انہوں نے دنیا کو ڈرایا،دھمکایا تو بہت،مگر عملی طور پر عالمی سطح پر امریکہ کو کسی بھی جنگ کا ایندھن بنانے سے گریز ہی کام لیا۔ٹرمپ کے برعکس جوبائیڈن بظاہر دنیا کو اپنا ہنستا مسکراتا چہرے سے خوش آمدید تو کہہ رہا ہے لیکن در پردہ،وہ دنیا بھر میں امریکہ کے لئے نئے محاذ جنگ گرم رکھنے کے خطرناک عزائم بھی رکھتا ہے جس کا اولین ثبوت بائیڈن انتظامیہ نے امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے پر نظر ثانی کرنے کا بیان داغ کر دے ہی دیا ہے۔


طالبان سے معاہدہ پر نظر ثانی کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے ایام میں جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے معاہدہ کو قائم اور برقرار رکھنے کیلئے ایسی سخت شرائط پیش کی جائیں گی،جو طالبان قیادت کے لئے قطعی طور پر ناقابل قبول ہوں گی جس کے بعد جوبائیڈن،طالبان پر ہٹ دھرم ہونے کا الزام عائد کریں گے اور افغانستان میں جنگ بجھتے ہوئے الاؤ کو ایک نئے انداز میں دہکا دیں گے نیز افغانستان میں شروع کی جانے والی اس جنگ کا دائرہ کار وسیع سے وسیع تر کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی جائے گی تاکہ چین کی جانب سے اس خطے میں شروع کیا جانے والا عالمی تجارتی منصوبہ”ون بیلٹ ون روڈ“ کا مستقبل مخدوش صورتحال سے دو چار کیا جا سکے اس مقصد کو فوری طور پر حاصل کرنے کے لئے واشنگٹن یقینا کابل میں نئی دہلی کی اجارہ داری قائم کرنا چاہے گا اس لئے جو سادہ لوح افراد یہ گمان رکھتے ہیں جوبائیڈن انتظامیہ، نریندر مودی سے بھارت اور کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر باز پرس کرے گی بلاشبہ ایسی سطحی سوچ رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ویسے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اگر منصفانہ باز پرس کے لئے کوئی عالمی عدالت تشکیل دی جائے تو اس کے کٹہرے میں سب سے پہلی صف میں امریکہ ہی کو کسی مجرم کی طرح کھڑا کرنا پڑے گا کیونکہ نائن الیون کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جتنی امریکہ نے کی ہیں وہ صرف بیان سے ہی نہیں بلکہ خواب و خیال سے بھی باہر ہیں لہٰذا جوبائیڈن کے انسانی حقوق میں دھوکے میں فقط وہ آئے گا جسے سرے سے معلوم ہی نہ ہو کہ انسانی حقوق کس چڑ یا کا نام ہے؟
اچھی طرح سے ذہن نشین رہے کہ اگر ٹرمپ کے دور صدارت میں کئے جانے والے امریکہ اور طالبان معاہدے کی بقا کو کسی بھی قسم کے سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں تو اس کی تپش براہ راست پاکستان تک بھی ضرور پہنچی گی نیز یہ بھی قوی امکان ہے کہ ”ڈو مور“ جیسے قصہ پارینہ بن جانے والے الفاظ کی گونج ایک بار پھر سے پاکستانیوں کی سماعت میں زہر گولنے لگے کیونکہ لفظ ”ڈو مور“ کی اصطلاح متعارف کروانے والے سفارتی بزرجمہر ہر وقت وائٹ ہاؤس میں جوبائیڈن کے دائیں،بائیں ہی موجود رہیں گے اور ان کے ہوتے ہوئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو کسی بھی قسم کی سیاسی،سفارتی اور معاشی رعایت کا مستحق قرار دیا جا سکتا ہے مگر دوسری جانب امریکہ کی جانب سے متوقع طور پر اختیار کردہ غیر منصفانہ سفارتی سلوک کا مثبت پہلو یہ بھی برآمد ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے لئے امریکہ سے اپنی برسوں پرانی سفارتی دوستی کو ختم کرکے مکمل طور پر چین کے کیمپ میں چلے جانا آسان ہو جائے بہرحال پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات کا تمام تر انحصار جوبائیڈن انتظامیہ کی اس پالیسی پر ہی ہو گا،جو وہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ اختیار کریں گے اگر جوبائیڈن کا جھکاؤ بھارت کی طرف زیادہ ہوا تو اس بار پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے درمیان فقط دراڑ نہیں پڑے گی بلکہ پورا گڑھا پڑ جائے گا،بعد ازاں جس کی مرمت کر پانا نہ تو امریکہ اور نہ ہی پاکستان کے لئے ممکن ہو سکے گا سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے درمیان وہ نازک موڑ آچکا ہے جس کے بعد مل کر چلنے،مل جل کر بچھڑ جانا زیادہ آسان ہو جاتا ہے بقول ساحر لدھیانوی
تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے ایک خوب صورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

One Belt One Road is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 February 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.